اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اہم اسلامی آداب
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ
ادب 6:
جب آپ نے اپنے کسی بھائی کادروازہ کھٹکھٹایااوراندرسے آواز آئی: آپ کون؟ تو آپ اپناوہ پورانام بتلائیں جس سے آپ کو پکارا جاتا ہو کہ میں فلاں ہوں، لہذا یہ نہ کہیں کہ کوئی ایک ہوں، یامیں ہوں یاایک شخص ہوں کیونکہ اندرسے پوچھنے والاان الفاظ سے آنے والے کو نہیں پہچان سکتااورآپ کایہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صاحب خانہ آپ کی آواز پہچانتے ہیں کیونکہ آوازیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اورانداز بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں لہذا ضروری نہیں کہ گھر والے آپ کی آواز کوپہچان سکیں یاامتیاز کرسکیں کیونکہ کان بھی آواز کے پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں اورنبی کریمe نے جواب میں’ ’میں’ ‘ کہنے کو ناپسند کیا ہے کیونکہ اس سے صحیح پہچان نہیں ہوتی۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے امام بخاری اورامام مسلم نے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمeکی خدمت میں حاضر ہوا اور جب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ e نے فرمایا:’’کون؟‘‘ میں نے جواب میں عرض کیا:’’میں’ ‘ تو اس پر آپ e نے بطور نکیر فرمایا’ ’میں، میں’ ‘ گویا آپe کومیرا’ ’میں’ ‘کہنا ناگوار گزرا۔یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام سے کہاجاتا:کون؟ تووہ اپنا نام لیتے تھے۔
بخاری اورمسلم میں حضرت ابوذرغفاریt سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات جب میں اپنے گھرسے نکلا توکیا دیکھتاہوں کہ رسول اللہe تنہا تشریف لے جا رہے ہیں میں چاند کے سائے میں چلنے لگاآپe نے مڑ کر دیکھاتومجھے دیکھ لیااورفرمایا:’’یہ کون ہے؟’ ‘ میں نے عرض کی:’ ’ابوذر‘‘نیز امام بخاری اورامام مسلم نے حضرت علیt کی بہن اورآپ e کی چچا زاد بہن ام ہانی سے روایت نقل کی ہے کہ میں نبی کریمe کی خدمت میں حاضرہوئی، آپe غسل فرما رہے تھے اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ پردہ پکڑے ہوئے تھی،آپ e نے فرمایا:’’یہ کون ہے؟‘‘تومیں نے کہا میں ام ہانی ہوں۔
ادب7:
جب آپ بغیر کسی پیشگی وعدہ کے کسی بھائی سے ملاقات کے لیے جائیں، یاپہلے کوئی وعدہ تھامگراس نے اس وقت ملاقات سے معذرت کرلی تھی تو آپ اس کی معذرت کوقبول کرلیں کیونکہ وہ اپنے گھر کے حالات اوراپنی معذوریوں کو خوب جانتاہے ممکن ہے کہ اسے کوئی خاص مانع پیش آگیاہو، یا کوئی خاص ایسی حالت در پیش ہو کہ اس وقت وہ آپ کا استقبال نہ کر سکتا ہو اور ایسے حالات میں آپ سے معذرت کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا۔ جلیل القدر تابعی حضرت قتادہ بن دعامۃ السدوسی فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے دروازے پر مت کھڑے ہوں جنہوں نے آپ کو اپنے دروازہ سے واپس کردیا ہوکیونکہ اگرآپ کی ضرورتیں ہیں تو ان کی بھی مصروفیات ہیں لہذا ان کو عذر کرنے کا زیادہ حق ہے۔
حضرت امام مالک فرمایاکرتے تھے ہر آدمی اپنا عذر بیان نہیں کر سکتا اسی لیے سلف صالحین کی عادت تھی کہ کسی کی ملاقات کے لیے جاتے تواس سے کہتے ممکن ہے اس وقت آپ کو کوئی مشغولیت ہو تاکہ صاحب خا نہ اگر عذر پیش کرے تو اس کے لیے آسانی ہو۔
مذکورہ ادب کی اہمیت اورصاحب خانہ کی جانب سے معذرت کی صورت میں بعض حضرات کے نفس میں احساس پیداہونے کی بناء پراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زیارت اور اجازت کے ضمن میں فرمایا:’’وان قیل لکم ارجعوفارجعوا ھوازکی لکم‘‘
ترجمہ: اور اگر تم کوجواب ملے کہ پھرجائو تو پھر جائواس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لیے۔
قرآن کریم کے اس ادب سے اس شخص کو بھی سہولت ہے جوبعض غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے مثلایہ کہ اسے کسی سے ملنا ناگوار ہوتا ہے تووہ مجبوراً جھوٹ بولتااورکسی سے کہلواتاہے کہ وہ گھر میں نہیں حالانکہ وہ گھر میں موجود ہوتا ہے اس طرح اس سے جھوٹ کاگناہ سر زد ہوتاہے اور اس سے گھرمیں موجود چھوٹے بچے بھی یہ ناپسندیدہ عاد ت سیکھتے ہیں اوربسااوقات اس غلط تصور سے دلوں میں دشمنی اورکینہ پیداہوتاہے۔
