اک کافرہ کیلئیے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اک کافرہ کیلئیے
مولانا محمد کلیم اللہ
میری آنکھوں کے سامنے وہ منظرگھوم رہاہے جب رسالت مآبe کو اطلاع دی گئی کہ یارسول اللہ فلاں عورت کو قید کرلیاگیاہے جنگ کے وجہ سے اس کے سر سے دوپٹہ اتر چکا ہے، شفیق وکریم آقاeنے اپنی چادرمبارک اتارکرصحابہ] کوحکم دیاکہ” جاﺅ!اورجاکر اس کے سرپرمیری چادر اوڑھادو۔“کسی نے کہہ دیاکہ” یارسول اللہe !وہ فلاں کافرکی بیٹی ہے۔ اس پرآپe نے ارشاد فرمایا:”یادرکھو!بیٹی؛ بیٹی ہوتی ہے خواہ کافرکی بھی کیوں نہ ہو....“
جس پیغمبر eکاخلق اور احسان کایہ عالم ہو،جو دشمنوں کوبھی اپنے دامن رحمت تلے پناہ دیتاہو۔ آج اس پریاوہ گوئیاں کی جارہی ہیں ، ان کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے۔ کہیں ان کے خاکے بنائے جارہے ہیں توکہیں انکی عظمت کودھندلانے کے لیے ایسے ایسے جملے تحریرکیے جارہے ہیں کہ....الامان والحفیظ۔
آپe کی شان اقدس میں کئی ناہنجارگستا خوں نے اپنے آپ کودوزخ کاایندھن بنایا۔انہی میں سے ایک ضلع ننکانہ کے ایک گاﺅں “ اٹاں والی“میں رہائش پذیرمسیحی خاتون بھی ہے۔ محمدادریس نامی شخص کی زمین پرکام کرنے والی عورتوں بی بی عاصمہ اور بی بی عافیہ کے سامنے اس مسیحی گستاخ خاتون آسیہ نے پیغمبراسلام حضرت محمدe، آپ eکی زوجہ مبارکہ حضرت خدیجہr اورقرآن کریم کی سخت بے ادبی اور گستاخی کی۔ بعد ازاں اہل علاقہ کے مسلمانوں نے مل کراس کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ تحقیقات کے بعد مجرمہ آسیہ کوتوہین رسالت کے قانون دفعہ 295-Cکے تحت سزائے موت کا حکم سنادیاگیا۔عین اسی وقت سیاست کی جادوئی چھڑی حرکت میں آئی اور گورنرآف پنجاب جناب سلمان تاثیر نے جا کر مجرمہ سے جیل میں ملاقات کی ....ملاقات کے بعد مجرمہ کو تسلی دی اور کہا کہ” میں جناب صدر صاحب کے پاس آپ کے بارے میں رحم کی درخواست لے کر جاﺅں گا۔” اورگورنر آف پنجاب کابیان جواخبارات کی زینت بنارہاوہ یہ تھاکہ” توہین رسالت کی سزا قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹوکے قانون میں نہیں تھی بلکہ یہ جنرل ضیاءکے کالے قانون میں مندرج کی گئی۔“
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جس کوبنایاہی اس لیے گیاتھاکہ: پاکستان کامطلب کیا؛لاالہ الااللہ۔ اس کے ایک صوبے کاگورنراسلامی تعلیمات سے اس قدر غافل اورجاہل ہے کہ اسے یہ بھی نہیں پتاکہ توہین رسالت کی سزا،سزائے موت ضیاءالحق کی تراشیدہ نہیں بلکہ یہ شریعت محمدیہe کافیصلہ ہے۔جنرل صاحب نے تو محض اس کو آئین پاکستان میں شامل کرنے پر زور دیا تھا اور ان کا یہ فیصلہ بالکل مبنی بر انصاف وعدل تھا۔ توکیااب یہی کہاجائے گاکہ یہ جنرل ضیاءکاکالاقانون ہے۔
تادم تحریرمیں سوچ رہاہوں کہ جب شاخوں پر الووں کابسیراہے توانجامِ گلستان کیا ہو گا؟جب حکومت کی بڑی پوسٹوں پرایسے لاعلم افرادمسلط ہوں گے تو”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا کیابنے گا!!!
ادھردوسری طرف پوپ بینیڈکٹ نے کہاہے کہ آسیہ کے جرم توہین رسالت کے باوجود سزائے موت کے فیصلے پرنظرثانی کی جائے۔عیسائیوں کے اس پوپ کو اسلامی قوانین پر تبصرہ نگاری اوررائے زنی کاکیاحق پہنچتاہے؟؟؟ ہاں ! اگر وہ اس کوظلم سمجھتے ہیں توکیااس طرح کے مظالم بلکہ اس سے بھی بڑھ کرخود پوپ کے ملک میں مسلمانوں پر روا نہیں رکھے جارہے خصوصاًدختر قوم محترمہ عافیہ صدیقی پرہونے والے مظالم کی داستاں پوپ صاحب کی آنکھوں سے مخفی ہے؟؟یہ بات اگر عیسائیوں کے پیشواوں کو نظر آتی ہے کہ ان کے مذہب پر چلنے والے خواہ غریب ہوں یا امیر ان کے حق میں وہ کھل کر بات کرتے ہیں تو ہمارے مسلم حکمرانوں کو آخر اس بات کے سمجھنے میں کیا دشواری لاحق ہے اور جہاں تک میں سمجھتاہوں کہ یہ بات ان تمام لوگوں کی شخصیت پر سوالیہ نشان ہے کہ جو اپنے وطن کے باسیوں خصوصا مسلمانوں پر ظلم تو دیکھتے ہیں لیکن اس کو روکنے کی فکر تک نہیں کرتے۔
افسوس صد افسوس ! ان لوگوں پر جوصاحب اقتدارہونے کے باوجود بھی عافیہ کےلیے” کچھ“ نہ کرسکے۔ آج انہی کی ساری ہمدردیاں شاتمہ رسول اور گستاخہ رسالت مآبe آسیہ کے لیے وقف ہیں ۔ حاصل تمنائی کہتے ہیں کہ
شور برپا ہے اک کافرہ کے لیے
لب کو جنبش نہیں مسلمہ کے لیے
کتنے بے حس تھے وہ عافیہ کے لیے
جو ٹرپتے ہیں اب آسیہ کے لیے
ہماری صدرپاکستان جناب آصف علی زرداری، وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی اور تمام ارباب اقتدارسے گزارش ہے کہ ہماری عفت مآب بہن ’ ’عافیہ“کودشمن کے زندانوں سے نکال کروطن واپس لائیں اورآسیہ جیسی گستاخہ رسول اورتوہین رسالت کی مرتکب خاتون کو قرارواقعی سز ادیں ۔ تاکہ ملک میں امن وسکون کی ہوائیں چلیں ورنہ اگرمجرم کویونہی چھوٹ ملتی رہی اوربے گناہ یونہی مرتے رہے تومعاشرے میں اور بالخصوص پاکستان میں امن کے خواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتے۔