محبت مصطفی …یا …خواہش پرستی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محبت مصطفی …یا …خواہش پرستی؟
مولانامحمد خبیب احمد گھمن
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو کروڑہا نعمتوں سے نوازا کر فرمایاوان تعدوانعمۃ اللہ لا تحصوھا اگر تم اللہ تعالی کی نعمتوں کا شمار کرنا بھی چاہو تو تم شمار نہیں کرسکتے۔ لیکن ان تمام نعمتوں کو عطا فرمانے کے بعد کہیں بھی اللہ تعالی نے احسان نہیں جتلایا سوائے ایک نعمت کے۔ جہاں اللہ تعالی نے بطور انعام و احسان کے فرمایا:لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسہم۔ اللہ تعالی نے جو انعامات کی رجم جھم بارش برسائی ہے ان میں سب سے بڑاانعام ایمان ہے اور ایمان ہمیں ملاہے احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اور ان کے وسیلے سے بلکہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو ہرنعمت ملی ہے زندگی کے بعد اور زندگی موقوف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودمسعود پر۔اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر مقصود کائنات کو وجود مبارک عطانہ کیا جاتاتو یہ ہر چیز بے رنگ ہوتی ؛ ملائکہ کی عظمت، انسانیت کو شعور، افلاک کو بلندی، زمین کو وسعت، پہاڑوں کو تصلب، دریائوں کو روانی، موجوں کو طوفانی، پرند وں کو چہک، پھولوں کو مہک، مرغزاروں میں کھل کھلاتا ہواحسن۔ الغرض عالم رنگ وبو کی ہر شے آپ کے صدقے سے ملی۔
حصول نعمت کے بعدمرحلہ آتا ہے شکر کی ادائیگی کا۔شکر کی ادائیگی بھی حکم خداوندی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا واشکروا لی ولا تکفرونمیری نعمت کاشکر ادا کرو اور نا شکری نہ کرو۔
لیکن………
نعمت کاشکرادا کیسے کیا جائے؟؟
اس میں پھر دوطریقے رائج ہیں ایک ہے اتباع سنت والا اور ایک ہے خواہش والا لیکن جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے وہ اتباع سنت والا طریقہ ہے یعنی اپنے عمل سے اپنے کردار سے اس نعمت بے بہا کا شکر ادا کیا جائے اور انسان ساری زندگی اس پیغمر کی ارشاد فرمودہ تعلیمات کے مطابق بسر کرے اس طرح نعمت کا شکر ادا کیا جانا چاہیے
لیکن بد قسمتی ……
یہ ہے کہ آج اتباع سنت والے طریقے سے منہ موڑا جارہا ہے اور خواہش پرستی کے منہ زور ریلے میں مسلم قوم بہتی چلی جا رہی ہے اور بہت کم ایسے افراد ہیں جو اصل طریقہ شکر کی طرف توجہ کرتے ہوں۔
ماہ ربیع الاول یقیناخوشی کا مہینہ ہے اور ہر مسلمان کا دل اس ماہ میں شاد شاد ہوتا ہے لیکن اس میں چند ایسے کام بھی رواج پارہے ہیں جن کو ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے حالانکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے وہ امور بدعت کے زمرے میں آتے ہیں جن سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے ہاں اس ماہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کی جائے ان کے اسوہ کے مطابق اپنی عملی زندگی گزاری جائے تو اس کا کون منکر ہوسکتا ہے لیکن خوشی کی آڑ میں شریعت کی حدود کو کراس کرنا اور اولیاء اللہ کے تقدس کو پامال کرنا اورجلوس نکال کر جھنڈیاں لہرانا وغیرہ آپ ہی بتائیے کون سی انصاف کی بات ہے؟؟؟
اس ضمن میں جناب غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:
