ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
اس تشویشناک خبرنے کہ جانب جنوب سے عمرشیخ مرزا کابھائی سلطان مرز اپنے گھوڑے کو چراگاہوں میں چرانے کے بہانے سے اورشمال کی طرف سے خاقان اعظم محمود خان بھی بعینہ یہی بہانہ تراش کرایک لشکرجرار کے ساتھ جانب حجند بڑھ رہاتھا، عمرشیخ مرزاکے شکارکاسارامزہ کرکرا کردیاتھا بنابریں اس سے اپنے شکارکاتمام ترپروگرام منسوخ کرکے فی الفوراندرجان پہنچنے کاقصدکیا۔ اورپھر بسرعت تمام اپنے لشکرسمیت اندرجان پہنچ گیا۔ عمرشیخ مرزا کاشکارکھیلناتوفقط ایک بہانہ تھادراصل وہ ٹوہ لگاناچاہتاتھاکہ اس کے بھائی اورخاقان اعظم اس کے خلاف کس طرح اورکب تک لشکرکشی کرنے والے تھے۔ اس کایہ مقصد پوراہوچکاتھااوراسے معلوم ہوچکاتھاکہ دونوں فریقین مخالف حملہ آورہواہی چاہتے ہیں ۔ بنابرین وہ اندرجان پہنچتے ہی اپنی جنگی حکمت عملی ترتیب دینے لگا۔
چارسال قبل بھی سلطان احمدمرزا نے وادی فرغانہ پرشب خون مارنے کی جسارت کی تھی مگرعمرشیخ مرزا نے اسے اندرجان سے چارمیل دوربہنے والے دریاکے اس پارروک لیاتھا۔ یہ دریااندرجان کے لیے ایک ڈھال کاکام دیتاتھا۔ اگرچہ یہ دریانہایت تیزرفتارتھامگراس کی تہ میں کیچڑ اوردلدل باافراط پایاجاتاتھاجواس دریاکوعبورکرنے والوں کے لیے ایک آفت ناگہانی تھایعنی اگر کوئی ناواقف حملہ آور اس خوش فہمی میں مبتلاہوکر کہ دریاکی گہرائی بھی کم ہے اوراس کاپاٹ بھی زیادہ کشادہ نہیں ہے دریامیں اپنے گھوڑے ڈال دیتاتوپھرزندہ سلامت اسے دوسرے کنارے تک پہنچنانصیب نہ ہوتا اوردریامیں اترنے والے گھوڑے اپنے سواروں سمیت اس کیچڑ اوردلدل میں غرق ہوکراپناوجود تک کھوبیٹھتے۔
اس مرتبہ بھی عمرشیخ مرزا نے سلطان احمد مرزا کواسی دریاکے اس پارروکنے کامنصوبہ ترتیب دیا اس کے لیے یہ بات نہایت ہی باعث تشویش تھی کہ اس مرتبہ اسے دوطاقتوردشمنوں کے خلاف دومحاذوں پر نبردآزماہوناتھا۔ یعنی ایک طرف تو اس کابھائی سلطان احمدمرزا ایک لشکر جرارکے ساتھ حملہ آور ہوچاہتاتھاجبکہ دوسری طرف خاقان اعظم محمود خاقان ایک شتربے مہارکی طرح دوڑاچلاآرہاتھا۔
عمرشیخ مرزا نے فوج کاایک بہت بڑادستہ آخشی کی طرف بھیج دیااسے پورایقین تھاکہ آخشی کا مضبوط اورناقابل تسخیر قلعہ خاقان اعظم کے محاصرے کومہینوں تک برداشت کر سکتا تھا اور دوسری طرف اندرجان کی بغل میں بہنے والے دریاکی نالہ بندی کرنے کے لیے بھرپورتیاریاں کرلیں ۔ اندرجان میں اپنی عدم موجودگی کی بناپراس نے اپنے نوعمربیٹے بابرکوحکومت کی باگ ڈور سپرد کردی اورقاضی شہر کواس کاسرپرست اور مشیراعلیٰ مقررکردیا۔ گویااس طرح بابرصرف بارہ سال کی عمرمیں سریرآرائے سلطنت ہوگیا۔
