ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نویں قسط
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
بابرکی رسم تاجپوشی بخیرخوبی انجام پذیرہوئی۔ بابرکے بہی خواہ اور وفا دار تو شاداں و فرحاں دکھائی دے رہے تھے مگر غداروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اگرچہ بظاہر وہ لوگ بھی اپنی خوشی کے اظہارکا ناٹک کر رہے تھے مگر ان کے دلوں کی خباثت ان کے چہروں سے ضرور مترشح تھی۔
رسم تاجپوشی کی ادائیگی کے بعد نانی اماں (دولت بیگم)نے بابر کو زنان خانے میں بلاوا بھیجا۔ نانی اماں کابلاوا حلقے ہی بابر بلا تامل ان کے حضورحاضر ہوا تو انہوں نے اپنے نواسے کی بلائیں لیتے ہوئے بظاہرخفگی سے پوچھاکہ:
’’یہ کیسی دیوانگی ہے کہ تیرے باپ کی لاش ٹکڑوں کی شکل میں ایک گھٹڑی میں بندھی ہوئی آتشی کے محل میں رکھی ہے اورتوآوارہ گردوں کی طرح اِدھراُدھر بھاگاپھر رہا ہے کون سی ایسی آفت آن پڑی تھی کہ تو اپنامنہ چھپائے پہاڑوں کی گھپوں میں چھپتا پھر رہا ہے۔
بابرنے نانی اماں کواپنی روپوشی کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ’’ میں نے اپنے وفا دار صلاح کار سلاخ کے مشورے پر روپوشی اختیار کی تھی کیونکہ اسے معلوم ہوا تھاکہ سمر قند کی طرف کے میراچچا سلطان احمدمرزا اور مغلستان کی سمت سے میرا ماموں خاقان اعظم فرغانہ کی تسخیر کے لیے بڑھتاچلاآرہا تھا اس پر مستزاد یہ کہ وادئی فرغانہ کی اچانک موت کی وجہ سے ابن الوقت امراء غداری کے مرتکب ہو سکتے تھے اور اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے بے دست کر کے دشمنوں کے حوالے کرنے سے دریغ نہیں کر سکتے تھے اسی جذبے کی بنا پرسلاخ نے مجھے کچھ دنوں کے لیے روپوش کرنے ہی میری سلامتی سمجھی۔ وہ چاہتاتھاکہ جب تک حالات ساز گار نہیں ہو جاتے مجھے پس منظر ہی میں رہناچاہیے۔ اس لیے اس نے شیرم طغائی کے ذریعے مجھے اندرجان سے دور ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا اور پھر خواجہ قاضی کے بلاوے پر مجھے بحفاظت اندر جان لے آیا اور میری رسم تاجپوشی ادا کروائی اب آپ ہی مجھے مشورہ دیجئے کہ اندریں حالات ہیں کیا تدبیر اختیارکروں وادی ٔ فرغانہ کی طرف بڑھتے ہوئے دوطاقتور دشمنوں کے قدم کیسے روکوں مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ میرے غدار امراء میرے دشمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مجھے گرفتارکر کے ان کے آگے ڈال دیں گے۔‘‘ نانی اماں نے بابرکاحوصلہ بندھاتے ہوئے کہا۔
جان من !دل چھوٹامت کرو اپنی ہمت مجتمع رکھو! دشمنوں سے خوفزدہ ہو کرہاتھ پائوں چھوڑ دینے سے خطرہ ٹل تو نہیں جائے گا۔ہمتِ مرداں، مددخداکے مصداق خاطر جمع رکھو اور دشمنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھرپور تیاری کرو۔اندریں حالات غدار امراء کسی طورپرغداری کی جرأت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں بیک وقت سلطان احمد مرزا اورخاقان اعظم کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا جو اس وقت ممکن نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان اتنی دوری ہے کہ غداروں کاان دونوں سے بیک وقت رابطہ قائم کرنادشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی غداروں کے ارتکاب سے معذورہیں۔ بہرحال ایسے لوگوں پرنظر رکھنا ضروری ہے اپنے وفا داروں سے کہوکہ وہ ان لوگوں پر نظر رکھیں اوران کی معاندانہ کاروائیوں سے تجھے بر وقت آگاہ کرتے رہیں اب سب سے پہلاکام تجھے جوکہ کرناہے وہ یہ ہے کہ اپنے والدکے جسد خاکی کی بلاتاخیر تدفین کرو
