ذرائع ابلاغ اورہماری ذمہ داریاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ذرائع ابلاغ اورہماری ذمہ داریاں
محمد نعیم اللہ بلوچ،لیہ
یہ ایک اصولی بات ہے کہ وقت بدلنے سے تقاضے بدل جاتے ہیں لیکن حکم وہی رہتا ہے۔ آلات بدل جاتے ہیں، مکان بدل جاتے ہیں، جو چیز کل حرام تھی، آج بھی حرام ہے اور حرام رہے گی، اسی طرح حلال اشیاء کل بھی حلال تھیں آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔
ہاں ! جوآلات وغیرہ تبدیل ہوئے اوراس کے باعث اصل کام میں تیزی اور اضافہ ہوا ہے تو اس کام کو کرنے میں تامل نہ کرنا چاہیے اور ان آلات کو استعمال میں لا کر اصل کام میں بہتری لائی جائے یہی مقصود ہے مثلاً: زمانہ قدیم میں آلات حرب شمشیر و سنان، نیزے وغیرہ تھے پھربندوق اور اب ایٹم بم کا زمانہ ہے تو اصل کام اعلاء کلمۃ اللہ ہے اس کے لیے تمام آلات استعمال کرنا ضروی ہیں ورنہ نہ تو خدا کے دین کا پرچار ہو گا اور نہ ہی حفاظت۔ اسی طرح ابلاغ کے ذرائع کا معاملہ ہے ابلاغ کے ذرائع زمانہ قدیم میں اور تھے اور آج وہ نئی شکل میں آئے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جو اب اس قدر فعال ہے ظاہر ہے کہ زمانہ قدیم میں ایسا نہیں تھا کسی بھی چیز کو اگر صحیح استعمال نہ کیا جائے تو غلط استعمال عام ہو جاتا ہے جو سراسر نقصان دہ ہوتا ہے مثلاً: تلاوت قرآن نہ ہوگی تو موسیقی کا لاوا ابلے گا نکاح مہنگے ہوں گے تو زنا سستا ہوگا وغیرہ وغیرہ اسی طرح معاملہ ذرائع ابلاغ کا ہے اگر ان کا صحیح استعمال نہ ہوا تو زرد صحافت عام ہوگی عریانی، فحاشی، میوزیکل شو، بے ہنگم موسیقی ناچ، گانے، ڈانس، مقابلہ حسن،فحش ناول جھوٹی افسانوں کہانیاں، وہمی اور خیالی عقائد زمانے میں فروغ پائیں گے جن کا نقصان ظاہر ہے کہ پوری امت مسلمہ کانقصان کہلائے گا۔
اگر مجھے اجازت ہو تو میں یہ بات بھی عرض کر دوں، کہ اس وقت ہم من حیث القوم اس پر خطر گھاٹی میں مسلسل کھنچے چلے جا رہے ہیں جس کا آخرسوائے ہلاکت وتباہی کے کچھ نہیں، موجودہ دور میں ہم جنس پرستی کی لعنت سے لے کر قتل وغارت گری تک فرسودہ عقائد اور اوہام و وساوس کی تعلیمات سے لے کر بدعت والحاد کے فروغ تک میڈیا کا کردار سب سے اہم اور خطرناک ہے۔
یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ جوکچھ وہ اپنی انکھوں سے دیکھتا ہے وہ مناظر اس کے ذہن پر نقش ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بلکہ اگر ایک بات کا ذکر بار بارکیاجائے تو لا محالہ وہ ذہن میں پختہ ہو جائے گی۔ تعلیم کے ابتدائی درجات میں اساتذہ کرام ایک نصیحت فرمایاکرتے تھے۔ الشیٔ اذا تکرر تقرر۔ایک چیز کا ذکر جب بار بارکیا جائے تو وہ ذہن میں پختہ ہو جائے گی جب معاشرے میں حیا سوز گانے، اخلاق باختہ موسیقی اور فحش گوئی پر مشتمل مکالمے پھیلیں گے تومعاشرہ خود بخود خراب ہو گا۔ ایسے حالات میں کسی بھی صالح معاشرے کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ تمام افراد سے دست بستہ عرض کروں گا کہ اپنی تمام تر توانائیاں صلاحتیں اور استعدادیں اسلام کے نظریہ ابلاغ میں صرف کر دیں اسلام کے روشن ماتھے پر بد نما داغ لگانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ اہل قلم اپنے قلم کے تقدس کو سمجھیں اہل صحافت اپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں ؛ اور الیکڑانک میڈیا پر راج کرنے والے اسلام کی سطوت وشوکت کے لیے تگ و دو کریں۔ یہ بات بھی ضرور یاد رکھیں کہ اسلام کے ہم محتاج ہیں اسلام ہمارا محتاج نہیں۔ اگر ہم نے اسلام کی خدمت نہ کی تو رب ذوالعُلیٰ کسی اور قوم کو لا کر اپنے اسلام کی حفاظت کر لے گا جب بیت اللہ کو بچانے کے لیے انسان ہمت ہارتا ہے توخدا ئے لم یزل ابابیلوں سے کام لے لیتے ہیں۔
لہذا اس بات کی ہمارے اس دورمیں اشدضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ کوصحیح طور پر استعمال کیا جائے ورنہ اہل اسلام میں کفارکا طرز زندگی ان کا رہن سہن بود وباش برابر عام ہوتی چلی جائے گی اور ہم اپنے عالی اقدارکھو بیٹھیں گے اپنی تہذیب اور اپنے تمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور بقول شاعر۔
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں