دارالعلوم دیوبند نے کیادیا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دارالعلوم دیوبند نے کیادیا؟
محمد اکبر شاہ بخاری،جامع عثمانیہ، جام پور
دارالعلوم دیوبند کی بنیاد جس رحمت بھرے ہاتھوں نے رکھی ان کی روحانی عظمت کا خود یہ شاہکارواضح نشان ہے ان کے خلوص نے بارگاہ بے نیاز میں جورنگ قبول پایااسی کے نتیجے میں آج یہ اسلامی یونیورسٹی نہ صرف ہندوپاکستان میں مشہور ہے بلکہ اس کے فیض کے چشمے تمام دنیائے اسلام میں بہہ نکلے ہیں۔ یوں توآپ کومصر میں جامعہ ازہر جیسامرکز علم دیکھنے میں آ سکتا ہے جس کواسلامی سلطنت کی سرپرستی ہمیشہ سے حاصل رہی لیکن روحانیت اورعلمیت کابہترین امتزاج جوآپ کوسرزمین دیوبند کے اس دارالعلوم میں ملے گا وہ دنیا کے کسی علمی ادارے میں ڈھونڈنے سے بھی آپ نہ پاسکیں گے۔
دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ایسے رحمت بھرے ہاتھوں نے ڈالی جس کو قدرت نے رنگ قبول بخش کربقائے دوام کاتاج اس کے سرپررکھااورجس طرح یہ سدابہار پھول عہد فرنگ میں کھلا تھا اسی طرح عہد برہمن میں بھی تروتازہ اورشاداب ہے وہ رحمت بھرے ہاتھ حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی۔
شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ اور دیگر اولیائے کرام کی دعائوں کانتیجہ تھا اور قطب الارشاد امام ربانی مولانارشید احمدگنگوہی کی سرپرستی کاپھل تھا جوحضرت نانوتوی قدس سرہ کے بعد عمل میں آئی،نیز حضرت مولاناشاہ رفیع الدین صاحب جیسے ولی کامل مہتمم اورحضرت مولانامحمدیعقوب صاحب نانوتوی جیسے متقی اولیں شیخ الحدیث اورشیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اورحکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی جیسے بزرگوں کی برکتوں کاثمرہ ہے۔
یوں تو دارالعلوم دیوبند نے ہزاروں عالم پیدا کئے لیکن اگر وہ صرف ایک ہی یگانہ روز گار امام العصر علامہ محمد انورشاہ کشمیریؒ جیسا عظیم الشان عالم پیداکرکے مستقبل کے لیے بند ہو جاتا تو پھر بھی لاکھوں ستاروں سے زیادہ منورشمس علامہ انورکافی تھا، لیکن آگے دیکھئے کہ دارالعلوم نے مفتی اعظم ہندمولانامفتی عزیزالرحمن عثمانی جیسے فقیہ النفس،حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی جیسے مجدداعظم، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے مفسرومتکلم،مولاناحبیب الرحمن عثمانی جیسے ادیب ومفکر، مولاناسید حسین احمد مدنی جیسے عالم ومحدث، مفتی کفایت اللہ صاحب جیسے ثانی شامی، مولاناسید میاں اصغر حسین دیوبندی جیسے ولی کامل، مولاناعبیدا للہ سندھی جیسے دیدہ ور مبصر، مولانا اعزاز علی صاحب جیسے ادیب، مولانامرتضی حسن جیسے مناظر،مولاناظفر احمد عثمانی جیسے فقیہ ومحدث مولانامحمدابراہیم بلیاوی جیسے فلسفی،مولانارسول خاں ہزاروی جیسے منطقی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع جیسے فقیہ ومفسر،مولانامحمد ادریس کاندھلوی جیسے محدث ومفسر،مولاناسیدبدرعالم میرٹھی مہاجر مدنی جیسے محدث عالم، مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے مورخ،مولاناخیر محمد جالندھری جیسے عارف،مولانامفتی محمد حسن امرتسری جیسے مخدوم وعارف، اور علامہ شمس الحق افغانی اور مولانا قاری محمدطیب قاسمی جیسے فاضل ومتکلم پیداکیے۔
