زبان کی حفاظت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
زبان کی حفاظت
مولاناعاشق الہی بلند شہری
مسلمان آدمی کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے آدمی کے جسم میں زبان دیکھنے میں گو ذرا سی چیزہے مگر بڑی بڑی لڑائیاں کرا دیتی ہے اور دلوں میں پھوٹ ڈالوا دیتی ہے انسان سے جوگناہ ہوتے ہیں اکثر یا تو زبان سے ہوتے ہیں یاان میں زبان کادخل ضرور ہوتاہے دنیا و آخرت کی کامیابی کی اوربہت سی مصیبتوں سے چھٹکارے کی سب سے اچھی اورعمدہ ترکیب یہ ہے کہ زبان اپنے قابومیں رکھی جائے حضرت رسول مقبولe نے یہ بھی فرمایا:
‘ ’ منہ کے بل اوندھے کر کے جو چیز لوگوں کودوزخ میں گرائے گی وہ ان کی باتیں ہی ہوں گی۔‘‘
زبان سے بڑے بڑے گناہ ہوتے ہیں: کفر کے کلمے زبان سے ہی نکلتے ہیں، غیبت زبان ہی سے ہوتی ہے، بہتان۔ لعن طعن، گالیاں، جھوٹ، چغلی اورطرح طرح کے گناہ ہوتے ہیں اپنی زبان کوہروقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رکھو اور دنیا کی ضروری بات جس میں گناہ نہ ہو کر لو اورجتنی ضرورت ہو اسی قدر بولو عورتوں میں عادت ہوتی ہے کہ بات میں بات لگائے جاتی ہیں اور تیری میری برائی میں گھنٹوں مجلس گرم رکھ کر اپنی عاقبت خراب کرتی ہیں، کسی کو کوستی ہیں اور کسی پر لعنت اورپھٹکاربھیجتی ہیں۔ بڑائی جتاتی ہیں اوردوسری عورتوں کی حقارت ظاہرکرتی ہیں یاد رکھو!کہ سب چیزیں آخرت میں ڈبونے والی ہیں ان سے بچو!
جھوٹ کاوبال: فرمایارسول اللہe نے کہ جب بندہ جھوٹ بولتاہے توفرشتہ اس کی بات کی بدبوسے ایک میل دورچلاجاتاہے۔
چغلی: فرمایاحضرت رسول کریمe نے کہ جنت میں چغل خورداخل نہ ہوگا۔
گانا: فرمایاحضرت رسول کریمe نے کہ گانادل میں نفاق کواُگاتاہے جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے نفاق اس کوکہتے ہیں کہ آدمی کے دل میں کفر ہو اور ظاہر میں مسلمان بنے گانے مت سنو، نہ گانے کے شعریاد کرو، بہت سی لڑکیاں سینما میں جاتی ہیں، حیا شرم بھی کھوتی ہیں اور گانا بجانا بھی جان جاتی ہیں اورپھربیٹھے بیٹھے شعر گایاکرتی ہیں، یہ سخت گناہ ہے مسلمانوں کے کرنے کا کام نہیں دیکھو !حضرت رسول مقبولe نے اس کومنافقت کاسبب بتایاہے۔
غیبت کاگناہ: فرمایاحضرت رسول مقبولe نے غیبت کاوبال زناکاری سے بھی زیادہ سخت ہے۔
صحابیوں نے پوچھاکہ یارسول اللہe! غیبت کابول زناکاری سے بھی زیادہ سخت کیسے ہے؟ فرمایا:اس وجہ سے کہ بلاشبہ آدمی زناکاری کرتاہے اور توبہ کر لیتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ غیبت والے کاگناہ نہ بخشاجائے گاجب تک وہی معاف نہ کرے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔
غیبت اس کوکہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جاوے جواسے بری لگے اس کابڑاگناہ ہے جس جس کی غیبت کی ہواس سے معافی مانگ لو،ورنہ قیامت میں اس کواپنی نیکیاں دینی پڑیں گی اور اس کے گناہ اپنے اوپر لادنے ہوں گے اوراگر اس مرد یا عورت کی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے جس کی تم نے غیبت کی یا دنیا میں اب نہیں ہے تواس کے لیے مغفرت کی دعا اتنی کرو کہ تمہار ادل گواہی دے دے کہ ہاں اس کی غیبت کابدلہ میں نے ادا کر دیا۔
بہت سے لوگ غیبت کرتے ہیں اورجب کوئی منع کرتاہے توکہتے ہیں کہ ہم جھوٹ تو نہیں کہتے جوبرائی فلاں مرد یا عورت میں ہے اسی کا تو بیان کیاہے یہی سوال ایک صحابی نے حضرت رسول کریمe کے سامنے رکھا۔آپe نے فرمایا:’’اگر تو نے وہ عیب یابرائی بیان کی جو تیرے بھائی میں ہے تواس صورت میں تونے اس کی غیبت کی اور اگر تونے اس کے بارے میں وہ بات کہی جو اس میں نہیں ہے تواس صورت میں تونے اس پربہتان باندھا۔‘‘
الغرض جہاں تک ہوسکے اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں زبان کو لگائے رکھودنیا کی کوئی ضروری بات ہوئی کرلی کسی کونصیحت کر دی اسی میں مشغول رہوجہاں تک ہوسکے ایسی بات بھی نہ کرو جس میں نہ گناہ ہونہ ثواب۔ کیونکہ اس میں بھی اپنی آخرت کانقصان ہے جس وقت ایسی بات کہی جس سے نہ گناہ ہونہ ثواب ہو۔ اس وقت اللہ کا ذکر کیا جاتا یادرود شریف کے مبارک الفاظ یا کوئی دوسر ا کلمہ خیر نکل جاتا تو بڑا ثواب ملتا لایعنی اورفضول باتوں اوربیکار کاموں سے دور رہو، حضرت رسول مقبول e نے فرمایا:’’ انسان کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ بیکار کاموں کو چھوڑ دے۔‘‘ حدیث شریف میں آیاہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی تودوسرے صحابی نے کہاکہ تجھے جنت کی خوشخبری ہے اس پر حضرت رسول مقبولe نے فرمایاکہ تم خوشخبری دے رہے ہو اور حالانکہ تم کو پتہ نہیں کہ شاید اس نے لایعنی بات کہی ہو یا ایسی چیز کے خرچ سے کنجوسی کی ہو جو خرچ سے گھٹتی نہیں (جیسے علم، آگ، نمک وغیرہ)حضرت رسول مقبولeنے یہ بھی فرمایا:’’ آدمی اپنے پیر سے اتنانہیں پھسلتا جتنااپنی زبان سے لغزش کھا جاتاہے۔’ ‘اور یہ بھی ارشاد فرمایا:’’ بلاشبہ بندہ کبھی ایسا کلمہ اللہ کی ناراضگی کا کہہ دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے دوزخ میں اس سے بھی زیادہ گہرا گرتا چلا جاتا ہے جتنا پورب اورپچھم کے درمیانی فاصلہ ہے حالانکہ اس کواپنی بات کی طرف دھیان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (کہ میں نے کیاکہہ دیاہے]
حضرت لقمان حکیم سے کسی نے دریافت کیاکہ آپ کوحکمت کایہ مرتبہ کیسے نصیب ہوا؟ انہوں نے جواب دیاکہ میں سچ بولتا ہوں، امانت ادا کرتا ہوں اور لا یعنی سے بچتاہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی زبان کی حفاظت کی اور لایعنی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین