اصلاح معاشرہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اصلاح معاشرہ
مولانا عاشق الہی بلند شہری
اسلام کاکلمہ پڑھ لینے سے اور اپنادین اسلام بنا لینے سے انسان کی زندگی چاہے مرد ہو یا عورت، غیر مسلموں سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔ ہر کام اورہرحال میں ہر مسلمان مرد و عورت کو حضرت رسول مقبول eکی پیروی کرنا لازم ہے آج کل کے مسلمانوں نے اپنی زندگی کو عیسائیوں اور دوسرے غیرمسلموں کے تابع بنا دیا ہے جو وہ کرتے ہیں اس کے کرنے کو اپنے لیے فخر اور ان کی نقل اتارنے کو ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ہم خاص کران چیزوں کاذکرکرتے ہیں جن سے دین وایمان اور روپیہ پیسہ سب ہی غارت ہوتے ہیں ۔
ناول اورافسانے:
سب سے بری آفت اورمصیبت جومسلم گھرانوں میں نازل ہوئی ہے وہ یہ کہ ناول اور افسانوں کی کتابیں اور فلمی رسالے جو بے حیائی سکھانے والے ہوتے ہیں اور جن میں اکثر ننگی تصویریں بھی چھپی ہوتی ہیں گھَرگھَرجاتے ہیں ان کوپَڑھ کرگندے خیالات اور خراب باتیں لڑکوں اور لڑکیوں کے دل ودماغ میں جنم پکڑ لیتی ہیں ۔ پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے وقت بھی خراب ہوتا ہے اورناجائز و نامناسب قصے اور داستانیں پڑھ کر دل گندے اور دماغ ناپاک بن جاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں بڑی بڑی خرابیاں ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ بدچلنی بے حیائی بدکاری کے واقعات جو دیکھے جاتے ہیں ۔ اکثرگندی کتابیں یعنی ناول اور افسانے اور فلمی رسالے ہی ان کا سبب ہوتے ہیں خدا کے لیے ناول افسانے اپنے گھروں میں مت آنے دو اور ان کی جگہ دینی کتابیں گھروں میں رکھو۔ جن سے دینی اوراخلاقی معلومات ہوں ۔
گراموفون:
یہ مصیبت بھی عام ہوگئی ہے گراموفون سننے کا عام رواج ہوگیا ہے جہاں کسی کوکوئی اچھی ملازمت مل گئی ہے یا دوکان خوب چل نکلی تو مال کوا للہ کی خوشنودی کی جگہ خرچ کرکے اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے لہو و لعب اورگانے بجانے کی چیزوں کو خریدنا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے یہ چیزیں بڑائی اور ترقی کی علامت سمجھی جاتی ہیں ۔ گھر کے سب چھوٹے بڑے، مرد عورت، لڑکے اور لڑکیاں ، ماں باپ، بھائی بہن، غرضیکہ سب ہی حیاءوشرم کو طاق میں رکھ دیتے ہیں اور سب مل کر عشقیہ ناول، غزلیں اور فحش گانے سنتے ہیں ، گانے والیوں کو داد دی جاتی ہے، نہ بڑوں کا ادب رہتا ہے نہ چھوٹوں کا لحاظ، سب ایک قسم کے جذبات میں ڈوبے ہوئے ہیں ، جو وقت تلاوت کلام پاک، درود شریف اور استغفار اور دوسری نیکیوں میں مشغول رہنے سے گزرتا، وہ گانا سن کر گناہ گار ہونے میں لَگ جاتا ہے اس مصیبت اور بڑے گناہ سے بچنا چاہیے۔ گانا بجانا آج کل زندگی کا بڑا اہم جزو بن گیا ہے، اگر بیاہ شادی اور دوسری تقریبوں میں گانے بجانے اور ناچنے کا انتظام نہ ہو تو اس کو پھیکا اور بد مزہ کہا جاتا ہے، کھانا کھانے اور ٹھہرنے کے لیے وہی ہوٹل اور ریسٹورنٹ پسند کیے جاتے ہیں جس میں ریڈیو گراموفون وغیرہ کا انتظام ہو، بزرگوں کی قبروں پر عرس کے نام سے جمع ہوتے ہیں اور ہارمونیم وغیرہ کے گانے ہوتے ہیں ، جن بزرگوں کی زندگی خلاف شرع چیزوں کے مٹانے میں گزری، ان کی قبروں پر میلے کھیل تماشے لگتے ہیں اور گانوں کے اڈے بنائے جاتے ہیں استغفر اللہ، خدا اس جہالت سے بچائے۔