نانی اماں کی باتوں نے بابرکے دل کوتسلی حاصل ہوئی اوروہ نانی اماں سے رخصت لے کر سلاخ کے ہاں پہنچااور اسے نانی اماں سے ملاقات کی ساری روداد کہہ سنائی۔ سلاخ نہایت ہی زیر ک شخص تھا۔ اس نے بھانپ لیاکہ نو عمر شہزادہ نانی اماں کی باتوں سے کافی حوصلہ مند دکھائی دے رہا تھا۔اس نے اس کے حوصلے کو مہمیز پر لگاتے ہوئے کہا:
’’آپ بخوبی جاتے ہیں کہ سلطان احمد مرزا اور خاقان اعظم مرحوم عمرشیخ مرزا کی کار پردازیوں سے کافی پریشان تھے اور وہ دونوں بیک وقت فرغانہ پر حملہ آور ہو کر آئے دن کی آویزش کا کام کرناچاہتے تھے مگروقت اپنی چال چل گیا۔وہ شخص جو دشمنوں کو کانٹا سا چبھتا تھا خود بخود نکل گیا تھا اب وادیٔ فرغانہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ان کے دامن میں گرا ہی چاہتا تھا مگر یہ حریص شخص اس پھل کو تنہا ہی کھانا پسند کریں گے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ اسے بانٹ کر کھائیں بنا بریں اس پکے ہوئے پھل کو حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک دوسرے سے لڑنا ہوگا جو بھاری پڑے گا وہ اس کاحقدارگرداناجائے گاجب تک وہ ایک دوسرے کی طاقت کو آزمائیں ہمیں موقع میسر آجائے گاکہ ہم اس کی حکومتوں سے دوستی کے معاہدے کر کے ان کی حمایت حاصل کریں اگرہمیں کسی طاقتور حریف کی رفاقت میسر آگئی تو پھر ہماری طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا اگربالفرض کسی نے ہم سے پنگالینے کی حماقت کی توپھر اسے منہ کی کھانا پڑے گی‘‘
سلاخ کی پر مغز باتوں نے بابرکے حوصلے اور بھی بڑھا دیے بعد ازاں بابر نے اپنے مشوروں میں خواجہ قاضی بھورے بالوں والے قاسم اورحسن یعقوب کوبھی شامل کرلیا۔نانی اماں نے خواجہ قاضی کواپنے پاس بلایا اوراسے مشورہ دیاکہ:
’’میرے پاس ایک تجویز ہے اگراس پر عمل کیاجائے تومجھے یقین ہے کہ ہم سلطان احمد مرزا اور خاقان اعظم کی بیک وقت یلغار سے بطریق احسن عہدہ براء ہوسکتے ہیں وہ اس طرح کہ آپ سلطان احمد مرزا کی طرف اپنے قابل اعتماد آدمیوں کا ایک وفد اس پیغام کے ساتھ بھیجیں کہ آپ کی بیٹی عائشہ پانچ سال کی عمر سے بابر سے منسوب ہوچکی ہے بنابریں بابر آپ کا داماد ٹھہرا اس لیے آپ کی بیٹی کامستقبل بابرکے مستقبل سے وابستہ ہے اور بابر کامستقبل فرغانہ کی حاکمیت سے اب آپ کے اختیار میں ہے کہ اگر آپ چاہیں تو فرغانہ کی حاکمیت بابرکے پاس رہنے دیں یا اس سے چھین لیں کیونکہ وہ یتیم بچہ آپ سے تاب مقا ومت نہیں رکھتا۔ بالفاظ دیگر دولت فرغانہ اپنی بیٹی کوجہیز میں بخش دیجئے۔ بفرض محال اگرآپ فرغانہ کوفتح کرنے پر مصر ہیں تو سمجھ لیجئے کہ فرغانہ آپ کا ہوا۔ مگر اس کے انتظام وانصرام کے لیے آپ کوکسی نہ کسی من پسند نمائندے کا بہر طور تقرر تو ضرور کرنا ہو گا۔ اگر اپنے نمائندے کے طورپر بابرکا انتخاب کریں گے تو شاید آپ کواس میں کوئی تردد نہیں ہوگا۔ بہرصورت دونوں صورتوں میں فرغانہ کی حاکمیت اعلیٰ آپ کے پاس رہے گی اور بابر کے ایک نمائندے کی حیثیت سے فرغانہ پر حاکم رہے گا اور اگر خدانخواستہ فرغانہ پرخاقان اعظم کا تسلط قائم ہو جاتا ہے۔ توپھر فرغانہ نہ توآپ کا رہے گااورنہ ہی آپ کے داماد کا۔ شاید یہ بات آپ کبھی قبول نہیں کریں گے ا س سے پہلے کہ پانی سرسے گزر جائے۔آپ کوکسی نہ کسی فیصلے تک ضرور پہنچنا ہو گا۔