کوئی بتائے کہ آسمان دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کوئی اورایسا آسمان ہے جس پران جیسے آفتاب وماہتاب چمکتے ہوں اورسرزمین دارالعلوم سے بڑھ کراورکوئی سرزمین ایسی ہے جہاں ایسے سدابہارپھول کھلے ہوں، بلاشبہ آج دنیائے اسلام میں ان ہی حضرات کی دھوم ہے اوران ہی کا چرچاہے ان میں ہرشخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتاہے۔
دارالعلوم نے مسلمانوں کوکیادیا؟اوراس کی شہرت کوچارچاند کیسے لگے؟ اس کاجواب صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو علم،عمل،اخلاص ادب اور سیاست سے مالامال کیا اورہرہرپہلو اور ہر ہر کروٹ پر ان کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کیا، اب اہل انصاف خود فیصلہ فرمائیں کہ جس دار العلوم نے ہر ہر قدم پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کو علم وعمل، اخلاص اور ادب و سیاست سے آراستہ کیا، اس سے بڑھ کردارالعلوم دیوبند کااورکیاشاہکارہوسکتاہے، حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ شریعت کے تین جز ہیں: علم، عمل اوراخلاص جب تک یہ تین جز موجود نہ ہوں، شریعت کا وجود نہیں ہوتا اور جب ان تینوں کے وجود سے شریعت وجود میں آگئی توخدائے پاک وبلند کی رضا حاصل ہوگئی جو تمام دنیوی ودینی بختیوں سے بھی زیادہ اوراللہ تعالیٰ کی خوشنودی سب سے زیادہ نعمت ہے۔ دارالعلوم نے بقول حضرت مجدد الف ثانی علم، عمل اوراخلاص سے مزین علماء پیدا کیے جودنیاومافیہا سے بڑھ کرہے اوراسی لیے اکبرالہ آبادی مرحوم نے دیوبند کو دل روشن کہہ کر پکارا ہے۔
دارالعلوم نے علم کیوں کردیا؟اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اس گہوارہ علم سے بہترین اہل وہنر پیداہوئے اورعلم کے زیورسے آراستہ ہوکردنیائے اسلام کے کونے کونے میں پہنچے اورجہاں جہاں پہنچے، انہوں نے اپنے علم کے چراغ سے اورہزاروں چراغ روشن کئے اورلاکھوں ارباب علم پیداکئے اوریوں یہ سلسلہ بڑھتاگیا۔ آج دارالعلوم کی ہزاروں شاخیں مظاہرالعلوم سہارنپور، مدرسہ عربیہ قاسمیہ مراد آباد، امروہی، میرٹھ، گلائوٹھی، رڑکی، مظفر نگر، تھانہ بھون، دہلی، مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، افغانستان، برما، انڈونیشیا، فلپائن، ڈابھیل اورپاکستان میں دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار، جامعہ خیرالمدارس ملتان، جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی، جامعہ رشیدیہ ساہیوال، جامعہ مدنیہ لاہور، اشرف المدارس کراچی،دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، غرض یہ کہ جہاں جہاں فضلائے دیوبند پہنچے وہاں وہاں انہوں نے مدارس دینیہ قائم کر ڈالے، اس طرح انہوں نے علوم وفنون کے ہرجگہ دریابہائے، پھر جامع مسجدوں میں خطابت کے ذریعہ علم وتبلیغ کے چشمے جاری کئے، پنڈالوں اورجلسوں میں اپنے وعظوں سے لوگوں میں علوم دینیہ پھیلائے، سرکاری یونیورسٹیوں، کالجوں اوراسکولوں میں ہر جگہ آپ الحمدللہ دارالعلوم کے فاضل پائیں گے جواپنی اپنی جگہ علم وتبلیغ کی شمعیں روشن کئے رہے اورکئے ہوئے ہیں اورجہاں مغربی اثرات نے مسلمان طلباء کے دلوں پر اپنے سکے جمائے ہوئے ہیں۔ وہاں یہ حضرات علماء دیوبند دینی دفاع میں مصروف عمل ہیں۔ مدارس عربیہ قائم کرنے کے علاوہ دارالعلوم کے فضلاء نے تصنیفات وتالیفات کابھی ایک زبردست ذخیرہ پیداکیاہے، علم شریعت، روحانیت وطریقت، زبان اورسیاست میں بہت سی کتابیں لکھیں اوراس طرح دنیائے اسلام کی ز بردست خدمات انجام دیں اورعلوم دینیہ پھیلانے میں بڑی کوشش کی، اس سلسلہ میں حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی کی ’’آب حیات، تقریردلپذیر،حجۃ الاسلام، ہدیۃالشیعہ وغیرہ،قطب الارشاد حضرت مولانارشید احمدگنگوہی کی’’ فتاوی رشیدیہ الکوکب الدری،زبدۃ المناسک، سبیل الرشاد، تصفیۃ القلوب، امداد السلوک وغیرہ، شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی کاترجمہ قرآن مجید اردو زبان کاعظیم شاہکار ہے اور سورہ بقرہ اورسورہ نساء کے تفسیری فوائد بہترین تفسیری فیضان ہے۔
امام العصر علامہ سید احمد انورشاہ کشمیری کی لاجواب کتاب’’ فیض الباری شرح بخاری، شرح ترمذی، عقیدۃ الاسلام، مشکلات القرآن، اکفارالملحدین اورخاتم النبیین وغیرہ وغیرہ۔ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی کی تصنیفات تقریبا ڈیڑھ ہزارہیں۔، ان میں سے تفسیر ’’بیان القرآن، قرآن کریم کانہایت سادہ بامحاورہ ترجمہ اور فوائد تفسیریہ، بہشتی زیور، بوادرالنوادر،اصلاح الرسوم، نشر الطیب، الافاضات الیومیہ وغیرہ علمی شاہکار ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی ’’فتح الملہم شرح مسلم دنیائے اسلام اورحنفیت کابہترین عربی شاہکار، قرآن کریم کے بے نظیر پر مغز اورادیبانہ مقبول عوام وخواص تفسیر عثمانی، العقل والنقل، اعجاز القرآن، الاسلام، الشہاب، الروح فی القرآن اورفضل الباری شرح بخاری اردوعظیم علمی شاہکارہیں۔
مجاہد الاسلام مولاناحسین احمد مدنی کی’’ نقش حیات اورمکتوبات اوراسیر مالٹاوغیرہ ہیں فخر الاسلام مولاناحبیب الرحمن عثمانی کی شہرہ آفاق کتاب، دنیا میں اسلام کیوں کر پھیلا؟ اور تعلیمات اسلامیہ سہ حصص القصیدۃ الاسلامیہ وغیرہ زیادہ مقبول ہیں۔
فقیہ النفس مفتی عزیزالرحمن عثمانی کے فتاوی، ضخیم اورمبسوط جلدوں میں علمی شاہکار ہیں، عارف باللہ مولاناسید اصغر حسین صاحب کی تصنیفات میں مفید الوارثین، حیات شیخ الہند، فتاوی محمدی کامل، الجواب المتین، مولوی معنوی اور حیات خضر وغیرہ۔ شیخ الاسلام مولاناظفر احمد عثمانی کے سینکڑوں تالیفات کے علاوہ ’’اعلاء السنن‘‘ بیس ضخیم جلدوں میں۔ احکام القرآن دو جلدوں میں فتاویٰ امدادالاحکام، القول المنصوروغیرہ شہرہ آفاق تالیفات ہیں اوراکابرعلماء کرام سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
محقق الاسلام مولانامناظراحسن گیلانی کی ’’تدوین حدیث،سوانح قاسمی، سوانح ابوذر غفاری، اسلامی معاشیات،النبی الخاتم اورامام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی زیادہ مقبول ہیں، مفتی اعظم پاکستان مولانامفتی محمد شفیع دیوبندی کی فتاوی دارالعلوم دیوبند، احکام القرآن، ختم نبوت،حیلۃ الناجزہ، جواہر الفقہ اورتفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں شہرہ آفاق تالیفات ہیں اورصدقہ جاریہ ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں علمی شاہکار ہیں۔ شیخ الحدیث مولانامحمد ادریس کاندھلوی کی مشکوۃ کی بے نظیر شرح عربی زبان میں عقائد اسلام، تفسیر معارف القرآن، سیرت مصطفی اورعلم الکلام علمی شاہکارہیں۔ بدرالعلماء مولاناسید بدرعالم میرٹھی مہاجر مدنی کی ’’ترجمان السنۃ‘‘ شاہکارتالیف ہے اورحکیم الاسلام مولاناقاری محمد طیب قاسمی کااخلاقی نظام، انسانیت کاامتیاز اورعقائد اسلام زیادہ مشہور ہیں۔
