بہو کی طرف سے جھگڑے کے اسباب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بہو کی طرف سے جھگڑے کے اسباب
پیرذوالفقاراحمد نقشبندی
اب بہوکی طرف سے جھگڑے کے اسباب کیاہوتے ہیں؟ عام طورپرجس نوجوان لڑکی کی شادی ہوتی ہے۔ دیکھایہ گیاہے کہ وہ نا تجربہ کار اوربھولی بھالی سی لڑکی ہوتی ہے اس کو ازدواجی زندگی کے لڑائی جھگڑوں کا ذرا پتہ نہیں ہوتا۔وہ ماں کی محبتوں میں پلی، باپ کی شفقتیں سمیٹیں، بھائی کی محبتیں پائیں، ان محبتوں کے ماحول سے نکل کرایک نئے گھر کے اندر آتی ہے تو توقعات یہی رکھتی ہے کہ جو ماں محبتیں دیتی تھی وہی ساس دے گی،جو ابو محبت دیتے تھے وہ مجھے سسر دیں گے اور خاوندکے بارے میں تصور رکھتی ہے کہ یہ توہے ہی میری زندگی کاساتھی۔ تو اس کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں۔ مگر اس کو وہاں آکر جو صورتحال نظر آتی ہے وہ کئی مرتبہ توقعات کے مطابق ہوتی ہے اور کئی مرتبہ توقعات کے خلاف ہوتی ہے۔ لہذا یہ ناتجربہ کار اوربھولی بھالی لڑکی نئے گھر میں آ کر بہت ساری غلطیاں کرتی ہے۔کھانے پکانے میں اتنی مہارت نہیں ہوتی ،مہمان نوازیوں کا اتناپتہ نہیں ہوتا۔ماں باپ کے گھر میں پڑھنے میں لگی رہتی ہے۔ اپنے کاموں میں لگی رہتی ہے گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے گھر کے کاموں میں اتناتعاون نہیں کیاہوتاچنانچہ یہاں آ کر اس کے لیے صورت حال سخت ہوجاتی ہے اور پھر عمر بھی چھوٹی ہوتی ہے اس کواتنا پتہ نہیں ہوتا کہ میں یہاں آ کر کس طرح اپنے آپ کو بچ بچاکر رکھناہے؟ یہ بھی نہیں سمجھتی کہ خاموشی کے کتنے فائدے ہوتے ہیں؟ کوئی نہ کوئی بات کر دیتی ہے پھر اس کے ایک ایک لفظ کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ایک لفظ کو پکڑ کر اس کے اوپر پوری داستان بنا دی جاتی ہے۔ پھرا س بہوکے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ میری شادی ہوئی، نکاح ہوا،میں بیٹی کی حیثیت سے اس گھر میں آئی ہوں، میں اس گھر میں لونڈی بن کر تو نہیں آئی۔ میں کہیں بھاگ کر تو نہیں آئی تو وہ توقع کرتی ہے کہ اس گھر میں مجھے ایک Respect (عزت)ملنی چاہیے اورخاوند کے بارے میں اس کے ذہن میں بھی ہوتاہے کہ خاوند توبس ایسا ہوکہ میری ہر بات پر آمین کہنے والا ہو۔اس کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ادھر میری منہ سے بات نکلے اورخاوند اس پر Yes(ہاں )کر دے اوربعض اوقات اس بہوکے ذہن میں یہ بھی خطرہ ہوتاہے یا سہیلیوں نے اس کوغلط گائیڈ کیا ہوتاہے کہ اگرتم سسرال جا کر ایک دفعہ دَب گئی تو ساری عمر تمہیں دَباکرہی رکھیں گے۔ لہذا وہ بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑنا شروع کر دیتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا اپنے میکے میں آ کر تذکرہ کرتی ہے کبھی بہن کے ساتھ کبھی ماں کے ساتھ اب ادھر بہن اورماں اس کومشورے دیتے ہیں اور وہ پھر سسرال میں ریموٹ کنٹرول کھولنے کی طرح کھیل کھیل رہی ہوتی ہے یہ سب ناپسندیدہ صورتحال ہے۔
اسباب کانچوڑ…خودغرضی کی جنگ:
یوں لگتاہے کہ ان تمام وجوہات کوسامنے رکھیں تولب لباب یہی نظر آتاہے کہ ہر انسان گھر کا ہر فرد اپنی خود غرضی کی جنگ لڑ رہاہے ساس کو اپنے مفادات چاہئیں، نند کواپنے چاہئیں، بہو کو اپنے چاہئیں اور اس وجہ سے اب گھر کے اندر لڑائی کی ایک فضا بن جاتی ہے ایک دوسرے کے ساتھ حسن اخلاق سے رہنے کی تعلیم دینے میں کمی رہ جاتی ہے اب یہ ذمہ داری تو سسرکی بھی ہوتی ہے کہ وہ گھر کا بڑا ہوتاہے وہ اپنی بیوی کو بھی سمجھتاہے بیٹی کوبھی سمجھتاہے لہذا س آنے والی لڑکی کو وہاں ایڈجسٹ ہونے میں اس کومورل سپورٹ دے۔ اس کو Back Up(سہارا)دے تاکہ وہ بچی محسوس کرے کہ میرے سر کے اوپر کوئی سایہ ہے وہ اپنے آپ کو ہوا میں لٹکتا محسوس نہ کرے کہ معلوم نہیں کس وقت ساس مجھے اپنے گھر واپس بھیج دے۔ اب کئی مرتبہ سسر صاحب اپنی بیوی کے سامنے بات نہیں کرسکتے اور کئی مرتبہ اپنے بزنس میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وقت ہی نہیں ہوتا جب مرد کے پاس وقت نہ ہو عورتیں گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ کوآپریٹ نہ کریں تو گھر کے اندر لڑائیاں نہیں ہوں گی تو اور کیا ہو گا؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنے کی تعلیم کو عام کریں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری امت کے لوگ نمازاورروزے کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ ایک دوسرے پر رحم کرنے کی وجہ سے جنت میں زیادہ جائیں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایثار، رحم، محبت ان اقدار کو گھر کے اندربڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسباب کاسدباب:
توآئیے!
ان تمام اسباب کے علاج کیاہیں؟ ان تمام اسباب کے حل کیاہیں؟ اس پرتھوڑی سی بات کرتے ہیں جھگڑے تبھی ختم ہوسکتے ہیں جب ہر بندہ اپنی کچھ مخصوص ذمہ داریوں سے اداکرنے کی کوشش کرے۔
ساس کی ذمہ داریاں:
ساس اپنے بڑے پن کاثبوت دے۔سب سے پہلے ساس گھر کی ماں ہے، بڑی ہے، اس کی عزت اور احترام ہے بڑوں کوبڑاہی بن کر رہناچاہئے،اپنی ذمہ د اریوں کوپوراکرناچاہیے تو سب سے پہلے ساس کو یہ سمجھناچاہئے کہ آنے والی لڑکی پلاسٹک کاکھلونا نہیں، جیتا جاگتاانسان ہے میں نے خوداسے پسند کیا،اپنے بیٹے کے لیے لے کرآئی ہوں خودچل کرگئی تھی اب اگریہ آگئی ہے تویہ بھی انسان ہے اس میں یقینا خوبیاں بھی ہوں گی اور خامیاں بھی ہوں گی،تو مجھے جیسے اس کی خوبیوں کوقبول کرناہے اس کی خامیوں کو بھی قبول کرنا ہے اورپیارمحبت سے اس کی اصلاح کرنی ہے۔
بہواوربیٹی کوبرابرسمجھے:
جیسے اپنی بیٹی کے اندرخامیاں ہوتی ہیں توماں صبر کے ساتھ ان خامیوں کی اصلاح میں لگی رہتی ہے توپھربہوکے لیے کیوں یہ سمجھتی ہے کہ ایک دن میں یہ ٹھیک ہو جائے گی؟ بہو بھی اس کی بیٹی ہی کی ہم عمرہے اس کی بیٹی ہی کی طرح ہے جورویہ ساس اپنی بیٹی کے ساتھ رکھتی ہے وہی رویہ اگراپنی بہوکے ساتھ رکھے توگھرکے جھگڑے بالکل ہی ختم ہوجائیں۔ مصیبت یہاں یہ ہوتی ہے کہ بیٹی وہی غلطی کرتی ہے توماں اس غلطی کوچھپاتی پھرتی ہے اور اگر وہی غلطی بہوکرلیتی ہے توساس اس غلطی کوبتاتی پھرتی ہے توابتدائی دنوں میں اس آنے والی بچی کوغلطیوں سے کچھ در گزر کرناچاہیے۔