حسن یعقوب جوکہ عمرشیخ مرزا کامشیر خاص تھا اور جس کے متعلق نانی اماں نے بابرسے ایک بارنصیحت آمیز لہجے میں یہ تھاکہ حسن یعقوب قابل اعتبار شخص نہیں ہے اس سے ہمیشہ ہوشیار رہنا اوراپنی اعانت کے لیے قاسم اورسلاخ کواپنے قریب رکھنا۔ اس نے عمر شیخ مرزا کومشورہ دیاکہ” ہمیں بہرحال جارحانہ جنگ سے احتراز کرناچاہئے کیونکہ ہمارے لیے صرف دفاعی جنگ ہی سودمندثابت ہوسکتی ہے۔“ عمرشیخ مرزا چاہتاتوحسن یعقوب کے مشورے پرصادکرتاکیونکہ کئی دوسرے امراءبھی اس کے ہم نواز تھے مگر اس نے اس مشورے کودرخوراعتنانہ سمجھااورمیدان جنگ میں ہی معرکہ آرائی کافیصلہ کیا۔
اس جنگ کے لیے عمرشیخ مرزا نے حکمت عملی یہ تیارکی کہ دشمن کے لیے غلہ، مویشیوں اورضروریات زندگی کواس قدرکمیاب کردیاجائے کہ اسے اوراس کے لشکرکوجان کے لالے پڑجائیں اورپھراس کے پاس میدان جنگ سے بھاگنے کے سوااورکوئی چارہ باقی نہ رہ جائے اور اگر بالفرض والمحال بھوک سے نڈھال لشکر مرنے مارنے پرتل بھی جائے تو اسے گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیاجائے۔ اوردوسری طرف اس نے آخشی میں محصورہوکروحشی منگولوں کامقابلہ کرنے والے لشکر کے لیے اس قدرسامان خورونوش کاذخیرہ کردیاجواس کے لیے مہینوں تک کافی ہوسکتاتھا۔ اس بات کے پیش نظر کہ اگرچہ آخشی کے محاصرے کے بعد اندرجان محفوظ توہوجاتامگر اس کے مسکینوں کے لیے بھی سامان خوردونوش کی فراہمی از بس ضروری تھی اس لیے اس نے اندرجان میں بھی سامان خورونوش کاذخیرہ کرلیاجواس کے مکینوں کے لیے کئی ماہ تک کافی تھا۔
ان پیش بندیوں سے فارغ ہوکرعمرشیخ مرزا نے آخشی کے قلعے کادورہ کیاتاکہ وہ تمام انتظامات کابنفس نفیس جائزہ لے سکے۔ اس نے وہاں پہنچتے ہی آخشی کے گردوپیش میں موجود ان پہاڑوں پرجن کے عقب سے مغلوں کے حملہ آورہونے کاامکان تھادیدبانی مرکزقائم کروائے اوران میں ماہر تیر انداز بٹھادئے تاکہ مغلوں کوآخشی تک آنے سے روکے رکھیں اور قلعہ میں موجود فوج کوبروقت آگاہ کرسکیں ۔
اس کڑے وقت میں بھی عمرشیخ مرزا اپنے تنہائی کے ساتھی کبوتروں کونہیں بھولاتھا۔ اس نے کبوتروں کے کابکوں پرمتعین ملازموں کوحکم دیاکہ وہ ا ن بے زبانوں کابہرطورخیال رکھیں اور انہیں بروقت دانہ دنکااورپانی مہیاکرتے رہیں ۔ کبوتروں کے کابکوں کامعائنہ کرنے کے دوران ایک ملازم نے عمرشیخ مرزا کوبتایاکہ:” پہاڑی کی عمودی چوٹی پررکھے ہوئے ایک بڑے کابک کی چھت ٹپکتی ہے اوربارش کے موسم میں اس کابک میں محصورکبوتر بھگ جاتے ہیں ۔”
عمرشیخ مرزا کواس اطلاع نے متوحش کردیااوروہ بسرعت تمام خستہ کابک کی چھت پرچڑھ گیااوراس کابنظرغائرمعائنہ کرنے لگا۔ عمر شیخ مرزا بڑے بھاری تن وتوش کامالک تھا، اڑتیس انتالیس سالہ اس موٹے اوروزنی کبوتروں کے عاشق بادشاہ کاوزن خستہ حال کابک سہارانہ سکااورلرزیدہ لرزیدہ پہاڑکی چوٹی سے ڈھلکنے لگا۔ وہاں موجود لوگوں نے دوڑ کرکابک اوراس پر بر اجمان بادشاہ کوسہارنے کی کوشش کی مگرناکام رہے۔