بہر حال اشاعت علوم وفنون میں علمائے دیوبند کی قابل قدرخدمات ہیں دارالعلوم نے دنیائے اسلام کوعلم کے علاوہ عمل دیااوراہم مقصودبالذات چیز جودارالعلوم دیوبند نے دنیاکوبخشی وہ عمل ہے یعنی دارالعلوم اوراس کے سرپرست اس کے مدرسین اس کے فضلاء دنیاکے گوشے گوشے میں علم کے ساتھ اپناعمل لے کرپہنچے اورانہوں نے لوگوں کواسلام کی دعوت کے ساتھ عمل کی دعوت دی اوربہت سے علماء نے رشدوہدایت کے مسند پر بیٹھ کرہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو اسلام کے احکام نماز، روزہ، حج، زکوۃ پر عمل کرنے کاجذبہ بخشااوران کو روحانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچایا، اس سلسلے میں آپ خصوصی طورپرہمارے اس بیان کوحقیقت کی نظروں سے پڑھیے کہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی نے اپنے مرکز روحانی خانقاہ تھانہ بھون اورمکہ معظمہ سے ہزاروں علماء اور خواص وعوام کومخلص مومن بنا دیا۔ حضرت مولانارشید احمد گنگوہی، حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی، حضرت مولانارفیع الدین صاحب، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانامفتی عزیزالرحمن عثمانی حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی، حضرت مولاناسید اصغر حسین دیوبندی حضرت خلیل احمد سہارنپوری، حضرت مولاناخیرمحمدجالندھری، حضرت مولاناظفر احمد عثمانی، حضرت مولانااحمد علی لاہوری اور مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے ظاہری علوم کے ساتھ باطنی اورروحانی علوم کے مدارس کھول رکھے تھے اورجنہوں نے لاکھوں بندگان خداکوعمل کی راہ پرگامزن کیااورروحانیت کادرس دے کرصحیح معنی میں ان کوبندہ عمل بنادیا۔ گنگوہی، تھانوی اوررائپوری خانقاہیں ان فرشتہ نماانسانوں کی یادگاریں ہیں جن کے قدموں میں فرشتے اپنے پر بچھاتے تھے۔ علمائے دیوبند میں آپ عمل اوران کے ذریعے عوام و خواص میں عمل کی قوت کاایک جذبہ خاص آپ محسوس کریں گے جودوسری جگہ مشکل سے آپ کو ملے گاان بزرگوں نے جوکچھ کیاوہ نبوت کامنشاء یعنی تزکیہ نفوس اورتطہیر قلوب تھا۔
ایک تیسری چیز علم وعمل کے علاوہ جو دارالعلوم اوراس کے اکابر نے دنیائے اسلام کو بخشی وہ احسان اخلاص اورتقوی تھا، چنانچہ حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی سے لے کراب تک دار العلوم میں ہرچھوٹے اوربڑے کایہ جذبہ رہاہے کہ تبلیغ دین کوانہوں نے خالص اللہ کے لیے اپنا مطمع نظر بنائے رکھا، ان کے ہردینی عمل میں خلوص وللہیت رہی ہے انہوں نے کبھی نمائش ونمود کے لیے دین کی خدمات انجام نہیں دیں، وہ کم علم اوردنیادار پیروں اورمولویوں کی طرح جبہ ودستار سے مزین ہوکرعوام کومحصور کرنے سے مجتنب اورمتنفر رہے ہیں، انکساری وتواضع، عاجزی اور فروتنی ان کی امتیازی شان رہی ہے انہوں نے اپنے آپ کوکبھی مسعود خلائق نہیں بنایاکبھی عوام سے سجدے نہیں کرائے نہ دست بوسی اورقدم بوسی کی عوام سے امید رکھی، نہ محراب ومنبر پرخفیف الحرکاتی ان کاشیوہ رہا، تقریر میں اشعار بھی پڑھے توتحت اللفظ۔ یہی اخلاق کاثمرہ تھاکہ بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی نے وصیت میں فرمایا کہ دارالعلوم کے لیے غربا وعوام کی اعانت پر نظر رکھی جائے اورتوکل کوپورے طورپرعمل میں لایاجائے چنانچہ کئی دفعہ ایسابھی ہواکہ دارالعلوم کے خزانے میں ایک پیسہ بھی نہ ہوتالیکن فوراہی قدت کوئی انتظام کردیتی تھی اس کے مالی کام میں کبھی بھی رخنہ نہیں پڑا۔