حضرت رسول مقبولeنے فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت دینے والا بناکر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ گانے بجانے کے سامان کو اور صلیب کو(عیسائی جس کی تعظیم کرتے ہیں ) اور جاہلیت کی چیزوں کو مٹادوں ، آہ! آنحضرتe کی محبت کے دعوے کرنے والے کیسے گانے بجانے سے محبت رکھتے ہیں ؟ اور یہ جرات دیکھو کہ حضرت رسول مقبولe کی نعت شریف بھی ہارمونیم کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں ، جس چیز کو آپ مٹانے کے لیے تشریف لائے وہی آپ کی نعت سنانے میں استعمال کی جاتی ہے، گانا بجانا اور ناچنا اس قدر عام ہوگیا ہے کہ شادی کرنے کے لیے مرد و عورت دونوں طرف سے ایسے جوڑے کی تلاش ہوتی ہے، جسے ناچنے اور گانے بجانے میں مہارت ہو، اسی وجہ سے بہت سے گھرانوں میں لڑکیوں کو گانا بجانا سکھایا جانے لگاہے اور بعض ا سکول بھی اس گنہگاری کے سکھانے کے لیے کھول دیے گئے ہیں ، کافر تو کافر ہی ہیں ، ان سے کیا شکوہ؟ مسلمان بھی ان کرتو توں کو اپنی زندگی میں داخل کرتے چلے جارہے ہیں ۔
تھیٹر اور سینما:
بے حیائی اور بے غیرتی کے ٹریننگ اسکول یعنی تھیٹر اور سینما کے شوقین اس قدر بڑھ گئے ہیں اور بڑھتے جارہے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے لیے لمبی لمبی لائنیں لگتی ہیں ، مرد و عورت، چھوٹے بڑے، سب ہی اس کبیرہ گناہ کو کرتے ہیں بعض پورے خاندان کو ساتھ لے جا کر ان” لعنت گھروں “ میں فلمیں دکھاتے ہیں ، اس میں دولت تو برباد ہوتی ہی ہے، شرافت، انسانیت، حیا، شرم کا خون بھی ہوتا ہے، بے حیائی اور بے غیرتی اور بد کرداری کا عملی سبق سیکھ کر آتے ہیں ، آئے دن ایسے واقعات سنتے اور اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ فلاں جگہ ایسا گندہ واقعہ پیش آیا اور فلاں سینما کے دروازے سے فلاں لڑکی غائب ہوگئی، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ سینما گھر کی سکرین ان کو یہی سکھاتی ہے، ان کھیلوں اور فلموں میں ہر ایسی بات سامنے آجاتی ہے جو بے حیائی اور گنہ گاری کے پورے طریقے سکھادیتی ہے اور جسے بازار اور گھر میں رذیل سے رذیل آدمی بھی برداشت نہیں کرسکتا، حیرت ہے کہ جو چیزیں گھراور بازار میں شرم کی سمجھی جاتی ہےں سینما ہال میں کیسے شرافت بن جاتی ہیں ؟ جو لوگ اپنے کو اونچے خاندان والا سمجھتے ہیں وہ بھی بہو، بیٹیوں کو ساتھ لے کر سینما ہال میں نازیبا اور بے شرمی کی حرکتیں دکھاتے ہیں ، مال و زر کی حرص اور شہرت و ناموری کی ہوس میں شریف زادیاں خاندانی عزت کو خاک میں ملا کر اسٹیج پر آرہی ہیں ، کمپنی کے دلال بہلا پھسلاکر انہیں تباہ و برباد کرتے ہیں ، جب کوئی لڑکی ایکٹرس ہوجاتی ہے توپوسٹروں اور اخباروں میں اس کی تصویریں چھپتی ہیں اس کی تعریفیں کتابوں اوررسالوں میں لکھی جاتی ہیں اس سے اس کا دل اوربڑھتاہے اوربے حیائی کے درجے اور زیادہ طے کرتی چلی جاتی ہے گویابے غیرتی اور بے عزتی کی زندگی بھی کوئی بڑا کارنامہ ہے، العیاذ باللہ۔ ہم ایک حدیث لکھ کر اس مضمون کوختم کرتے ہیں اورتمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ سینمااورتھیٹر سے خودبھی سخت پرہیزکریں اور اپنی اولاد، بہو،بیٹیوں کوبھی بچائیں ۔ بچے، بچیاں کتنا ہی اصرارکریں ہرگز ان کوسینما،تھیٹر دیکھنے کے لیے پیسے نہ دیں حضرت رسول مقبولe نے فرمایا” بلاشبہ حیااورایمان ایک ساتھ ہوتے ہیں ۔ جب ایک رخصت ہوتاہے تودوسرابھی چل دیتاہے۔“
فضول خرچی:
فضول خرچی بڑی بری بلاہے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا:” بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔” غیرقوموں کی دیکھادیکھی مسلمانوں نے بھی زیادہ خرچ کرنے کوکمال سمجھ لیاہے اورچونکہ آمدنی کم ہوتی ہے اورخرچ زیادہ بڑھارکھے اس لیے پریشان ہی رہتے ہیں سادہ کپڑا،سادہ گھر،سادی شادی،معمولی خوراک اب عیب سمجھے جانے لگے ہیں ، حالانکہ حضرت رسول مقبولe نے دنیاکی لذتوں میں پڑنے اوردنیا کاسازوسامان بڑھانے اور واقعی ضرورت سے زیادہ مکان بنانے کی ممانعت فرمائی ہے دنیا مسلمان کو سفر ہے اور وطنِ اصلی آخرت یعنی جنت ہے جہاں تھوڑی سی مدت رہناہے وہاں زینت اور ٹیپ ٹاپ میں وقت اورپیسہ لگاکرضائع کرناسمجھ داری کی بات نہیں ہے،حضرت رسول مقبولe نے اپنی بیوی حضرت عائشہr سے فرمایا کہ اے عائشہ!اگرتوآخرت میں مجھ سے ملناچاہتی ہے تو بس تجھے اتنی دنیاکافی ہوناچاہیے جتناسامان مسافر ساتھ لے کرچلتاہے اوردولت والوں کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کر اورکسی کپڑے کوپرانا مت سمجھ! جب تک تو اسے پیوندلگاکرنہ پہن لیوے۔
ایک مرتبہ رسول مقبولe نے ایک صحابیtکااونچاسابنایاہوامکان دیکھا۔ پھر جب وہ حاضرخدمت ہوئے توآپe نے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی اورمنہ پھیر لیا اورایک مرتبہ حضرت رسول مقبولe ایک چٹائی پرسوگئے سوکراٹھے توجسم شریف پرچٹائی کی بناوٹ کے نشان پڑگئے تھے ایک صحابی نے عرض کیایارسول اللہe! آپ حکم فرمائیں توہم آپ کے لیے اچھابچھونابچھادیاکریں اوراچھی اچھی چیزیں حاصل کرکے آپ کے لیے لایاکریں ، ،آپe نے یہ سن کرفرمایاکہ” مجھ کودنیا سے کیاتعلق؟ میرادنیاسے بس ایساہی واسطہ ہے جیسے کوئی مسافر درخت کے نیچے سایہ لینے کے لیے بیٹھ گیااورپھراسے چھوڑکرچل دیا۔“مسلمانوں کوہرحال اور ہر کام میں اپنے پیارے نبی eکی پیروی کرنالازم ہے آج کل کے مسلمان اور خاص کر نوجوان لڑکیوں اورلڑکوں نے غیرقوموں کودیکھ کرایسے خرچ بڑھالیے ہیں کہ نہ وہ ضروری خرچ ہیں نہ ان پر زندگی موقوف ہے فیشن کی بلاایسی سوارہوئی ہے کہ جتنی بھی آمدنی ہوسب کم پڑجاتی ہے اورقرض پر قرض چڑھتاچلاجاتاہے حضرت معاذt نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے فرمایا:”تم تکلیفوں کے ذریعہ جانچ میں ڈالے گئے ہوتوتم نے صبرکرلیا۔عنقریب مال کے ذریعہ تمہاری جانچ کی جائے گی اورمجھے سب سے زیادہ خوف تمہارے متعلق یہ ہے کہ عورتوں کے فتنہ میں ڈال دیے جاﺅ گے جب کہ عورتیں سونے چاندی کے کنگن پہنیں گی اورشام ویمن کے باریک اورعمدہ کپڑے پہنیں گی (یہ چیزیں مہیاکرنے کے لیے )مالدارکوتھکادیں گی اورمفلس سے وہ مانگیں گی جو اس سے نہ ہوسکے گا۔“
صفائی ستھرائی تواچھی چیز ہے مگر لباس اورفیشن کی دوسری بے جاضرورتیں جویورپ والوں نے نکال دی ہیں مسلمانوں کے لیے کسی طرح بھی ان کے حاصل کرنے کے خیال میں پڑنا اور ان کواستعمال کرناٹھیک نہیں ۔ یہ بڑی نادانی ہے کہ انگریزوں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں مگران کی اوراپنی آمدنی کامقابلہ کرکے نہیں دیکھتے،جوروپیہ کماتے ہیں جسم کی خدمت اور ظاہری ٹیپ ٹاپ میں لگادیتے ہیں دیکھنے میں خوشحال اوردل پریشان آمدنی معقول مگرگزارہ مشکل، اطمینان اوربے فکری کانام نہیں ، محبت کے جوش میں بچوں کی پرورش شروع ہی سے ایسے اعلیٰ پیمانے پرکرتے ہیں کہ بعد میں ان کی کمائی ان خرچوں کوبرداشت نہیں کرسکتے جوکچھ پاس ہوتاہے بچہ کے فیش پرخرچ کردیتے ہیں جب بیچارہ کچھ لکھ پڑھ کرملازم ہوتاہے یاکاروبارشروع کرتاہے توپریشان ہوجاتاہے بال بچوں کاخرچ ماں باپ کی خدمت اپنی پوزیشن اورسوسائٹی کا خیال ایک جان کوہزاروں مصیبتیں لگی ہوتی ہیں ۔ غرض کہ پورے گھرانے کابوجھ اٹھاناوبال جان ہوجاتاہے۔ لڑکیوں کوفیشن کااس قدر شوقین بنادیاجاتاہے کہ بچپن سے ہی اتنے زیادہ خرچوں کا عادی بنادیتے ہیں کہ شادی کے بعدشوہرپربوجھ ہوجاتی ہیں ، خاوندکی ساری آمدنی فیشن لباس اور زیور کی نذرہوتی ہے،ناچارہوکرنااتفاقی اوربدمزگی ظاہرہونے لگتی ہے اورزیادہ بناﺅسنگارکی عادت ڈالنے سے تلاوت قرآن پاک، درود شریف واستغفار،دینی معلومات میں لگنے کی فرصت بھی نہیں ملتی پھر اصلی سجاوٹ توباطن یعنی دل اورروح کی سجاوٹ اورپاکیزگی ہے جسم ولباس کی عمدگی بھی اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب دل صاف ستھرا،اخلاق اچھے اورعادتیں پاکیزہ ہوں ۔ اخلاق گندا اورظاہر اچھااس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گندگی کوریشم میں لپیٹ کررکھ دیاجائے۔
الحاصل:
مسلمانوں کوسادہ زندگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے جس کی اسلام نے تعلیم دی ہے اور جس پر چل کرتمام چھوٹے بڑے امیرو غریب دنیامیں آرام سے رہ سکتے ہیں ، فضول خرچی اوررسمیں برتنے کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث برسوں لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں (استغفراللہ)ہزاروں روپے مہرمیں مقررکیے جاتے ہیں دکھاوے کے لیے جہیز تیارکرنے کے لیے سودی ادھارقرض لیناپڑتاہے جوبرسوں ادانہیں ہوتا۔اے مسلمانو!سادگی اختیارکرو۔بیاہ شادی کے موقعہ میں حضرت رسول مقبولe اورآپe کے گھروالوں کی پیروی کرو۔