اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اہم اسلامی آداب
شیخ عبدالفتاح ابو غدہ
ادب 1: جب آپ اپنے گھرمیں داخل ہوں یاگھر سے باہر نکلیں توزورسے دروازہ بندنہ کریں ، اورنہ ہی اسے اس طرح چھوڑدیں کہ وہ زورسے خودبندہوجائے، کیونکہ یہ حرکت اس اسلام کی تعلیم کردہ نرم مزاجی کے خلاف ہے جس کی طرف آپ کی نسبت کاشرف حاصل ہے بلکہ آپ کوچاہیے کہ نہایت نرمی سے دروازہ بندکریں ، شایدآپ نے ام المومنین حضرت عائشہ rکی روایت سنی ہوگی جس میں وہ رسول اللہe کاقول نقل فرماتی ہیں کہ آپe نے فرمایا:ان الرفق لایکون فی شی الازانہ ولاینزع من شیالاشانہ(صحیح مسلم)
ترجمہ: نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے وہ اسے خوبصورت بنادیتی ہے اورنرمی جس چیز سے نکال دی جائے وہ اسے بدصورت بنادیتی ہے۔
ادب2: جب آپ اپنے گھرمیں داخل ہوں یاگھر سے باہر نکلیں توگھر میں موجود اپنے گھروالوں کوچاہے مرد ہوں یاخواتین، مسلمانوں اوراسلام والاسلام کریں یعنی”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہکہیں ۔
اسلام کے سلام کوچھوڑکر....جوکہ اسلام کاشعاراورمسلمانوں کی پہچان ہے.... دوسری قوم کے سلام جیسے” گڈمارننگ“اور”ہیلو“وغیرہ کواپنانااسلام کے سلام کوختم کرنے کے مترادف ہے،حالانکہ یہ وہ سلام ہے جس کی رسول اللہeنے اپنے قول وفعل سے امت کوتعلیم دی اور جو سلام آپeنے اپنے جلیل القدرخادم حضرت انسt کوسکھایاتھا۔
چنانچہ حضرت انسt فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہe نے فرمایا
”یابنی اذا دخلت علی اھلک فسلّم یکون برکة علیک وعلی اھلک
(صحیح مسلم)
ترجمہ: ”پیارے بیٹے!جب گھر میں داخل ہوتوگھروالوں کوسلام کرو،یہ سلام تمہیں اور تمہارے گھروالوں کے لیے برکت ہوگا۔“
حضرت قتادہa جوبہت بڑے فضلاتابعین میں سے ہیں ، فرماتے ہیں :۔
اذادخلت بیتک فسلّم علی اھلک فھم احق من سلمت علیھم۔“
ترجمہ: جب تواپنے گھرمیں داخل ہوتواپنے گھروالوں کوسلام کرو!کیونکہ وہ سلام کے زیادہ حق دارہیں ۔”
حضرت ابوہریرہ tفرماتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:۔
اذاانتھی احدکم الی مجلس فلیسلّم....ثم اذاقام فلیسلّم فلیست الاولی باحق من الاخرة”
(ترمذی)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی مجلس میں جائے توسلام کرے اورجب مجلس سے جانے کاارادہ کرے توسلام کرے،کیونکہ پہلاسلام دوسرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔“
ادب3: جب آپ اپنے گھرمیں داخل ہونے لگیں توگھرمیں موجودافرادکوداخل ہونے سے پہلے اپنے آنے سے مطلع کریں تاکہ آپ کے ایک دم داخل ہونے سے وہ گھبرانہ جائیں یاایسانہ ہوکہ گویاآپ ان کی کسی کمزوری کوتلاش کررہے ہیں ۔
حضرت ابوعبیداللہ عامر بن عبداللہ بن مسعودtفرماتے ہیں کہ میرے والدعبداللہ بن مسعودt جب گھرمیں آتے توپہلے مانوس کرتے یعنی گھروالوں کومانوس کرنے کے لیے ان کو مطلع کرتے کوئی بات کرتے اورآواز بلند کرتے تاکہ وہ مانوس ہوجائیں ۔
امام احمد بن حنبلa نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوناچاہے تواسے چاہیے کہ کھنکھارے یااپنے جوتوں کی آواز سنائے۔
امام احمدa کے صاحبزادے عبداللہa فرماتے ہیں :” میرے والد صاحب مسجد سے گھرلوٹتے توگھرمیں داخل ہونے سے پہلے پیرزمین پرمارتے تاکہ گھرمیں داخل ہونے سے پہلے ان کے جوتے کی آواز آئے اورکبھی کھنکھارتے تاکہ گھرمیں موجود افراد کواپنے اندرآنے کی اطلاع دے سکیں ۔
