دوستی امتحان لیتی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دوستی امتحان لیتی ہے
ڈاکٹر منصور احمد باجوہ
٭ دوستی ہمیشہ دشمن بن کر امتحان لیتی ہے۔
٭ بعض دوست اس وقت نظر آتے ہیں جب ان کی ضرورت پڑے اور اکثر اس وقت
جب ان کو ضرورت پڑے۔
٭ دوست کی نسبت دشمن کو معاف کردینا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔
٭ جو بات ہمیں آخر کار یاد رہتی ہے، وہ دشمنوں کی باتیں نہیں ، دوستوں کی خاموشی ہوتی ہے
٭ دشمنوں کو معاف کردو، اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ان کے لئے نہیں ہو سکتی۔
٭ دوست وہ رشتے دار ہیں جن کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں ۔
٭ دوستی پیسے کی طرح ہے، بنانی آسان، سنبھال کر رکھنی مشکل۔
٭ دوستی کبھی نہیں ٹوٹتی اگر آزمائی نہ جائے۔
٭ سب سے اچھا رشتے دار وہ ہوتاہے جو آپ کا دوست بھی ہو۔
٭ دوستی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ دوست بن کر ہی کسی کو دوست بنایا جا سکتا ہے۔
٭ دوست ہمیشہ اچھے ہی ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ دوست ہوں ۔
٭ دوست کبھی سینے پروار نہیں کرتا، یہ کام صرف دشمن ہی کر سکتا ہے۔
٭ اگر آپ کسی دوست کی ضرورت کے وقت امداد کریں تو وہ آپ کو ضرور یاد رکھے گا....
جب بھی اسے دوبارہ ضرورت پڑے گی۔
دوست سے رقم مانگنے سے پہلے یہ فیصلہ کرنا مناسب ہے کہ آپ کو ان میں سے کس کی
زیادہ ضرورت ہے۔
کبھی اتنا تیز نہ چلیں کہ دوست آپ کا ساتھ نہ دے سکیں ۔
دوستوں سے زیادہ دشمنوں کی باتوں کو غور سے سنیں ۔ آپ کی غلطیوں کا پتہ پہلے انہی کو چلے گا
دوست کی طرف رجوع کرے۔
اچھے دوست کبھی نہیں پوچھتے” کیا کوئی مسئلہ ہے؟“ وہ ہمیشہ پوچھتے ہیں “ مسئلہ کیا
ہے؟“
دشمن کو دوست بنانا مشکل اور دوست کو دشمن بنانا بہت آسان ہے۔
دوست بنانے کا بہترین وقت وہ ہے جب آپ کو ان کی ضرورت نہ ہو۔
اچھے دوست بنانے کے لئے آدمی کو پہلے خود اچھا بننا پڑتا ہے۔
دوستوں سے صرف وہی توقعات رکھی جا سکتی ہیں جو دوست ہم سے رکھتے ہیں ۔
دشمن زخم لگاتے ہیں ، دوست صرف ان پر نمک چھڑکتے ہیں ۔
جب بھی کوئی مصیبت آئے، اپنے کسی دشمن کو جا کر سنائیں کیونکہ اس کے بارے میں
سن کر سب سے زیادہ خوشی اسی کو ہوگی۔
جانور اس لئے اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں کہ وہ سوال نہیں کرتے، تنقید نہیں کرتے،
ادھار نہیں مانگتے اور برے وقت میں چھوڑ کر بھاگتے نہیں ۔
افسوس ! دوست آتے جاتے رہتے ہیں ، دشمن اکٹھے ہوتے رہتے ہیں ۔
تکلیف پہنچانے کے لئے دوست اور دشمن مل کر کام کرتے ہیں ۔ دشمن گالی دیتا ہے اور
دوست اسے آگے پہنچاتا ہے۔
خوشحالی دوست بناتی ہے، عسرت انہیں آزماتی ہے۔
دوستوں سے زیادہ انسان کو اپنے دشمنوں کے انتخاب کے بارے میں احتیاط کی
ضرورت ہوتی ہے۔
اچھا دوست وہ ہے جو اپنی آسانی میں ہمیں یاد رکھے اور اپنی مشکل میں ہمیں بھول
جائے۔