ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
ام محمد رانا
حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا
نام ونسب:
میمونہ نام ہے، قبیلہ قریش سے ہیں ۔ سلسلہ نسب یہ ہے: میمونہ بنت حارث بن حزن ابن بحیر بن ہزم بن روتہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمتہ بن خصیفہ بن قیس بن غیلان بن مضر
والدہ قبیلہ حمیر سے تھیں ان کا نام حسب ذیل ہے:
ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطتہ بن جرش
نکاح اول:
پہلے مسعود بن عمرو بن عمیرثقفی سے نکاح ہوالیکن کسی وجہ سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی۔
(زرقانی ص288 ج 3)
پھر ابودرہم بن عبدالعزی کے نکاح میں آئیں ۔ ابودرہم نے سن 7ھ میں وفات پائی تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتساب کی کوشش کی۔
حرم نبی ﷺ میں : ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذیقعدہ سن 7ھ میں عمرہ کی نیت سے بسوئے مکہ روانہ ہوئے تھے اسی احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ اس نکاح سے محدثین اور فقہاءنے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ حالت احرام میں نکاح تو جائز ہے البتہ رخصتی احرام کھلنے کے بعد ہوگی۔
(بخاری ج2 ص611)
فضل وکمال:
حضر ت میمونہ رضی اللہ عنہا سے46 احادیث منقول ہیں جن میں بعض سے ان کی فقہ دانی کا پتہ چلتاہے۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ کچھ پراگندہ سے ہیں تو پوچھا:” بیٹے اس کا کیا سبب ہے؟“ انہوں نے جواب دیا” ام عمار (حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی) میرے کنگھا کیا کرتی تھیں (اور آج کل ان کے ایام کا زمانہ ہے)۔
اس پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بولیں “ کیاخوب! آنحضور صلی اللہ علیہ سلم ہماری گود میں سر مبارک رکھتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے اور ہم اسی حالت میں ہوتے تھے۔ اسی طرح ہم چٹائی اٹھاکر مسجد میں رکھ آتے تھے۔ بیٹا کہیں یہ ہاتھ میں بھی ہوتاہے؟
(مسندج 16ص331)
ایک عورت بیمار ہوگئی تو اس نے منت مانی کہ اگر میں صحیح ہوگئی توتو بیت المقدس جاکر نماز پڑھوں گی۔اللہ کی شان وہ صحت یاب ہوگئی اور سفر کی تیاریاں شروع کردیں جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو اس عورت کو کہنے لگیں : ” تم یہیں رہو اور مسجدنبوی میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نمازپڑھنے کاثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔“
(مسندج6ص333)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد:
حضرت ابن عباس، عبداللہ بن شدادبن الہاد،عبدالرحمن بن السائب،یزید بن اصم(یہ سب ان کے بھانجے تھے)،عبیداللہ الخولانی(ربیب تھے)، مذبہ(کنیز تھیں )، عطاءبن یسار،سلیمان بن یسار (غلام تھے)، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس کریب(ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام)، عبیدہ بن سباق،عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ اور عالیہ بنت سبیع۔ اللہ تعالی ان سب سے راضی ہو۔
اخلاق:
اخلاق میں بھی ایک در یکتا تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ” حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاخداسے بہت ڈرتیں اور صلہ رحمی کیا کرتی تھیں ۔”
(اصابہ ج8ص192 بحوالہ ابن سعد)
وفات:
یہ عجیب اتفاق ہے کہ آپ کا مقام سرف میں نکاح ہواتھا اور اسی جگہ میں وفات بھی ہوئی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں بھی انھوں نے اتارا۔ احادیث کی کتب میں ہے کہ جب ان کاجنازہ اٹھایاگیا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا:” یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں جنا زہ کو زیادہ حرکت نہ دو، باادب آہستہ چلو۔“
سال وفات میں اگرچہ اختلاف ہے۔لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے سن 51ھ میں وفات فرمائی۔
(صحیح بخاری ج2ص758)
رضی اللہ عنہا وارضاہا