یہی وجہ ہے کہ بخاری اورمسلم میں حضرت جابرt سے راویت آئی ہے کہ رسول اللہeنے اس بات سے منع فرمایاکہ کوئی شخص سفروغیرہ سے واپسی پرگھروالوں کوبتائے بغیر رات کواپنے گھرمیں لوٹے۔ یعنی سفروغیرہ سے گھروالوں کوبغیربتائے آجائے تاکہ اس طرح ان کی خیانت یاکمزوریوں کوتلاش کرے۔
ادب4: جب آپ کے گھرکے افراد میں سے کوئی فرد کسی علیحدہ کمرے میں ٹھہراہواہواورآپ اس کے پاس جاناچاہتے ہوں تواس سے پیشگی اجازت لیں ، تاکہ آپ اسے ایسی حالت میں نہ دیکھیں جس حالت میں وہ یا آپ خوددیکھناناپسندکرتے ہوں ، چاہے وہ بیوی ہویامحارم وغیرہ میں سے کوئی ہو،جیسے آپ کی والدہ،والد،بیٹیاں اوربیٹے۔
امام مالکa نے موطا(کتاب الاستیذان) میں عطاءبن یسارaسے مرسلاً نقل کیاہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہe سے سوال کیاکہ حضرت! کیامیں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں ؟ آپe نے فرمایا:ہاں ! اس شخص نے عرض کیا: میں تواپنی ماں کے ساتھ گھرمیں رہتا ہوں ، آپe نے فرمایا: اجازت لے کرجاﺅ،کیاتجھے یہ بات پسند ہے کہ تواپنی ماں کوننگی حالت میں دیکھے؟ اس نے عرض کیا،نہیں ، توآپe نے فرمایا: پس اجازت لے کرجاﺅ۔
ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودt کے پاس آیااورآکرسوال کیاکہ: کیامیں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں ؟ انہوں نے فرمایا: توہرحالت میں اس کودیکھناپسند نہیں کرتا(لہذااجازت لو)
حضرت عبداللہ بن مسعودt کی اہلیہ حضرت زینبr فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہt جب کسی کام سے گھر لوٹتے توکھنکھارتے، تاکہ ہماری کسی ایسی حالت پر نگاہ نہ پڑے،جسے وہ پسندنہیں کرتے۔
ابن ماجہ میں “ کتاب الطب“کے آخر میں ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہt جب گھرآتے توپہلے کھنکھارتے اورآواز لگاتے۔
حضرت حذیفہ بن الیمانt سے ایک شخص نے سوال کیا: کیامیں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں ؟ توآپ نے فرمایا:ہاں !اگر تواجازت نہیں لے گاتواسے ایسی حالت میں دیکھے گاجسے توپسند نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ تابعی جوصحابی جلیل طلحہ بن عبیداللہt کے صاحبزادے ہیں ، فرماتے ہیں کہ میں اپنے والدصاحب کے ساتھ والدہ صاحبہ کے پاس گیاجب والدصاحب کمرہ میں داخل ہوئے تومیں بھی پیچھے داخل ہوگیاتووالدصاحب نے اتنے زورسے میرے سینے سے دھکادیاکہ میں زمین پرگرگیااورکہنے لگے:کیابغیراجازت داخل ہوتے ہو!؟
حضرت نافع مولیٰ حضرت عبداللہ بن عمرt فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرt کی عادت مبارک تھی کہ ان کاکوئی صاحبزادہ بلوغت کوپہنچ جاتاتواسے الگ کردیتے۔یعنی اپنے کمرہ سے الگ کردیتے اور اس کے بعدوہ بغیراجازت ان کے کمرے میں داخل نہ ہوتاتھا۔
ابن جریج عطاءبن ابی رباح t سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباسt سے سوال کیا:کیامیں اپنی دوبہنوں سے بھی اجازت لوں ؟ انہوں نے فرمایا:ہاں !میں نے عرض کیاوہ میری پرورش میں ہیں ، یعنی میرے گھر میں ہیں اورمیری ذمہ داری میں ہیں اورمیں ہی ان کی پرورش کرتاہوں اوران پرخرچ کرتاہوں ، فرمایا: کیاتجھے پسند ہے کہ توان کوننگی حالت میں دیکھے پھر حضرت عبداللہt نے یہ آیت پڑھی:
“ واذابلغ الاطفال منکم الحلم فلیستاذنواکمااستاذن الذین من قبلھم“
ترجمہ: اور تم میں سے لڑکے جب عقل کی حدکو پہنچیں توان کوویسی ہی اجازت لینی چاہیے جیسے ان سے پہلے والے لیتے رہے ہیں ۔”
حضرت ابن عباسt نے فرمایا:”اجازت لیناسب لوگوں پرواجب ہے۔“
حضرت عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں :”ہرشخص کواپنے والد،والدہ،بھائی اوربہن سے اجازت لینی چاہیے۔“
حضرت جابرt فرماتے ہیں :ہرشخص کواپنے بیٹے سے اجازت لینی چاہیے، اپنی ماں سے اگرچہ وہ بوڑھی ہو،اپنے بھائی سے،اپنی بہن سے، اوراپنے باپ سے۔
امام بخاریa نے ان روایات میں اکثر کواپنی کتاب” الادب المفرد“میں ذکرکیاہے اوربعض کوامام ابن کثیرa نے اپنی تفسیر میں اس سابقہ آیت کے ضمن میں ذکرکیاہے۔
ادب5: جب آپ اپنے کسی بھائی دوست جاننے والے یاجس شخص سے آپ کوملناہواس کے دروازہ کوکھٹکھٹائیں تواتنی نرم آوازسے کھٹکھٹائیں کہ جس سے پتہ چلے کہ دروازہ پرکوئی آیاہے اوراتنی زورسے شدت سے نہ کھٹکھٹائیں جیسے کوئی سخت دل اورظالم انتظامیہ کے لوگ کھٹکھٹاتے ہیں جس سے صاحب خانہ پریشان ہوجائے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے۔
ایک خاتون حضرت امام احمدبن حنبلa کے ہاں کوئی دینی مسئلہ پوچھنے آئیں اور دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جس میں کچھ شدت تھی، امام صاحبa باہر تشریف لائے اورفرمانے لگے:”یہ توپولیس والوں جیساکھٹکھٹاناہے۔“
صحابہ کرام] کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپe سے غایت ادب کی بناءپروہ رسول اکرمe کے دروازہ کوہاتھ کے ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے جیساکہ امام بخاریa نے” الادب المفرد“میں ذکرکیاہے۔
یادرہے کہ یہ نرمی سے کھٹکھٹانا اس صورت میں ہے کہ جب صاحبِ خانہ دروازہ کے نزدیک بیٹھاہو،لیکن اگرصاحبِ خانہ دروازہ سے دورہوتوپھراتنے زورسے کھٹکھٹاناچاہیے کہ صاحبِ خانہ آواز سن لے اوراس میں بھی زیادہ شدت سے اجتناب کریں ، اس سے پہلے حدیث شریف گزرچکی ہے کہ(نرمی جس چیز میں ہوگی وہ اسے خوبصورت بنادے گی اورجس چیز سے نرمی سلب کرلی جاتی ہے تووہ اسے بدصورت بنادیتی ہے )نیزآپe نے فرمایا:”جوشخص نرمی سے محروم کردیاگیاوہ ہرخیرسے محروم کردیاگیا۔“
(مسلم شریف)
نیز اگرآپ کے دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد کسی نے دروازہ نہیں کھولا تودوسری دفعہ کھٹکھٹانے سے پہلے اتناوقفہ دیجیے کہ وضوکرنے والاوضوسے اطمینان سے فارغ ہوجائے نماز پڑھنے والااطمینان سے نماز سے فارغ ہوجائے۔ اگرکھاناکھارہاہے توحلق سے اطمینان سے لقمہ اُتارلے۔ بعض علماءنے اس کی مقدارچاررکعت کی بیان کی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایااسی وقت اس نے نماز کی نیت باندھی ہو،تین باروقفہ وقفہ سے کھٹکھٹانے کے بعد اگر آپ کواندازہ ہوجائے کہ صاحب خانہ مشغول نہ ہوتاتوضرور باہرنکل آتا،توآپ واپس لوٹ جائیں کیونکہ رسول اللہe کاارشاد ہے کہ” جب تم میں سے کوئی تین باراجازت مانگے اوراسے اجازت نہ ملے تواسے چاہیے کہ واپس چلاجائے۔“
(بخاری ومسلم)
نیز جب آپ اندرجانے کی اجازت مانگیں تودروازہ کے بالکل سامنے مت کھڑے ہوں بلکہ دائیں یابائیں جانب کھڑے ہوں ، کیونکہ رسول اللہe جب کسی شخص کے دروازے پرتشریف لے جاتے توبالکل دروازہ کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ دائیں یابائیں جانب کھڑے ہوتے تھے۔
(ابوداﺅد)
........جاری ہے