قرآن کریم کی ہدایت ہمیں اس برائی میں پڑنے سے روکتی ہے، اس لیے وہ صاحب خانہ کو یہ حق دیتی ہے کہ بڑی نرمی سے اپنے آنے والے بھائی سے معذرت کر لے اور آنے والے کو یہ ہدایت دی ہے کہ وصاحب خانہ کاعذرقبول کرے۔
اس لیے فرمایا:
’’وان قیل لکم ارجعوفارجعوا ھو ازکی لکم
‘ ‘
ادب8:
جب آپ کسی کے گھرمیں جانے کی اجازت لیں تواس بات کاخیال رکھیں کہ آپ کی نگاہ گھر کے اندر یاکسی خاتون پر نہ پڑے کیونکہ وہ عیب اوربرائی ہے۔
امام ابودائود اورطبرانی نے حضرت سعد بن عبادہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص آیا اورنبی کریمe کے دروازہ پرکھڑا ہو گیا اور دروازہ کی طرف نگاہ کرتے ہوئے اندرآنے کی اجازت چاہی توآپ e نے اس سے فرمایاکہ اس طرح کھڑے ہو اکرو یعنی آپeنے اسے وہاں سے ہٹایااورحکم دیا کہ دروازہ کے سامنے سے ہٹ کر کھڑے ہو، پھر آپe نے فرمایا اجازت تواسی لیے لی جاتی ہے تاکہ نگاہ کی حفاظت ہو۔
امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں حضرت ثوبان سے روایت کی ہے کہ رسول e نے فرمایا:
’’ لا یحل لامری ان ینظر الی جوف بیت حتی یستاذن فافعل فقد دخل
‘ ‘
ترجمہ: کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں کہ بغیراجازت کسی کے گھر کے اندر دیکھے پس اگر اس نے ایساکیا توگویا وہ گھر میں داخل ہو گیایعنی اجازت لینے سے پہلے اگر اس نے گھر کے اندر دیکھ لیا تو ایسا ہی ہے جیسے وہ بغیر اجازت اندر داخل ہو گا یا اور یہ اس کے لیے حرام فعل ہے۔
نیز امام بخاری، امام ابودائود اور امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’اذا دخل البصر فلا اذان لہ
‘ ‘
ترجمہ: جب نگاہ اندرپڑ گئی تو اجازت نہیں ہے۔
امام بخاری نے حضرت عماربن سعید سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا:
’’من ملاعینہ من قاعۃ یبت ای ساحتہ وداخلہ قبل ان یوذن لہ فقد فسق
‘ ‘
یعنی جس شخص نے اجازت ملنے سے پہلے گھر میں خوب جی بھر کے دیکھ لیا تو وہ فاسق ہو گیا۔
نیزامام بخاری اورمسلم وغیرہ ائمہ حدیث نے حضرت سہل بن سعد سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمe کے حجرہ مبارک کے دروازے کے سوراخ سے جھانک رہا تھا اور رسول اللہ e کے ہاتھ میں کھجلانے کی لکڑی تھی جس سے آپ اپناسر مبارک کھجلا تے رہتے تھے جب رسول اللہe نے اسے جھانکتے ہوئے دیکھاتوفرمایا:اگرمجھے معلوم ہوتاکہ تم اندر جھانک رہے ہو تومیں اس لکڑی سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا،اجازت لینے کاحکم اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ نگاہ اندرنہ پڑے۔
ادب9:
جب آپ اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائیں یا اپنے ہی گھر میں داخل ہوں توآپ گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت نہایت مہذب انداز اختیار کریں اپنی نگاہ نیچی رکھیں اپنی آواز پست رکھیں اپنے جوتے اپنی جگہ پراتاریں اورجوتے اتار کر ترتیب سے رکھیں اور ان کو ادھر ادھر مت ڈالیں۔ نیز جوتے پہننے اوراتارنے کے آداب کو نہ بھولیں پہنتے وقت داہناجوتا دائیں پائوں میں پہنیں اور اتارتے وقت بائیں جوتے کو پہلے اتاریں۔ چنانچہ رسول اللہe کاارشادہے:
’’اذا انتعل احدکم فلیبدا بالیمنیٰ واذا نزع فلیبدا بالشمال لتکن الیمنی اولھما تنعل وآخر ھما تنزع‘‘
[رواہ مسلم]
یعنی جب تم میں سے کوئی جوتاپہنے تو دائیں سے شروع کرے اور جب جوتا اتارے تو بائیں سے شروع کرے دائیں جوتے کو پہلے پہنا جائے اور آخر میں اتارا جائے نیز اپنے مسلمان بھائی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے کو اچھی طرح دیکھ، اگرجوتے کے ساتھ راستے میں کوئی چیز لگ گئی ہے تواسے اس سے دور کر دو، اور جوتوں کوزمین پر رگڑ دو تاکہ ان کے ساتھ جو چیز لگی ہو وہ دور ہو جائے کیونکہ اسلام پاکیزگی اورتہذیب کادین ہے۔
اس ماہ کا سبق: