سالانہ تبلیغی اجتماع پر حاضری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سالانہ تبلیغی اجتماع پر حاضری
مولانامحمد کلیم اللہ
حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کئی نصائح فرمائیں۔ گویا ساری زندگی کی تعلیم کا خلاصہ سمجھایا،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری ،معاشرت ،معاملات، آداب ،عبادات وغیرہ پر ایک جامع پر اثر خطبہ دیا،آخر میں صحابہ کرام کو مخاطب بناکر فرمایا فلیبلغ الشاھد الغائب حاضرین یعنی جتنے تم یہاں موجود ہو غائبین تک یعنی ان لوگوں کو جو یہاں نہیں آسکے ان تک یہ اسلامی احکامات کو پہنچا دینا۔
چنانچہ پھر چشم فلک نے وہ نظارے بھی دیکھے جب صحابہ اللہ کے دین کا پرچم لیے ساری دنیامیں پھیل گئے۔ ہر رنگ ونسل ،امیر وغریب،شاہ وگدا، کالے گورے ،عرب وعجم پیرو جواں ،الغرض تمام اقوام عالم تک خدا کا آخری اور ابدی پیغام پہنچانے لگے۔
راستے میں ان مشکلات کوبھی صبر وتحمل سے برداشت کرتے رہےجن سے تنومند پہلوانوں کا بھی پتا پانی ہو جاتاہے اپنے پرایوں کے طعنے سہتے رہے اجازت ہوتوآج کی زبان میں ایک جملہ کہہ دوں؛ ملائیت، قدامت پسندی، جدید دور کے تقاضوں سے بے خبر، نابلد، شمشیر وسناں والے جنگجو، شدت پسند وغیرہ جیسے الزامات اپنے بارےمیں سہتے رہے لیکن وتواصو ابالحق وتواصوا بالصبر کی عملی تصویر بنے دنیا کے کونے کونےمیں خدا کی وحدانیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت، قرآن کی صداقت ،یوم آخرت پر ایمان ،سنت کی بہاریں، بدعات ورسومات رواج اورخرافات سے اجتناب کو عام کرتے رہے
وقت کا پہیہ گھومتا رہا دھیرے دھیرے غیرمسلم اقوام اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ گزین ہوتے رہے اہل اسلام کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا چلا گیا اور معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام رسومات کی جگہ نبی آخر الزمان کی سنتیں رائج ہونا شروع ہوگئیں اہل علم وفضل اپنے اپنے میدان میں اوج ثریا کو چھونے لگے۔
پھر۔۔۔ عرصہ طویل گزرا۔۔ دشمنان اسلام جو ابھی اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہے تھے انہوں نے اہل اسلام سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندیاں کرنے لگے اور اہل اسلام میں نت نئے فتنوں کی بنیادیں کھڑی کرنا شروع کیں۔ بدعات اور الحاد کی بادسموم چلائیں جس کے ذریعے وہ سنت کے آشیانے کو مٹانے کے خواہاں تھے بدعت والحاد کی طوفان خیزی بروئے کار لائی گئی، کفر وارتداد کے جکھڑ پر جکھڑ چلائے جانے لگے۔
لیکن۔۔۔دین اسلام کے متوالوں )خصوصا علماء کرام(نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور ان کے سامنے سد سکندری بن گئے۔
سنت کے مینارہ نور کو اپنے عمل سے روشن کیے رکھا، اسلام کے جاودانی پیغام کو اپنا لہو دے کر سیراب کیا۔ اپنی جان ،اپنا مال اور اپنا وقت سب کچھ اللہ کے راستے میں لٹانے کے لیے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوئے اور اصحاب کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گلی گلی، نگر نگر، کوچہ کوچہ، قریہ قریہ چہار دانگ عالم میں دین اسلام کو باقی رکھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی اور عملی زندگی کی ترجمانی کرنے کے لیے اپنے گھر بار ، آل واولاد ،بیوی بچے ، ماں باپ ،بہن بھائی، قوم قبیلہ، برادری وخاندان، تجارت وکاروبار ،مال ومتاع ،عیش وعشرت سب کچھ اللہ کے نام پرقربان کرتے ہوئے اپنے گھروں کو خیر باد کہہ دیا۔
مولانامحمد الیا س دہلوی کے دل میں اللہ رب العزت نے اس کام کا ایک طریق کار القاء کیا ، کہ جماعت تبلیغ کے نام سے لوگوں کو اللہ کی وحدانیت، اسلام کی حقانیت، دین کی صداقت،رسول اللہ کی رسالت وختم رسالت، قبر،حشر برزخ، آخرت ،جنت، جہنم سے باخبر کیاجائے۔ چنانچہ اس بنیادوں پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ کے ساتھ چند بوریا نشین جمع ہوگئے اور اللہ کی عظمت کے گن گاتے ہوئے پوری روئے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ان کے اخلاص کے اندازہ بندہ کو اس وقت ہوا جب میں رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع منعقدہ 17نومبر میں حاضر ہوا۔ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہواتا حد نگاہ وسیع سمندر ہے جو بغیر کسی لالچ اور طمع کے خالصتاً اللہ کی رضا اور خوشنوی کے حصول کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
بزرگان دین کے بیانات ،نوافل ، شب زندہ داری ،ذکر واذکار ،تعلیمی حلقہ جات ، لوگوں کا باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ادائیگی نماز، قرآن کی تلاوت ،سنتیں سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام، لاکھوں کے اس عظیم اجتماع میں مجال ہے کہ آپس میں کوئی ہاتھا پائی ہوئی ہو۔۔۔ اور کیسے ہوتی؟ بزرگوں نے تعلیم دی ہے اپنی غلطی پر معافی مانگ لو اور دوسرے کی غلطی کو معاف کردو۔
یہاں میں نے دیکھا کہ سب کے سب نیچے سخت زمین پر بستر لگائے ہوئے ہیں اس مشقت کے باوجود پورے پاکستان سے اور بیرون ممالک سے جوق در جوق لوگ اس میں کھنچے چلے آرہے ہیں چند دن کی عارضی تکلیف وپریشانی ،جفا کشی کے عوض اپنی عقبی اور آخرت سدھار رہے ہیں۔
ہزارہا بے نمازی توبہ کرکے پکے نمازی بن رہے ہیں، سودلینے دینے والے آج ندامت کے اشک بہا کر اپنے خدا کو راضی کررہے ہیں، رشوت لوٹ کھسوٹ والے بھی چشم نم تر کیے بیٹھے ہیں۔
ماں باپ کے نافرمان دل ہی دل میں والدین کی خدمت کا جذبہ خیر سگالی لیے اس وقت کا انتظارکررہے ہیں کہ کب ان کو یہ ساعتیں نصیب ہوں جب وہ اپنے والدین کی خدمت کر سکیں۔
لاتعلقی اور قطع رحمی کرنے والے، جھوٹ بولنے غیبت کرنے والے ،شراب پینے پلانے والے ،رقص وسرود کی محفلیں جمانے والے ، ناجائز آمدن لینے والے ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرنے والے آج روروکر اپنے اللہ کو راضی کررہے ہیں۔یہاں کوئی قومیت ،لسانیت اور علاقائیت وغیرہ نہیں چلتی۔
بندہ صاحب و محتاج و غنی ایک ہوتے
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
سالانہ اجتماع کووقت کے اعتبار سے دو حصوں پر تقسیم کرلیا گیاہے۔پہلے اجتماع میں تقریبا 10 لاکھ افراد شریک تھے اور تین دن بعد سب لوگ اپنی اپنی تشکیلات کے مطابق یہاں سے چلے گئے۔ پنڈال بالکل خالی ہوگیا۔ پھر دوسرے اجتماع میں تقریبا8 لاکھ افراد شریک ہوئے اور وہ بھی اپنے وقت مقررہ کے مطابق اختتام پذیر ہوگیا۔
پنڈال کے چاروں اطراف میں بازار لگے ہیں ان میں کوئی گانا نہیں بج رہا تھا کوئی فلمیں نہیں چل رہیں ،کوئی گالم گلوچ نہیں بلکہ کاروباری لوگوں نے پنڈال میں آئے ہوئے مسافروں کے لیے سہولیات فراہم کررکھی ہیں۔سستی اور معیاری اشیاء ضرورت میسر کر رہے ہیں اشیائے خورونوش ودیگر ضروریات زندگی کی اشیاء بھی یہاں نہایت کم قیمت اور بلندمعیار کی مل جاتی ہیں۔
چلتے چلتے میں منبر کی پچھلی جانب بازار میں داخل ہوا اور چندقدم کے فاصلے پر مجھے ایک بینر نظر آیا جس پر یہ الفاظ آویزاں تھے۔
میں خاک نشیں میری جاگیر مصلی
شاہوں کو سلامی میرے مسلک میں نہیں
یہ اس درویش کی خدامست کا اسٹال تھا جس پر اس شعر کا ایک ایک حرف سچا آتا ہے یعنی الاستاذالمکرم ،متکلم اسلام، وکیل احناف، خطیب بے بدل حضرت اقدس مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
ان کے اس اسٹال کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں عقیدے اور مسلک پر مکتبہ اہل السنۃ والجماعۃ کی شائع شدہ کتب کا وسیع ذخیرہ ،مسائل ودلائل پر مبنی پوسٹرز، آڈیو ویڈیو بیانات علاوہ ازیں سی ڈیز وغیرہ سستے داموں میسر ہوتی ہیں۔
اجتماع میں شریک دور دراز سے آنے والے افراد اس اسٹال پر بطور خاص تشریف لاتے ہیں دو وجہ سے
نمبر 1۔ استاد جی مولانامحمد الیاس گھمن سےشرف زیارت
نمبر2۔ مسلک اور عقیدے پر لٹریچر کا حصول
استادمحترم اجتماع کے دنوں صبح سے شام تک اسٹال پر ہی موجود رہتے ہیں تاکہ ملنے والے خواہش مند حضرات کو آسانی رہے۔
راقم الحروف بھی وہاں حاضر ہوا۔ استاد محترم کے ارد گر دلوگوں کا ایک جم گٹھا تھا ان کا اکرام بھی کیا جارہا تھا اور مشن اور کاز کے حوالے سے رہنمائی بھی دی جارہی تھی۔
بندہ کافی دیر تک اسٹال پر رہا۔۔۔پھر بھائی مولانا محمد اعجاز قصوری کی ہمراہی میں واپس لاہور آ گیا۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح کے دینی اجتماعات میں شریک تمام افراد کو اور دنیامیں بستے والے ہر مسلمان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ہم سب کو نبی اکرم کی شفاعت نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم