کتے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کتے
پطرس بخاری
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھاسلوتریوں سے دریافت کیا۔خودسرکھپاتے رہے۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا۔آخرکتوں کافائدہ کیاہے؟گائے کولیجئے دودھ دیتی ہے۔بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔یہ کتے کیاکرتے ہیں ؟ کہنے لگے کہ کتاوفادارجانورہے۔ اب جناب وفاداری اگراسی کانام ہے کہ شام کے سات بجے سے جوبھونکناشروع کیا۔ تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔توہم لنڈورے ہی بھلے۔
کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جوذراگداگدائی تو انہوں نے باہرسٹرک پرآکرطرح کاایک مصرعہ دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں سے ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کوجوغصہ آیا۔ ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اوربھناکے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داددی۔ اب توحضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھئے۔کم بخت بعض تودوغزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔وہ ہنگامہ گرم ہواکہ ٹھنڈاہونے میں نہ آتاتھا۔
ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ آرڈر،آرڈرپکارا۔لیکن ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایساہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوامیں جاکرطبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آ کر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے؟
اورپھرہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں ۔ اکثر توان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کودیکھ کربھونکنے لگ جاتے ہیں ۔ خیر یہ توایک حدتک قابل تعریف بھی ہے۔اس کاذکرہی جانے دیجئے۔اس کے علاوہ ایک اوربات یعنی ہمیں بارہاڈالیاں دے کرصاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کااتفاق ہوا۔خداکی قسم ان کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں ۔ جونہی ہم بنگلے کے دروازے میں داخل ہوئے کتے نے برآمدے ہی میں کھڑے کھڑے ایک ہلکہ سی” بخ” کردی اورپھرمنہ بندکرکے کھڑاہوگیا ہم آگے بڑھے تواس نے بھی چارقدم آگے بڑھ کرایک نازک آواز میں پھر”بخ” کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری؛ موسیقی کی موسیقی۔
ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سر۔ نہ سرنہ پیر۔تان پہ تان لگائے جاتے ہیں ۔ بے تالے کہیں کے۔ نہ موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں ۔ گلے بازی کئے جاتے ہیں ۔ گھمنڈاس بات پرہے کہ تان سین اسی ملک میں توپیداہواتھا۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذراکشیدہ ہی رہے ہیں ۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجئے جو ایسے موقعوں پرہم نے کبھی ستیہ گرہ سے منہ موڑاہو۔شاید آپ اس کوتعلّی سمجھیں ۔ لیکن خداشاہدہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پرہاتھ اٹھ ہی نہ سکا۔ اکثردوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرورہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے۔
لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیداکرنانہیں چاہتے۔کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پراس درجہ غلبہ پاجاتی ہے کہ آپ ہمیں اگر اس وقت دیکھیں تویقینا یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں ۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگالیں کہ ہماراگلاخشک ہواجاتاہے یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پرکبھی میں گانے کی کوشش کروں توکھرج کی سروں کے سوااورکچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو توآپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پرآیة الکرسی آپ کے ذہن سے اتر جائے گی اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں ۔
بعض اوقات ایسا بھی اتفاق ہواہے کہ رات کے دوبجے چھڑی گھماتے آرہے ہیں اور کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کاعالم بھی ہے۔ اس لیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہوگئے تو کوئی یہی سمجھے گا انگریزی موسیقی ہے۔ اتنے میں ایک موڑ سے جومڑے توسامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو۔ آنکھوں نے اسے بھی کتادیکھا۔ایک توکتا اور پھربکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا بس ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوامیں کہیں ٹھہرگئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھراکرخاموش ہوگئی۔ لیکن کیامجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیاہو۔گویاایک بے آواز لَے ابھی تک نکل رہی ہے۔طب کامسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگرسردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے توکوئی مضائقہ نہیں ۔ بعد میں پھر سوکھ جاتاہے۔
