ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
ظہیرالدین محمدبابراورشیرم طغائی ایک دوسرے کے پہلویہ پہلوعیدگاہ کی جانب اڑے چلے جارہے تھے بابرکاذہن بھی محوپرواز تھا۔چونکہ اس نے ابھی تک اپنے بچپن سے باہرقدم نہیں رکھاتھااس لیے اس کے ذہن نارسامیں معاملہ سجنی کافقدان تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بھی معاملے میں قدم پہلے اٹھالیتاتھااوراس سے پیداہونے والے نتائج پر غوربعدمیں کرتاتھا۔آج بھی وہ اسی مخمصے کاشکارتھااس وقت اس کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال گردش کررہاتھا۔
آخر سلاخ اسے عیدگاہ کی طرف کیوں لیے جارہاتھا؟
بابرکوسلاخ کی وفاداری پرکوئی شک نہ تھااس نے اپنے سرکوجھٹکااوردل ہی دل میں کہاجوہوگادیکھاجائے گا۔
جب وہ محل سے نکلاتھاایک شکاری بازاس کے ہاتھ پربیٹھاہواتھا۔ وہ اس قدر بدحواس ہوکر محل سے نکلاتھاکہ اسے اپنے شکاری بازکومحل کے اندرپہنچانے کاہوش بھی نہیں رہاتھااب جب کہ وہ اندرجان کے بازارسے گزررہاتھاتواسے باز کاخیال آیااوراس نے باز کومحل کے ایک ملازم کے حوالے کیااوراسے حکم دیاکہ اسے محل میں پہنچادیاجائے۔
کچھ ہی وقت میں بابراوراس کاہمراہی شیرم طغائی عیدگاہ میں تھے بابر نے بالآخرشیرم طغائی سے پوچھ ہی ڈالاکہ
نا !تمہیں پورایقین ہے کہ اس عیدگاہ میں محفوظ رہوں گا؟
شیرم طغائی نے اپناگھوڑابابرکے قریب لاتے ہوئے پورے اعتمادسے کہا:”حضور والا!آپ متفکر نہ ہوں میں اس اعتماد کے ساتھ آپ کویہاں لایاہوں کہ آپ یہاں پوری طرح محفوظ ہیں سامنے حدنگاہ تک جوپہاڑی سلسلہ پھیلاہواہے یہ ہمارے لیے ایک بہترین پناہ گاہ ثابت ہوگا یہاں قیام پذیرہونے سے ہمیں دہرافائدہ ہوگایعنی ایک تو ہم متوقع خطرے سے محفوظ رہیں گے اوردوسرے دارالسلطنت سے قریب تر ہونے کی وجہ سے ہم فرغانہ کے حالات سے باخبربھی رہیں گے۔
شیرم طغائی کے اس برجستہ جواب نے بابرکومطمئن کردیا مگر اس نے اپنی معلومات میں مزید اضافے کے لیے اس سے پوچھ ہی لیاکہ:آخر میرے اندرجان میں رہنے سے مجھے کیاخطرہ لاحق ہوسکتاتھا؟کیامیں اپنے محل میں محفوظ نہیں تھا؟
شیرم طغائی نے نہایت ہی شستہ لہجے میں کہا:”شہزادہ معظم!آپ شاید نہیں جانتے کہ جولوگ خود حکومت فرغانہ کاوفادارکہتے ہیں دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے فائدے کے لیے آپ کوگرفتار کر کے خاقان اعظم یاآپ کے چچا سلطان احمدمرزا کے حوالے کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ تادیر فرغانہ کے تخت وتاج کاتحفظ نہ کرسکیں گے۔
یہ ابن الوقت لوگ کبھی ایک صاحب تخت کے وفادارنہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے مفادات کے پیش نظرہراس شخص کے تلوے چاٹتے ہیں جوکہ سریرآرائے سلطنت ہوتاہے۔