خواجہ قاضی نے دولت بیگم کی گفتگو پوری توجہ سے سنی مگرا س کے دل میں ایک بات پھانس کی طرح چبھ رہی تھی جس کا اظہار وہ دولت بیگم سے کرناچاہتا تھاتھوڑے سے توقف کے بعد خواجہ قاضی دولت بیگم سے کچھ اس طرح ہم کلام ہوا:
’’آپ کی رائے اگرچہ صائب ہے مگر سلطان احمد مرزا کی فطرت کے متعلق آپ بھی پوری طرح آگاہ ہیں اورمیں بھی۔ وہ فطرتاایک ایسا شخص ہے جوکبھی کسی رشتے کاپاس نہیں رکھتا وہ اپنی دیرینہ خواہش کے پیش نظر فرغانہ پر ضرور حملہ آور ہو گا فرغانہ کا بہر طور تحفظ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے سلطان احمد مرزا سے خیر کی توقع رکھناخود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہوگا۔‘‘
دولت بیگم نے خواجہ قاضی کی بات کاٹے ہوئے کہا:
’’میں سلطان احمد مرزا کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں کیونکہ وہ میرا داماد ہے اس کے ذہن میں ہروقت خناس سمایارہتاہے میں جانتی ہوں کہ وہ فرغانہ پراپنے دندان آز تیز کئے بیٹھا ہے وہ حملہ آورہوئے بغیر نچلانہیں بیٹھے گا۔ ایک مرتبہ قبل بھی جب وہ فرغانہ پر حملہ آور ہوا تھا تو مرحوم عمر شیخ مرزا نے اسے دربارکے دوسرے کنارے پر روک دیا تھا۔ ہمیں بھی اس مرتبہ اس کی یلغار کو روکنے کے لیے اپنی فوجوں کو دریا کی نگرانی پر تعینات کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں ہمیں خاقان اعظم کے متوقع حملے سے بھی غافل نہیں رہناچاہیے۔‘‘
دولت بیگم کی تجویز پر خواجہ قاضی نے اپنے چند معتمد خاص آدمیوں کے ذریعے سلطان احمد مرزا کی طرف متذکرہ بالاپیغام بھجوادیا اور بعد ازاں مرحوم عمرشیخ مرزا کی تدفین کے لیے بابر کے ہمراہ آخشی پہنچ گیا۔ آخشی میں موجود امراء نے اپنے مرحوم آقا کے اعضائے جسمانی پہلے ہی جمع کر رکھے تھے جونہی گھٹڑی کھولی گئی تو وہاں بابرسمیت موجودتمام لوگوں کی یہ نا قابل نظارہ منظر دیکھ کر سسکیاں نکل گئیں سلطان اورشیرم طغائی نے بابرکوتسلی دیتے ہوئے کہاکہ:
’’آپ بادشاہ ہیں اوربادشاہوں کے حوصلے غیرمعمولی ہوتے ہیں آپ کوحوصلے سے کام لینا ہو گا۔ اگرآپ نے دل چھوڑدیاتوپھرفرغانہ اور اہل فرغانہ کا کیا ہو گا۔‘‘
تھوڑے ہی وقت میں مرحوم عمرشیخ مرزا کی تدفین عمل میں لائی گی اسے آخشی کے قلعے کے ایک کونے میں دفن کردیاگیا اب بابرکی زندگی کا ایک نیادور شروع ہوچکا تھا جب میں اس کے لیے سکون وقراراور امن وآشتی کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتاتھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پتھر کاایک ایساٹکڑاہوجسے سمندرکی سرکش و بے قرار لہریں کبھی ساحل پر پٹخ دیتی ہوں اور کبھی اسے اپنے دامن میں سمیٹ کر سمندر کی گہرائیوں میں اتار دیتی ہوں۔
کچھ دیربعد بابر،سلاخ، شیرم طغائی، خواجہ قاضی اوردیگر امراء کی معیت میں اندر جان کی طرف اڑا چلا جا رہا تھا۔