چونکہ ہم طبعا ذرامحتاط ہیں اس لیے آج تک کتے کے کاٹنے کاکبھی اتفاق نہیں ہوا۔ یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کوکبھی نہیں کاٹا۔اگرایساسانحہ کبھی پیش آیاہوتاتواس سرگزشت کی بجائے آج ہمارامرثیہ چھپ رہاہوتا۔تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتاہے کہ اس کتے کی مٹی سے بھی کتاگھاس پیداہو۔لیکن
کہوں کس سے میں کہ کیاہے سگ رہ بری بلاہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیامیں کتے موجودہیں اوربھونکنے پرمصرہیں ، سمجھ لیجئے کہ ہم قبرمیں پاﺅں لٹکائے بیٹھے ہیں اورپھران کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں ۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھربچوں بوڑھوں سبھی کولاحق ہے اگر کوئی بھاری بھرکم کتاکبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کوقائم رکھنے کےلئے بھونک لے۔ تو ہم بھی چاروناچارکہہ دیں کہ بھئی بھونک(اگرچہ ایسے وقت میں اس کوزنجیر سے بندھاہوناچاہیے)لیکن یہ کم بخت دوروزہ سہ روزہ دودوتین تین تولے کے پلے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذراساپھیپھڑااس پربھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دم تک پہنچتی ہے اورپھربھونکتے ہیں چلتی موٹرکے سامنے آکر۔ گویااسے روک ہی تولیں گے۔ اب اگر یہ خاکسارموٹرچلارہاہوتوقطعاًہاتھ کام کرنے سے انکار کردیں ۔ لیکن ہرکوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑاہی کردے گا۔
کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑااعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ کومعطل کردیتی ہے خصوصاًجب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کاایک پوراخفیہ جثہ باہر سٹرک پر آکراپنا کام شروع کردے توآپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں ؟ ہرایک کی طرف باری باری متوجہ ہوناپڑتاہے کچھ ان کاشورکچھ ہماری صدائے احتجاج(زیرلب)بے ڈھنگی حرکات وسکنات(حرکات ان کی سکنات ہماری) اس ہنگامے میں دماغ بھلاخاک کام کرسکتاہے؟ اگرچہ یہ مجھے نہیں معلوم کہ اگرایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی توکیاتیرمارلے گا؟
بہرصورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے اگر ان کاایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکرکہہ دے کہ عالی جناب !سٹرک بندہے تو خداکی قسم ہم بغیر چون وچراں کئے واپس لوٹ جائیں اوریہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سٹرکیں ناپنے میں گزاردی ہیں ۔ لیکن پوری مجلس کایوں متفقہ ومتحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔
خدانے ہرقوم میں نیک افراد بھی پیداکئے ہیں ۔ کتے اس کلیے سے مستثنی نہیں ۔ آپ نے خداترس کتابھی ضروردیکھاہوگا۔عمومااس کے جسم پرتپسیاکے اثرات ظاہرہوتے ہیں جب چلتاہے تواس مسکینی اورعجز سے کہ گویابارگناہ کااحساس آنکھ نہیں اُٹھانے دیتا۔دم اکثرپیٹ کے ساتھ لگی رہتی ہے۔سٹرک کے بیچوں بیچ غوروفکرکے لیے لیٹ جاتاہے اورآنکھیں بندکرلیتاہے شکل بالکل فلاسفروں کی سی اورشجرہ دیوجانس کلبی سے ملتاہے۔
کسی گاڑی والے نے متواتر بگ بجایاگاڑی کے مختلف حصوں کوکھٹکھٹایا۔لوگوں سے کہلوایا خوددس بارہ دفعہ آوازیں دیں ۔ توآپ نے سر کو وہیں زمین پررکھے سرخ مخمورآنکھوں کو کھولا۔صورت حالات کوایک نظردیکھااورپھرآنکھیں بند کر لیں ۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کرایک گزپرے جالیٹے اورخیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیاتھا۔ وہیں سے پھرشروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی تولیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ رستہ چھوڑ دینافقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔
رات کے وقت یہ یکتااپنی خشک پتلی سی دم کوتابحدامکان سٹرک پرپھیلاکررکھتاہے اس سے محض خداکے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصودہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاﺅں رکھ دیا۔ انہوں نے غیض وغضب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کردی۔ بچہ فقیروں کو چھیڑتاہے، نظرنہیں آتا۔ہم سادھولوگ یہاں بیٹھے ہیں ۔ بس اس فقیر کی بددعاسے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتاہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظرآتے رہتے ہیں ۔ کہ بے شمارکتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اورجانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے توپاﺅں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں ۔
اگرخدامجھے کچھ عرصے کے لیے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اورکاٹنے کی طاقت عطافرماتے تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدارمیں ہے۔رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے لیے کسولی پہنچ جائیں ۔ ایک شعرہے۔
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے جوایشیا کے لیے باعث ننگ ہے انگریزی میں ایک مثل ہے کہ بھونکتے ہوئے کتے کاٹانہیں کرتے۔ یہ بجاسہی لیکن کون جانتاہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنابندکردے اورکاٹناشروع کردے۔