بنابریں میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتاہوں کہ یہ ابن الوقت لوگ جس کسی کو بھی فرغانہ کے تخت وتاج پرقابض پائیں گے تواس ہی کے دربارسے وابستہ ہوجائیں گے۔ اگر انہیں آپ کواپنے مفادات پرقربان بھی کرناپڑتاتودریغ نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم حضوروالاکوان لوگوں کی دسترس سے تادیرمحفوظ رکھناچاہتے ہیں ۔ جب تک کہ آپ کے قدم مسند شاہی پرپوری طرح جمنے نہیں پاتے۔
بابرکوا س بات پر یقین نہیں آرہاتھاکہ وہ لوگ جو ایک مدت سے اس کے والد محترم کی محبت اور وفاداری کادم بھرتے چلے آرہے تھے وہ کس طرح اس سے بے وفائی کے مرتکب ہوسکتے تھے مگر اسے سلاخ اور شیرم طغائی کی وفاداری پر بھی کوئی شبہ نہیں تھا وہ جو کچھ بھی کررہے تھے اس کی بھلائی کے لیے ہی توکررہے تھے ورنہ اس بات میں ان کے کون سی غرض پوشیدہ تھی۔ بابر نے کچھ دیر سوچتے ہوئے شیرم طغائی سے کہا: کیاوہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ دراصل میں ہی فرغانہ کے تاج وتخت کااصل وارث ہوں ؟
شیرم طغائی نے جواب دیا:حضوروالاشاید آپ کواس بات کاادراک نہیں ہے کہ سلطنت خداداد فرغانہ پردوبڑی طاقتوں نے اپنے دندان آز تیزکررکھے ہیں اندریں حالات کون بے قوف امیر ہوگا جوایک بارہ سالہ لڑکے لیے اپنامستقبل داﺅپرلگائے ہوئے دومُکھی جنگ لڑے گا۔
ادھراندرجان کے شاہی محل میں عمر شیخ مرزا کی موت کی خبرپہنچتے ہی ایک کہرام سا بپا تھا امرائے دربارقاضی شہرخواجہ قاضی کے گردجمع تھے اور بظاہرغمزدہ دکھائے دے رہے تھے۔ خواجہ قاضی کی دوربین نگاہیں ایک ایک چہرے کاطواف کررہی تھیں ۔ وہ چہروں کے اتارچڑھاﺅسے حاضرین کے دلی جذبات کااندازہ لگارہاتھا۔
خواجہ قاضی کے بے چین نگاہیں بابرکی متلاشی تھیں مگروہ انہیں دوردورتک کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہاتھا۔اس کی تشویش میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہاتھاوہ اپنے تئیں سوچ رہاتھاکہ:اگر یہ لڑکابروقت یہاں نہ پہنچاتوپھروہ اپناتاج وتخت کھودے گا۔اسے بہرصورت یہاں موجود ہوناچاہیے۔
خواجہ قاضی نے اسی خیال کے پیش نظر عمر شیخ مرزا کے چند معتبراورقابل اعتماد امراءکواشارتاً اپنے پاس بلایااورایک طرف لے جاکررازدارانہ اندازمیں ان سے کہاکہ:مجھے شہزادہ معظم کہیں دکھائی نہیں دے رہا اسے بہرصورت اس وقت یہاں موجودہوناچاہیے تھا۔اگرایسانہ ہواتومجھے ڈرہے کہ وہ اپنا تاج وتخت کھودے گا۔اسے تلاش کرواورفی الفور یہاں آموجود کرو۔ وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلاچلاجارہاہے۔ اگرآج اس کے سرپرتاج نہ سجایا جا سکا تو پھر ایسا کبھی بھی نہیں کیاجاسکے گا۔ وہ یقینااس وقت سلاخ کی ہمراہی میں ہوگا۔
حسن یعقوب بھی حسب عادت اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا۔وہ بابرکے علی الرغم عمر شیخ مرزاکے دوسرے بیٹے جہانگیر مرزا کومسند شاہی پر بٹھاناچاہتاتھا۔ ایک عرصہ سے وہ جہانگیر مرزاکواپنے ڈھب پرلائے ہوئے تھا۔دراصل وہ بھولے بھالے جہانگیر مرزاکوودائی فرغانہ بناکراس کے پس پردہ بادشاہت کے مزے لوٹناچاہتاتھا۔
عمرشیخ مرزا کے معتمد امراءکوبھی حسن یعقوب کی وفاداری پر شک ساہونے لگا اس لیے خواجہ قاضی کااشارہ پاتے ہی بابرکی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہیں جلد ہی مخبروں کی زبانی یہ معلوم ہوگیاکہ شہزادہ معظم عیدگاہ کی طرف جاتاہوادیکھاگیاتھاجب کہ اس کے ہمراہ شیرم طغائی بھی تھا۔
وقت ضائع کئے بغیر وہ عید گاہ پہنچے اورپھربابرکے تعاقب میں جنوبی کوہستانی سلسلوں تک پہنچ گئے۔ تلاش بسیارکے بعد انہیں بابر سلاخ اورشیرم طغائی مل گئے انہوں نے بلاتامل خواجہ قاضی کاپیغام بابرتک پہنچایا اوراس سے واپس شاہی محل پہنچنے کی استدعاکی۔ بابرنے اپنے دونوں معتمدساتھیوں سے مشورہ کیا۔
سلاخ اورشیرم طغائی پیغام سروں کی گفتگو سے یہ اندازہ لگاچکے تھے کہ شہزادہ معظم کااندرجان پہنچاکسی قدر ضروری ٹھہرچکاتھابنابریں نے بلاکم وکاست بابرسے کہاکہ حضوروالا! اندریں حالات ہماراشاہی محل پہنچااز حدضروری ہے کہیں ایسانہ ہوکہ ہماری تھوڑی سی تاخیرہمارے لیے زندگی بھرکاپچھتاوابن جائے۔
قصہ کوتاہ بابرسلاخ اورشیرطغائی اپنے معتمدا پیغامبروں سمیت آناًفاناًشاہی محل جاپہنچے خواجہ قاضی نے بابرکواپنے سامنے موجود پایاتوخوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں وہ لوگ جن کے دلوں میں چورتھاان کے چہروں پرہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ حسن یعقوب کاچہرہ بھی لٹک گیا۔
خواجہ قاضی نے بابرکومخاطب کرکے کہا:شہزادہ حضور!آپ نے بڑی کم حوصلگی کاثبوت دیاہے آپ کوروپوش ہونے کی کیاضرورت پیش آگئی تھی؟ نصیب دشمناں !اگرآپ کوآنے میں لمحہ بھرکی بھی تاخیرہوجاتی توپھرہمارے لیے زندگی بھرکے پچھتاوے کے سواکچھ باقی نہ رہ جاتا۔ دیر آید درست آیدکے مصداق آئیے!مسند شاہی پرقدم رنجا فرمائیے!
خواجہ قاضی نے بابرکاہاتھ تھامااوراسے مسند شاہی تک لیے چلاہرشخص صامت وجامد اپنی اپنی نشست پر جم گیا۔ جونہی بابرتخت پرجلوہ افروز ہواخواجہ قاضی نے آگے بڑھ کرتاج شاہی اس کے سرپرسجادیا۔
کم ہمت اورکج فہم امراءاپنی اپنی ناتمام امیدوں کوسینوں میں دفنائے مستقبل کے بادشاہ کی خوشخبری حاصل کرنے کے لیے زورزورسے تالیاں بجاکراپنی مصنوعی خوشی کااظہارکرنے لگے دربارشاہی بے شمارتالیوں سے گونج اٹھا۔
حسن یعقوب کے خواب بھی چکناچورہوچکے تھے باایں ہمہ اس نے اپنی خفت مٹاتے ہوئے شہزادہ جہانگیر مرزا کے کانوں میں کاناپھوسی کی کہ شہزادہ معظم!فکرمند مت ہوئیے بابرکی متلون مزاجی مسلم ہے فراری ذہنیت کاحامل یہ شہزادہ مشکلات میں گھِرجانے کے بعدتادیرمسند شاہی پرٹکنے والانہیں ہے۔ بہت جلدوہ راہ فراراختیارکرلے گااورپھرتاج شاہی آپ کے سر پر ہو گا میری دوررس نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ ساعت سعید زیادہ دورنہیں ہے میں آپ کے سرپرتاج شاہی سجاﺅں گا۔شہزادہ جہانگیرمرزاحسن یعقوب کی کھُسرپھُسر کے جواب میں صرف سرہلاکررہ گیا وہ خوب جانتاتھاکہ یہ حسن یعقوب کی خام خیالی تھی اوروہ اس وقت صرف اپنی خفت مٹارہاتھا۔ کیونکہ بلی کے بھاگوں کبھی بھی یہ چھینکاٹوٹنے والانہیں تھا۔........................جاری ہے