1947ء میں ہندوستان کے دوحصے ہوگئے، ڈر تھاکہ اس نازک دور میں دارالعلوم کومالی نقصان نہ پہنچ جائے لیکن بحمداللہ اب پہلے سے زیادہ آمدنی ہے مگر سب کام توکل پر چل رہاہے یہ اخلاص ہی کانتیجہ تھا اور ہے کہ اکابر دیوبند نے ہزاروں روپیہ ماہوارکی تنخواہوں کو ٹھکرا کر چالیس پچاس اور ساٹھ روپیہ ماہوارپردارالعلوم میں اپنی زندگیاں ختم کردیں، طلباء کوپرائیوٹ پڑھانے پر کوئی معاوضہ لیناسخت عیب سمجھاجاتاہے، بہرحال دارالعلوم نے اپنے فرزندوں میں اللہ کے لیے کام کرنے کاجذبہ بخشااورخلق اللہ کی خدمت انجام دیں، وہ اپنی نظروں پرمالک الملک ذوالجلال والاکرام کے سواکسی کوجگہ نہ دیتے تھے اورجیسا کہ علامہ رشیدرضانے کہاکہ دارالعلوم کے علماء بہت زیادہ خوددارہیں، بس اسی کام کانام خلوص اورتقوی ہے رسالہ مصطلحات صوفیائے کرام میں اخلاص کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
اخلاص یہ ہے کہ غیرحق سے صوفی مبراہوجائے اورمخلوق سے ہرمعاملے میں (اللہ کے سوا )بے پروائی برتے۔
یہی حقیقت تھی کہ دیوبند کے اکابراوروہاں کے تعلیم یافتہ فضلاء کبھی حکومت فرنگ کے سامنے نہیں جھکے،1914ء کی جنگ کے بعد ایک وقت ایسابھی آیاجب جمعیت الانصاراور ریشمی رومال کی تحریک کے باعث لندن کی پارلیمنٹ میں دارالعلوم دیوبند کوبندکر دینے کافیصلہ کر دیا گیا لیکن دارالعلوم نے اس کوچیلنج کیااوربالآخر اس کوفتح نصیب ہوئی اورالحمدللہ کی فرنگی کا راج کل ہندو پاک سے چلا گیا مگر دارالعلوم اپنی جگہ آج بھی اسی آب وتاب اورشان وشوکت سے قائم ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ قائم رہے گا۔
دارالعلوم کے اکابر میں اگر خلوص کی بجائے حرص وطمع ہوتی تووہ حکومت فرنگ کی گرانٹ قبول کرلیتے لیکن انہوں نے سلطنت برطانیہ سے امداد کی خواہش توکجاخودحکومت کی امداد دینے کی خواہش اور درخواست کو بھی ٹھکرا دیااور ابھی تک برہمنی راج میں بھی وہ اپنے سر پر وقار کو بلند کئے ہوئے ہیں اوربزبان حال علامہ اقبال کے اس شعر پرعمل پیراہیں۔
جن کی دنیا میں نہ دیکھا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں دیکھے میں نے شیخ وبرہمن
بلکہ اقبال کے دوسرے شعر پردارالعلوم کی مصلحت آمیز نظر رہی۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلند کی یہ بات
تو جھکا گر غیرکے آگے نہ تن تیرا نہ من
لہذا دارالعلوم نے اپنے اخلاص کی خاطر اپنے من تن دھن اورآنکھ کوغیروں کے سامنے کبھی نہیں جھکایا، بس اسی اخلاص اورتقوی پر دار العلوم دیوبند کا ربند ہے اوریہی اخلاص اس نے اپنے فضلاء اورمعتقدین کوبخشا ہے۔ گویادارالعلوم نے علم، عمل اوراخلاص یعنی تقوی دے کرجوکہ اسلام میں مقام احسان ہے، حضرت مجدد الف ثانی کے قول کے مطابق اپنے طلباء علماء اورمتعلقین کی شریعت کومکمل کردیااورجس کی شریعت مکمل ہوگئی، اس سے خداراضی ہوگیا، ورضوان من اللہ اکبر۔
بہرحال دارالعلوم کی بنیاداخلاص وتقوی پررکھی گئی جس کی وجہ سے وہ مقبول ہوااوریہی اخلاص وراثت میں وہاں کے فضلاء کوملااوریہ حقیقت ہے کہ اکابرعلمائے دیوبند کی جماعت میں سے علم وعمل کے اکثر شہسواراس دنیا سے رخصت ہوچکے، صرف چند اکابر بقید حیات ہیں جوعین اپنے اسلاف کانمونہ ہیں، حق تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت عطاء فرمائے اوراہمیں اپنے اکابر کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ثم آمین