ماحول

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماحول
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس میں ماحول کے حوالے سے بات ہورہی تھی۔ ملک صاحب نے کہاکہ ہر اہل قلم یامفکرغیرمحسوس طریقے سے اپنے ماحول سے اثرضرورقبول کرتاہے اوراگر ایک نظر سے دیکھاجائے توبقول کسے وہ اپنے عہدکی ذہنی آب وہواکی پیداوارہوتاہے اس کلیہ سے صرف پیغمبرکویامجتہدکومستثنی سمجھاگیاہے۔ ہرشخص اپنی سوچ کے زندان میں بندہے وہ عقائد،رسومات، توہمات،تعصبات اورمعاشرتی بندہنوں میں جکڑاہواہوتاہے جس کااسے احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ خود کوآزاد خیال ہی تصورکرتاہے۔
جس انسان کوان زنجیروں کااحساس ہوجائے سمجھ لواس نے آزادیِ فکرکی منزل کی طرف پہلا قدم رکھ لیاہے۔ لیکن آزدیِ فکریاآزادیِ اظہارکے ہرگز یہ معنی نہیں کہ جوجی میں آئے اسے بے دھڑک کہہ دیاجائے۔ دوسروں کی پگڑی اُچھالنایا دوسروں کی خوامخواہ دل آزاری کرنا بہت بڑامعاشرتی اوراخلاقی جرم ہے۔
ہاں البتہ وہ فکروہ اچھوتاخیال جس کے اظہارمیں بنی نوع انسان یاکسی معاشرے کی مجموعی یاعمومی بھلائی اوربہبودہواس پرکوئی پابندی نہیں لگانی چاہیے بلکہ بنی نوع انسان کی ترقی کاراز بہت حدتک اسی آزادی اظہارپرمبنی ہے۔اسلام بھی اس آزادی اظہار کاداعی ہے۔فرمان حق ہے ان کے ذہنوں پرجوبندھن تھے وہ کھول دیے گئے۔ ایساماحول ہرروشن خیال انسان کے لیے ساز گارہوتاہے اورہرفتنہ پرورکے لیے ناگوار۔
انصاری صاحب نے کہاکہ” ایک غیرت منداورحساس انسان کے لیے ایک ناگوار اور ناسازگارماحول سے سازگاری پیداکرنابڑاکٹھن کام ہوتاہے۔” میرصاحب نے کہاکہ” انسان کوچاہیے کہ وہ ناگوارماحول سے بھی تھوڑی بہت سازگاری پیداکرلے تاکہ زندگی اگر خوش گوارنہ ہو توکم از کم گواراہی بن جائے۔ یہ ماحول سے سازگاری مقامی موسم کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہے معاشرتی آداب ورسومات کے حوالے سے بھی، مزاج اورطبعیت کے تقاضوں کے حوالے سے بھی اوراخلاقی اقدارکے حوالے سے بھی۔
انصاری صاحب نے کہاکہ ہاں صرف اس حد تک سازگاری پیداکرنی چاہیے جس حد تک ضمیر پر آنچ نہ آئے ضمیر کے زخمی ہونے کاخدشہ ہوتواس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردے یا اس ماحول سے ہجرت کرجائے۔کسی نے ماحول سے سازگاری کے حوالے سے کیاخوب بات کہی ہے کہ انسان نہ پہاڑبنے کہ لوگ اس سے لاکھ سرٹکرائیں وہ ٹس سے مس نہ ہونہ تنکابنے کہ جدھر سے ہواآئی ادھر ہی اُڑگئے بلکہ درخت بنے جڑیں زمین میں پیوست رکھے اورمضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم رہے۔ ہاں ! جس طرح کی ہواہواس طرف تھوڑا بہت جھک جائے یوں توازن واعتدال کی راہ اپنائے نہ نکو بنے اورنہ ابن الوقت بلکہ ایک متوازن رویہ اختیارکرے۔
چوہدری صاحب نے کہاکہ شاہ جی اس مسئلہ کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟ شاہ جی نے کہا:”میاں ! ہم کسی ماحول سے بھی سازگاری پیدانہ کرسکے ہم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی وہ عجیب بھی تھااورعیب داربھی۔ دوچیزیں اس ماحول میں نمایاں تھیں ۔ دشمنانِ اسلام کا تعصب اورمسلمانوں کی بے حسی۔ دشمن متعصب بھی تھا،مکاربھی اورمنظم بھی۔ مسلمان بے حس بھی تھا، بے فکرابھی اورمنتشربھی۔
عام مسلمان عام طورپردن کوبٹیربازی اورگپ شپ بازی کرتے تھے رات کوقوالی سنتے تھے۔درمیانہ درجے کے کے لوگ دن کونوکری اوررات کوشاعری کرتے تھے یا مشاعروں کی رونق بڑھاتے تھے۔یہ قلندراس ماحول سے سخت دلبرداشتہ تھا۔ پھرقائداعظم کی ولولہ انگیزقیادت میں پاکستان بن گیالیکن.... لیکن اب یہ قلندربے مایہ،جس ماحول میں ہے وہ بھی کچھ عجیب ساہے اورعیب داربھی،گویایہ حال ہے