پوری رفتارسے قلابازیاں کھاتاہوا کابک پہاڑی کی چوٹی سے نیچے ڈھلکتا چلا گیا اور فرش زمین پرپہنچ کر بکھرگیا۔صرف بادشاہ اور کابک ہی نہیں بلکہ عمر شیخ مرزا کا بھاری بھرکم جسد خاکی بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے جب آخشی کے محل کے مکین اس حصے میں پہنچے جہاں کابک بکھراپڑاتھاتووہ یہ دیکھ کردم بخودرہ گئے کہ ان کا نیک دل بادشاہ بھی گوشت کے چھوٹے چھوٹے لوتھڑوں میں بٹ چکاتھا۔ یہ دردناک منظر دیکھ کران پر رقت سی طاری ہوگئی اوروہ دھاڑیں مارمارکرروتے بھی رہے اوراپنے ہردل عزیزبادشاہ کے دوردورتک بکھرے ہوئے جسم کے لوتھڑے بھی سمیٹتے رہے۔ وہ اس بُرے وقت میں انہیں دوطاقتورغنیموں کے نرغے میں تنہا کرگیاتھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ایک بارہ سالہ لڑکاخونخواردشمنوں سے کس طرح نبردآزماہوگااوران کے جان ومال کی کس طرح حفاظت کرسکے گا۔
اس سانحہ عظیم سے نوعمرشہزادے بابرکومطلع کرنابھی از بس ضروری تھابالآخرخاطرجمع کرکے ایک سوار کواس جانکاہ خبرکے ساتھ اندرجان بھیج دیاگیا۔ جب یہ غیرمتوقع المناک خبر اندرجان پہنچی توشاہی محل کے ساتھ ساتھ اس کے گلی کوچوں میں بھی ایک کہرام سا بپا ہوگیا۔ ہرآنکھ اشکبارتھی، امراءپراگندہ خیالی کاشکارتھے کیونکہ وہ خود کو لاوارث محسوس کررہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ جب مغلستان کاخاقان آخشی کامحاصرہ کرے گا تو پھر اس کی حفاظت کون اور کس برتے پر کرے گا؟ اس غیریقینی صورت حال کے پیش نظروفادارسلاخ نے اندرجان اورشاہی محل کی محافظت کے فرائض سنبھال لیے کیونکہ وہ جانتاتھاکہ ابن الوقت امراءطرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہوجائیں گے اوریہ بھی عین ممکن تھاکہ وہ بارہ سالہ نوعمرشہزادے بابرکی زندگی کے بھی درپے ہوجائیں ۔
بابربذات خود ایک بہت بڑے صدمے سے دوچارتھا۔ اس خبر نے اس کے اعصاب پرکیسااثرکیااس کاذکرتاریخ کے صفحات سے کہیں مترشح نہیں ہوتا اورنہ ہی بابرنے اپنے تئیں اپنی توزک میں اس کاذکرکیاہے۔ بہرحال ذمہ داری کے اس غیر متوقع بوجھ کے تصورنے اسے لرزہ براندام ضرورکردیاتھا۔ اس نے سلاخ کوتنہائی میں بلایااوراس سے پوچھا:
”اندریں حالات مجھے کیاقدم اٹھاناچاہیے اورمستقبل قریب میں واقع ہونے والے نامساعد حالات سے کس طرح عہدہ برآ ہونا چاہئے؟ طاقتورغنیم وادی فرغانہ پردندان آز تیز کئے ہوئے دوڑ ے چلے آرہے ہیں ۔ بیک وقت دو محاذوں پر دشمنوں سے نبردآزماہونا چنداں آسان نہیں ہے خداجانے باباجانی نے کیاحکمت عملی تیارکررکھی تھی۔ بہرحال ہمیں از سرنواپنی جنگی حکمت عملی کوترتیب دیناہوگا،تیرااس بارے میں کیامشورہ ہے؟
سلاخ نے دھیمے لہجے میں کہناشروع کیا:
”شہزادہ معظم! میں جانتاہوں کہ اہلیان فرغانہ نوعمرشہزادے کی بادشاہت کوہضم کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیں گے۔ آپ کی نوعمری ان کے دلوں پروہ رعب ودبدبہ طاری نہیں کرسکتی جیساکہ شہنشاہ معظم کی پروقارشخصیت سے طاری تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ آپ سے اس طرح پیش آئیں جس طرح کہ استاد شاگردوں سے پیش آتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ابن الوقت امرائ، سلطان احمد اورخاقان محمود خان کے خلاف آپ کے ساتھ دینے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو جائیں ا ور اس تصور سے یہ بھی لازم آتاہے کہ وہ لوگ بارے طاقتور دشمنوں سے مرعوب ہوکران کی خیرخواہی کادم بھرنے کے لیے شہزادے معظم کومقیدکرلیں اورپھران درندوں کے حوالے کردیں ۔ اگر آپ منظر عام پررہے تو ان کے لیے آپ کوقیدکرناآسان ہوجائے گا۔ بنابریں میری ناقص رائے کے مطابق آپ کوکچھ ایام کے لیے روپوش رہناچاہئے جب تک کہ حالات ہمارے قابو میں نہیں آجاتے آپ کومنظرعام پرنہیں آناچاہئے۔
اگرچہ بابرکی طبع بے باک پریہ مشورہ ایک تازیانے سے کم نہیں تھامگر اندریں حالات اس نے بھانپ لیاتھاکہ سلاخ کامشورہ صائب ہے کیونکہ سلاخ نہ صرف اس کاستاد تھابلکہ اس کا بہی خواہ اورہمدردبھی تھاوہ سمجھتاتھاکہ سلاخ جیساوفادار انسان اس سے دغانہیں کرسکتااوراس کے لیے برانہیں سوچ سکتا۔
انسان شناس سلاخ نے بابرکے چہرے کے تاثرات سے بھانپ لیاکہ بابراس کے مشورے کومثبت انداز میں لے رہاتھا۔ اس نے اپنے ایک معتمد خاص فوجی افسرکوبلایااوراسے حکم دیاکہ:”وادی فرغانہ کے نوعمرسلطان کوپوری رازداری کے ساتھ عیدگاہ تک پہنچادیاجائے۔“
سلاخ کے معتمد فوجی افسر(غالباًجس کانام شیرم طغائی تھا)نے بابرکوگھوڑے پرسوارہونے کااشارہ کیااورخودبھی بڑی پھرتی کے ساتھ اچک کراپنے گھوڑے پرسوارہوگیا۔ اس کی پھرتی بتارہی تھی وہ ایک نہایت ہی چاک وچوبند اورماہر گھڑ سوار تھا اس کی جسمانی ساخت اس کی تنومندی اور طاقتوری ٹپکتی پڑتی تھی۔
بابربھی نہایت چابکدستی سے اپنے گھوڑے پرسوارہوااورشیرم طغائی کے پہلومیں اپنے گھوڑے کوبھگاتاچلاگیاوہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ:
”سلاخ کی مجھے عید گاہ لے جانے میں کیامصلحت ہوسکتی کے وہاں وہ مجھے لوگوں کی نظروں سے چھپاکرکس طرح رکھے گانجانے اسے وہاں کتناعرصہ روپوش رہناپڑے گا۔میری عدم موجودگی میں وادی فرغانہ کے حالات سے دوچاررہے گی۔
نجانے اوربھی کیسے کیسے وسوسے بابرکے دل میں اکٹھ رہے تھے اگروہ باایں ہمہ پوری رفتارکے ساتھ شیرم طغائی کی معیت میں عیدگاہ کی طرف اڑاچلاجارہاتھا۔ (جاری ہے)