عصیان۔۔۔یا۔۔۔نسیان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عصیان۔۔۔یا۔۔۔نسیان
الشاہ حکیم اختر'کراچی
شیطان سے نافرمانی ہوئی اورحضرت آدمu سے چوک ہوئی،وہ نافرمانی نہیں بھول تھی نسیان ہو گیا تھا،اللہ تعالیٰ نے جوارشادفرمایاکہ عصٰی اٰدمُ ربَّہ آدم uسے اپنے رب کا قصور ہو گیا اس آیت کی تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرمائی فَنَسِیَ وَلَمنَجِدلَہ عَزماًآدمu بھول گئے تھے اورگناہ کے ارادہ کاایک ذرہ بھی ان کے دل میں نہیں تھا۔عصی اٰدم کے معنی نسی اٰدم ہے کہ حضرت آدم uنے نافرمانی نہیں کی تھی ان سے چُوک ہوگئی تھی اور بھول گئے تھے وہ اہل قلم نادان، بے ادب اورجاہل ہیں جوعصی ادم کاترجمہ نافرمانی سے کرتے ہیں جب کہ خود اللہ تعالیٰ عصیان کی تفسیر نسیان فرمارہے ہیں اوربے عقل لوگوں کی آنکھیں کھول رہے ہیں کہ ارے بے وقوفو!خبردارعصی ادم کاکہیں لفظی ترجمہ نہ کر دینا۔ ہمارا کلام ہے ہم عصی کا ترجمہ خودنسی کررہے ہیں توپھرتم کون ہوکہ اس کاترجمہ نافرمانی کرو۔ اللہ تعالیٰ عالم السر ائروالبواطنہے دل کے بھیدوں کوجانتاہے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمu کے قلب کاحال بیان کردیاکہ ان کاقلب بالکل مجلی، بالکل مصفی،بالکل مقدس،بالکل پاکیزہ تھاوہ بھول گئے تھے ان کے دل میں گناہ کاکوئی ارادہ نہیں تھا،ا نہوں نے کوئی نافرمانی نہیں کی۔ ولم نجدلہ عزمایہ نسی کی اورتاکیدہے کہ نسی کواگرتم نہ سمجھ سکوتواب ولم نجدلہ عزماسے سمجھ لو کہ گناہ کے ارادہ کاکوئی ذرہ کوئی اعشاریہ کوئی مادہ ہم نے ان کے دل میں نہیں پایا،جب اپنے کلام کے معنی خود اللہ تعالیٰ بیان کریں تواس پر ایمان لانافرض ہے۔ روح المعانی میں حضرت ابن زید سے منقول ہے کہ ان المعنی لم نجد لہ عزماعلی الذنب فانہ علیہ السلام اخطاءولم یتعمد یعنی ولم نجد لہ عزما کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے ان کے دل میں گناہ کا کوئی ارادہ نہیں پایاکیونکہ حضرت آدمu سے چُوک ہوگئی تھی انہوں نے عمدا(جان بوجھ کر ) ایسانہیں کیاتھا۔اللہ تعالیٰ کایہ احسان ہے کہ اپنے بندوں کوامتحان سے بچالیاورنہ کتنے بندے نبیu کوخطاکارسمجھ کربربادہوجاتے۔اب سوال یہ ہے کہ نسیان کواللہ نے عصیان سے کیوں تعبیرکیا؟جواب یہ ہے کہ بوجہ حضرت آدمu کی علومرتبت کے کہ بڑوں کی چوک کوبھی خطاسے تعبیرکیاجاتاہے یہ ان کی بڑائی کی علامت ہے گویااللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ آدم! میرے اتنے پیارے اوراتنے مقرب ہیں کہ ان کی بھول کوبھی میں عصیان سے تعبیرکرتاہوں ۔
میرے شیخ اول حضرت پھولپوری aنے فرمایاکہنسیان کو عصیان سے تعبیر فرمانے میں حضرت آدمu کی تربیت مقصود تھی کیونکہ عصی آدم ربہ میں شانِ عتاب ہے اس سے حضرت آدمu کے قلب پر ایسی شکستگی وندامت اورحزن وملال طاری ہوااورآپ اس قدر روئے کہ تفسیر علی مہائمی میں ہے کہ آپ کے آنسوﺅں سے چھوٹے چھوٹے چشمے پیداہوگئے اوردنیا میں جتنے خوشبو دار پھول ہیں وہ آپ کے آنسوﺅں کے انہی چشموں سے پیداہوئے ہیں ۔
غرض اس ندامت گریہ وزاری اورحزن و غم کی راہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کوعبدیت کے اس بلندمرتبہ پرپہنچادیاجہاں آپ کوتاج خلافت عطاہوناتھاکیونکہ علم الہی میں آپ خلیفة اللہ فی الارض بناکرپیداکئے گئے تھے لیکن یہ خلافت آپ کوگریہ وزاری وندامت کی راہ سے عطاہوئی تھی کیونکہ جوجتنازیادہ مقرب ہوتاہے وہ اپنی معمولی سی چُوک پربھی اتنانادم ہوتاہے کہ غیرمقرب کھلی ہوئی نافرمانی پربھی نہیں ہوتے اوراسی قرب خاص کی وجہ سے مقربین عارفین کی معمولی سی چُوک پرگرفت بھی ہوجاتی ہے پس چونکہ حضرت آدمu مقرب بارگاہ تھے اورعلمِ الہی میں خلیفة اللہ فی الارضتھے اس لیے آپ کے نسیان کواللہ تعالیٰ نے عصیان سے تعبیرفرمایااوراس تعبیر سے آپ پر جو ندامت، شکستگی اور گریہ وزاری طاری ہوئی اور ربناظلمناانفسناکے کلمات القاءہوئے اورتربیت کی تکمیل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی دوسری شان ظاہرہوئی اورتعبیرعصیان کوتعبیر نسیانسے بدل دیااورآپ کے ٹوٹے ہوئے دل پر فنسی ولم نجدلہ عزماکامرہم رکھ دیاتاکہ آپ کارِخلافت انجام دینے کے لیے سرگرم ہوجائیں ۔