کس کس کو خدا مانئے اس شہر میں تیرے
دیکھا کہ ترے شہر کا ہر شخص خدا تھا
اہل دین کااصرارہے کہ دین کے احکامات پرسختی سے عمل کرو۔ورنہ دوزخ کی دہکتی آگ تمہارے لیے تیارہے اوراہل حکومت کاحکم ہے کہ ملکی قانون پرپوری طرح عمل کرو۔ورنہ جیل کی آہنی سلاخیں تمہاری منتظرہیں اورلطف کی بات یہ ہے کہ بیشتر اہل دین؛ مذہب کودنیا کے حصول کاذریعہ جانتے ہیں اور بیشتر اہل حکومت قانون کواپنے گھرکی لونڈی سمجھتے ہیں ۔ وہ دین سے دورہیں یہ قانون سے مبراہیں ۔ دونوں میرے ماحول کوایسابنارہے ہیں کہ دین فروشی اور قانون شکنی مجبوری ہی نہیں بلکہ مشغلہ بنتی جارہی ہے۔
اس ماحول میں خواص کاپیشہ سیاست ہے یہ لوگ دن کوسیاست کرتے ہیں رات کوسازش۔ حکمرانوں کوہٹانااورحکومتیں بناناان کے لیے سب سے اہم کام ہے بیچارے عوام کاکام لیڈران کرام کے جھوٹے وعدوں میں مگن رہنا،زندہ باد اورمردہ باد کے نعرے لگانا،فلمی اورکھیل کے میدان کے ستاروں کوجان سے زیادہ چاہنا،آسمانی ستاروں کی گردش پرپکاایمان رکھتے ہوئے ستارہ شناسوں کواپناکارسازسمجھنا،اس حقیقت سے بے خبراوربے نیاز کہ باہمت لوگ ستاروں کے اشاروں پرچلنے کی بجائے ستاروں کواپنے اشاروں پر چلاتے ہیں اورفلمی ستاروں کی کمندزلف میں اسیرہونے کی بجائے آسمانی ستاروں پرکمندیں ڈالتے ہیں ۔
اب رہے درمیانی طبقے کے لوگ تووہ صرف سفیدپوشی کابھرم رکھنے کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں ، گھرمیں بیوی کی صلواتیں خاموشی سے سنتے ہیں ، دفتر میں افسرکی جھڑکیاں بڑے تحمل سے کھاتے ہیں ، صبح کوناشتے کی میز پراخبارپڑھتے ہیں شام کوڈرائینگ روم میں بیٹھ کرسیاست پر جگالی فرماتے ہیں ، یہ قلندراس ماحول سے بھی آزردہ ہے کہ آج بھی دشمنان اسلام مکاربھی ہیں ، متعصب بھی اورمتحدبھی ....اورمسلمان بے حس بھی ہے، بے فکرابھی اورمنتشربھی۔
آج لوگوں کی نظر میں اچھا سیاسی لیڈروہ ہے جوبہت پیسے والاہو،بہت زیادہ دلکش اوردلنشیں لفظوں کے سنہری خواب دکھاتاہواورخوشمناوعدے کرتاہو۔خواہ وہ بہت بڑے قبضہ گروپ کاسردارہی کیوں نہ ہو جب کہ اس قلندرکی نظرمیں اچھاسیاسی لیڈروہ ہے جوصرف عدل پرست اوروطن دوست ہو۔ لوگوں کی نظرمیں دیندار اورعلامہ وہ ہے جوقیمتی عباوقباسے مزین ہو،مسجع مرصع، مقطع شخصیت کامالک ہوکلاشنکوف بردارمحافظوں سے مسلح ہو،خطابت کاماہرہو،زبان کا جادوگرہو،ہاتھ میں تسبیح ہو،منہ میں اللہ اللہ ہو،خداپرستی کادعوایدارہو۔خواہ وہ خودپرستی کا شکار ہو سب کی نظر میں وہی اہل حق ہے اہل اللہ ہے علامہ اورفہامہ ہے۔ جب کہ اس قلندرکی نظرمیں دین داراوراہل حق وہ ہے جوصرف حق پرست اورانسان دوست ہو۔لوگ عقل کی خرابی کوبہت براسمجھتے ہیں میں نیت کی خرابی کوعقل کی خرابی سے زیادہ خطرناک سمجھتاہوں ، لوگوں کی نظر میں وہ ماحول سب سے اچھاہے جس میں مسجدوں ، نمازیوں اور حاجیوں کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا ہو،چاہے چوراورڈاکودندناتے پھررہے ہوں ۔
میری نظر میں اچھااورسچاماحول وہ ہے جس میں مسجدوں ، نمازیوں اورحاجیوں کے اضافہ کے ساتھ ساتھ مجرموں میں بھی کمی ہورہی ہوبلکہ ان کا خاتمہ ہورہاہو۔بھائیو !اس قلندردلسوختہ ودلباختہ کی کسی ماحول سے نہ بنی یہ کسی ماحول سے سازگاری پیدانہ کرسکابلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگاکہ یہ قلندرکسی ماحول سے سازباز نہ کرسکا۔مجھے اپنی نالائقی بلکہ اپنے جرم کا اعتراف ہے۔