’’ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا۔جلوس راستوں سے گزرتاہے اور مکانوں کی کھڑکیوں او ربالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکائے جلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں۔ اوباش نوجوان فحش حرکتیں کرتے ہیں جلوس میں مختلف گاڑیوں پرفلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دھنوں پر ناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتارہتاہے اس قسم کے جلوس چلتا رہتا ہے اس قسم کے جلوس؛ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس پر بدنما داغ ہیں ان کی اگر اصلاح نہ ہوسکے توفوراًبند کر دینا چاہیے کیونکہ امرمستحسن کے نام پر ان محرمات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ ‘‘
[شرح صحیح مسلم ؛ غلام رسول سعیدی بریلوی ج3ص170]
جوحضرت میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جلوس نکالتے ہیں اللہ کوحاضر وناظر جان کربتائیں کہ اس طرح صحابہ کرام کے دورمیں جلوس نکالے جاتے تھے، میلاد کے نام پر پہاڑیاں بنائی جاتی تھیں، چندہ کیا جاتاتھا،سواریوں کو سجاکربازاروں میں جمع ہوتے تھے؟؟؟ نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر کیوں اس کو عبادت سمجھ کر ساری توانائیاں اس پر خرچ کی جارہی ہیں !!! مقام فکر ہے آج سنت پر عمل کرنے وقت ہے اور اس طرح کے میلوں ٹھیلوں میں آکر جس کا ذکر مولانا غلام رسول سعیدی صاحب نے ذکر فرمایا ہے؛ اپنی متاع عزیز کانقصان کرناہے جو کسی بھی ہوش مند انسان کا کام نہیں۔ لہذا اس طرح کی مجالس میں شریک ہونے سے بہتر ہے کہ آدمی نوافل میں مصروف ہوجائے درود شریف اور دیگر تسبیحات کا ورد کرتا رہے۔
پہاڑیوں کا آنکھوں دیکھاحال:۔
راقم کو ایک شہر میں مغرب کے بعد جانے کا اتفاق ہوا؛یہاں آکر دیکھا تو عجیب منظر ہے گلی کوچوں میں بجریوں کے ڈھیر اوران پر رنگ بورا،کھجور کے درخت، سڑکیں، خیالی اور مصنوعی بیت اللہ اورمسجد نبوی کے ماڈل، پانی کے ابلتے ہوئے چشمے۔۔۔ خلاصہ یہ کہ مکہ مکرمہ کے مصنوعی نقشے تیار کر کے منظر کشی کی گئی ہے بڑے بڑے ڈیک اور گانے اور موسیقی کی سرتال اور اس پر ڈانس اور ناچنا ڈھول ڈھمکے پھر چند منچلے بھنگڑاڈال کر (نعوذاباللہ )آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی منائی جارہی ہے۔ کیا یہی وہ اسلام ہے جو آج سے چودہ صدیاں قبل پیغمبر اسلام نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر، بدر واحد کے معرکے لڑ کے اپنا خاندان کا لہو دے کر صحابہ کی جانیں قربان کراکر ہمیں دیا تھا۔ کیا ہم غلط رستے کے راہی تو نہیں بن گئے؟
آخر میں صرف چند ایک سوالات کے جواب چاہتا ہوں نہایت تحمل اور بردباری سے اگر کوئی بھائی ان کا ثبوت قرآن وسنت سے پیش کردے تو میں ان کا ممنون رہوں گا یہ تعصب اور ضد والی بات نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو نیچا دکھا نے کی کوشش ہے۔
1: پوری دنیامیں کس صحابی کاعرس منایاجاتاہے؟
2: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بہترین قوّال کا نام کیا ہے؟
3: صحابہ کس مزا رپر جاکر دیے جلاتے تھے؟
4: کس صحابی نے اپنے گھرمیں میلاد کروایاتھا؟
5: کس صحابی نے اس جلوس پر مٹھائی بانٹی تھی اورکتنی؟
6: صحابہ اوراہل بیت بارہ ربیع الاول کوکس رنگ کاجھنڈا لہراتے تھے؟
7: کس صحابی نے بارہ ربیع الاول کوجلوس کی قیادت کی تھی؟
8: کس مقام پر چھوٹے چھوٹے جلوس جمع ہوتے تھے؟
9: گھوڑے اوراونٹ سجانے والوں کو کسی صحابی یااہل بیت کے ہاتھوں کیاانعام ملاتھا؟
10: صحابہ واہل بیت کون سے رنگ کی پگڑیاں اورچاردریں لے کرجمع ہوئے تھے؟
11: آج کے مروجہ طریقوں کے مطابق جلوس نہ نکالنے والوں پر اور تیسری عید نہ منانے
والوں پرگستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافتویٰ کس صحابی نے لگایا تھا؟