اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 3
اہم اسلامی آداب
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ
ادب10: اپنے بھائی یا اپنے میزبان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ پر کھینچا تانی نہ کریں، بلکہ وہ آپ کو جہاں بٹھائے وہیں بیٹھیں، کیونکہ اگرآپ اپنی مرضی کی جگہ بیٹھیں گے توممکن ہے کہ ایسی جگہ بیٹھیں جہاں سے مستورات پر نظر پڑتی ہو،یاصاحب خانہ وہاں بیٹھنے سے بوجھ محسوس کرے،لہذا آپ اپنے میزبان کی فرمائش کے مطابق بیٹھیں اوراس کے اکرام کوقبول کریں۔
جلیل القدرصحابی حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ میں آتاہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کااکرام کرتے ہوئے ان کوبیٹھنے کے لیے تکیہ پیش کیا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پربیٹھ گئے چنانچہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ لے کر چلے، جب گھرمیں داخل ہوئے توچمڑے کاایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی میری طرف بڑھایااورفرمایا: ’’اس پر بیٹھ جائو! میں نے عرض کی:آپ اس پربیٹھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں !آپ اس پر بیٹھیں، پس میں اس پر بیٹھ گیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پربیٹھ گئے۔‘‘
خارجہ بن زیدرضی اللہ عنہ،محمدبن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے توکیادیکھتے ہیں کہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ تکیہ چھوڑ کرزمین پربیٹھے ہیں حضرت خارجہ رحمۃ اللہ علیہ نے چاہاکہ ان کے ساتھ زمین پربیٹھ جائیں، اس لیے ان سے کہنے لگے:’’ آپ نے اپنے لیے جس چیز کوپسند کیاہے، یعنی زمین پربیٹھنا،میں بھی اپنے لیے اسی کوپسند کرتاہوں۔ ‘‘اس پر ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’ میں اپنے گھر میں آپ کے لیے وہ پسند نہیں کرتاجواپنے لیے پسند کرتاہوں، لہذا آپ وہاں بیٹھیں جہاں بیٹھنے کے لیے آپ سے کہاجاتاہے۔‘‘
اسی طرح آپ میزبان کی خاص جگہ پرنہ بیٹھیں، مگروہ خود آپ کووہاں بٹھائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لا یوم الرجل الرجل فی سلطانہ، ولایقعد فی بیتہ علی تکرمتہ الاباذنہ۔‘‘یعنی کوئی شخص دوسرے شخص کی امامت نہ کرے اس کے منصب کی جگہ میں اورنہ ہی اس کے گھر میں اس کی خاص جگہ پربیٹھے مگر یہ کہ وہ اسے اجازت دے(اسے امام مسلم نے روایت کیاہے]
ادب11:
جب آپ اپنے بھائی یااپنے دوست کے گھر جائیں اور وہ آپ کوکسی جگہ بٹھادے یا سُلادے تواپنی نگاہ کواس طرح نہ ڈالیں جیسے کوئی شخص کسی چیز کوتلاش کر رہا ہو،بلکہ آپ اپنی نگاہ کو نیچارکھیں، جب آپ بیٹھے ہوں یاسوناچاہتے ہوں، توصرف اسی چیز پرنظر ڈالیں جس کی آپ کو ضرورت ہے، کسی بندالماری کو مت کھولیں، اسی طرح کسی صندوق کو مت کھولیں، یا کوئی بیگ اور تھیلی لپٹی ہوئی ہو، یاکوئی ڈھانکی ہوئی چیز ہو تواس کو نہ کھولیں، کیونکہ یہ اسلامی اداب کے خلاف ہے اوراس امانت کے بھی خلاف ہے جس کی بناپرآپ کے بھائی یادوست نے آپ کو اپنے گھر آنے اور ٹھہرنے دیاہے، لہذا کسی کوملنے سے پہلے زیارت کے آداب سیکھ لیں اور حسن معاشرت کی وسعتوں میں داخل ہو جائیں اور اپنے میزبان کے ہاں محبوب اور پسند یدہ رتبہ پر فائز ہو جائیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کادوست ہو۔
ادب12:
آپ کو چاہیے کہ آپ ملاقات کے لیے مناسب وقت کاانتخاب کریں اورجب ملاقات کریں تومیزبان کے پاس اتنا ٹھہریں جتنا آپ کے اور اس کے تعلقات کے مناسب ہو اور جو اس کی حالت سے مناسب ہو لہذا ملاقات لمبی نہ کریں اور نہ ہی میزبان پر بوجھ بنیں اورنہ ایسے وقت میں آئیں جوملاقات کے مناسب نہ ہومثلاًکھانے کے وقت، سونے کے وقت یاآرام کے وقت ملاقات سے احتراز کریں۔
امام نووی نے اپنی کتاب ’’الاذکار‘‘میں سلام کے باب کے آخر میں سلام کے مسائل ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے:
’’ایک مسلمان کے لیے جس مستحب کی تاکید ہے وہ یہ ہے کہ وہ نیک لوگوں، اپنے بھائیوں اپنے پڑوسیوں اوراپنے رشتہ داروں سے ملتارہے،ان کااکرام کرے، احسان وبھلائی سے پیش آئے اورصلہ رحمی کرے۔ اس سے ملاقات کامعیار،حالات مراتب اور فراغت کے اعتبار سے بدلتارہتاہے لہذا مناسب یہ ہے کہ ان سے ملاقات ایسے موقع پر ہو جسے وہ پسند نہ کرتے ہوں اور اسے وقت میں ہو کہ جسے وہ پسند کرتے ہوں اور اس سلسلہ میں بہت سی احادیث اور آثار مشہورہیں۔ ‘‘
ادب13:
جب آپ اپنے میزبان کے ساتھ گفتگو کریں تو اس کے مقام اور مرتبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مختصر گفتگو کریں اور اگر آپ مجلس میں سب سے چھوٹے ہیں توآپ بات نہ کریں الایہ کہ مجلس والوں میں سے کوئی آپ سے سوال کرے، توآپ اس کاجواب دیں۔ ہاں ! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی گفتگو اورکلام سے وہ خوش ہوں گے اور اس کی قدر کریں گے تو کلام میں پہل کر سکتے ہیں لیکن بات کو لمبا نہ کریں اورمجلس میں بیٹھنے کے آداب اورگفتگوکے انداز کو نہ بھولیں۔
ادب14:
جب آپ کو مجلس میں جائیں توسب سے پہلے سب کو سلام کریں اور اگر سلام بعد آپ مصافحہ بھی کرناچاہتے ہیں تومصافحہ کی ابتدااس شخص سے کریں جوسب سے افضل ہو،یاعالم ہو یا بڑا پرہیزگار ہویاعمر کے اعتبارسے سب سے بڑا ہو یا کسی ایسی صفت میں ممتاز ہو جو شرعا قابل احترام ہے اورافضل کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے ہرگزمصافحہ نہ کریں جو اگرچہ صف اول میں پہلا ہو یا دائیں طرف ہو،مگر وہ دوسروں کے مقابلہ میں عامی شمارہوتاہوبلکہ سب سے پہلے اس شخص سے مصافحہ کریں جو اس مجلس میں اپنی خاص صفت کی وجہ سے سب سے افضل ہو اور اگر آپ کو معلوم نہیں کہ ان میں سے افضل کون ہے؟ یاآپ سمجھتے ہوں کہ مرتبہ میں سب برابرہیں توجو عمر میں سب سے بڑا ہو، ا س سے ابتداء کریں، کیونکہ بڑی عمر والے کی پہچان عموما ً مشکل نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:کبّرکبّر(بخاری ونسائی )یعنی بڑے کوآگے کرو۔
ایک اورروایت میں ہے:کبّر الکبرفی السن یعنی جو عمرمیں بڑاہے اسے آگے کرو۔
امام بخاری اورامام مسلم نے اسے روایت کیاہے
ایک اورروایت میں ہے کہ:ابد وابالکبراء أوقال: بالاکابریعنی بڑوں سے ابتداء کرو
اس کوامام ابویعلی اورطبرانی نے ’’الاوسط‘‘ میں ذکرکیاہے
ادب15:
جب آپ کسی مجلس میں جائیں توساتھ بیٹھے ہوئے دو شخصوں کے درمیان نہ بیٹھیں، بلکہ دونوں کے دائیں یا بائیں بیٹھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لایجلس بین رجلین الاباذنھما(ابودائود)یعنی دوآدمیوں کے درمیان نہ بیٹھا جائے مگر ان کی اجازت سے۔
اگر اکرام کرتے ہوئے ان دونوں نے آپ کو اپنے درمیان بیٹھنے کی جگہ دے دی ہے تو آپ سکٹر کر بیٹھیں زیادہ کھل کر نہ بیٹھیں۔
ابن الاعرابی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
’’بعض حکماء کاقول ہے کہ دوشخص ظالم ہیں ایک وہ شخص جسے نصیحت کا تحفہ دیا گیا اور اس نے اسے گناہ کا ذریعہ بنا لیا اور دوسر اوہ جس کے لیے تنگ جگہ میں بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی مگر وہ پھیل کر بیٹھ گیا۔‘‘
نیز جب دوآدمیوں کے پاس بیٹھیں تواس کی باتوں کی طرف کان مت لگائیں الایہ کہ وہ راز کی بات نہ ہو اور نہ ہی ان دونوں سے متعلق ہو، کیونکہ ان کی باتوں کی طرف کان لگاناآپ کے اخلاق کی کمزوری اورایسی برائی ہے جس کے آپ مرتکب ہو رہے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:۔
’’من استمع الی حدیث قوم وھم لہ کارھون صب فی اذنیہ الاٰنک یوم القیامۃ۔‘‘
یعنی جو شخص دوسروں کی بات کان لگا کر سنتاہے جس کا سننا ان کو پسند نہیں، قیامت کے دن اس کے کانوں میں (پگھلاہوا) سیسہ ڈالاجائے گا۔اس کوامام بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
جانناچاہیے کہ جب آپ تین آدمی بیٹھے ہوں تودو کو آپس میں سرگوشی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح آپ تیسرے آدمی کواپنے سے الگ کر رہے ہیں اور اسے وحشت میں ڈال رہے ہیں۔ نتیجتاً اس کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آئیں گے اور یہ خصلت مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصلت کی مسلمانوں سے نفی فرمائی چنانچہ ارشادفرمایا:
لایتناجی اثنان بینھماثالث
[رواہ الامام ابودائود]
یعنی دو مسلمان آپس میں سرگوشی نہیں کرتے جب کہ ان کے درمیان تیسرا ہو۔
یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہی کاصیغہ استعمال نہیں فرمایا،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفی کاصیغہ استعمال کرتے ہوئے خبردے رہے ہیں کہ یہ ایسی صفت ہے کہ جس کاکسی مسلمان سے صادر ہونے کا تصور نہیں ہوسکتالہذا س سے روکاجائے کیونکہ یہ ایسی خصلت ہے جس کاغلط ہونا ایک فطری چیز ہے۔
اس حدیث کوامام مالک اورامام ابودائود نے حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت کیاہے اور حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیاگیاکہ اگر تین کے بجائے چار آدمی ہوں تو سرگوشی کرسکتے ہیں؟
توآپ نے فرمایا: ’’پھرکوئی حرج نہیں۔ ‘‘
جاری ہے