ساس کی بنیادی غلطی:
اوراس میں ایک غلطی ساس کی یہ بھی ہوتی ہے کہ عام طورپراس نے بہوکاجوانتخاب کیا ہوتا ہے توفقط اس کی شکل کی خوبصورتی کودیکھ کرکیاہوتاہے یہ ذہن میں رکھیں کہ صرف ولیمہ کے دن لڑکی کی شکل کودیکھاجاتاہے باقی پوری زندگی اس کی عقل کو دیکھاجاتاہے توجو چیزپوری زندگی دیکھی جاتی تھی اس پرتوجہ نہیں دیتی اورشکل کی حور پری ڈھونڈ کراپنے گھر لے آتی ہے۔ نہ تعلیم دیکھی نہ اس کے اخلاق دیکھے تواس وجہ سے پھرمصیبت پڑجاتی ہے۔
بہوکی غلطیوں پر در گزر کرے:
توساس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی چنددنوں میں بہو گھر کے اندر اپنے آپ کو ایڈجسٹ ہونے کاموقع دے۔ اس کی غلطیوں سے در گزر کرے،نئی جگہ پرانسان بعض چیزوں کو نظر انداز کر جاتاہے بعض کاموں کوبھول جاتاہے توبہوسے اس قسم کی غلطیاں ہونا،کوئی انوکھی بات نہیں، لہذا اسے چاہیے کہ ابتدامیں اگرلڑکی غلطیاں بھی کرے تواس سے در گزرسے کام لے اور یہی سمجھے کہ ہاں چند دنوں کے بعد جب یہ گھر میں سیٹ ہوجائے گی تواس میں لڑکی کوسمجھا لوں گی۔
بہو کوخوشی سے گھر کی ذمہ داری دے:
گھرکے کام کاج میں بہو کو ہنسی خوشی ذمہ داری دے۔ مثال ے طورپرکھاناپکاناہے تویہ ضروری تونہیں کہ ہرروزساس سے ہی ساراکچھ پوچھ کے پکایا جائے گا۔کبھی ساس یوں بھی کہہ دے کہ بیٹا!اپنی مرضی کا کھانا پکا لو !تولڑکی کو تھوڑاسا اختیارملے گا تواس کادل خوش ہو گا تویہ ذمہ داری ساس کی بنتی ہے کہ وہ آنے والی لڑکی کوہنسی خوشی ذمہ داری سونپے اور ساتھ یہ بھی سوچے کہ جب میں بہوبن کرآئی تھی تواس وقت میرے جذبات کیاتھے؟اورمیں بھی تواپنی ساس کے بارے میں یہ سوچاکرتی تھی کہ ذرا ذمہ داری میرے اوپر ڈال کرتودیکھے مجھے دے کردیکھے میں کیسے نہیں کام کرتی؟میں بھی ہربات پر تنقید کوناپسند کرتی تھی،ذراذراسی بات پرنکتہ چینی سے میرادم گھٹتا تھا۔ آج جب میں اپنی بہو کو ساس بن گئی ہوں تومیں اپنی بہوکے ساتھ وہی سلوک کیوں رکھوں؟
ہروقت کی تنقیدسے گریزکرے:
نیت ہمیشہ اچھی رکھے اللہ رب العزت نیت کی وجہ سے گھر کاماحول اچھاکردیتے ہیں ہر بات پربہوکوکاٹنے نہ دوڑے۔اگر اس کے برے کام پرتنقید کرتی ہے تواس کے اچھے پرتعریف بھی کیا کرے۔یہ توکوئی بات نہ ہوئی کہ غلطی پراس کی مٹی پلیدکر دی اور اچھے کام کوایسے نظرانداز کیا جیسے اس نے کیاہی نہیں۔ یہی وجہ کہ کبھی بہن کی بیٹی کوبہوبناکرلائی،کبھی بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لائی، اتنی قریبی رشتہ داریاں ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی وہ لڑکی گھر آتی ہے اس کے ساتھ جھگڑے والا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
توکسی دل جلے شاعر نے اس پر ایک شعر بنایا:
جب تک بہو کنواری ساس گئی واری
بہو کا آیا ڈولا ساس کو لگا گولہ
اپنی بھتیجی اپنی بھانجی،اپنی قریبی سہیلی کی بیٹی کو لے کر آتی ہے اورجیسے ہی وہ بچی گھر میں قدم رکھتی ہے بس اس کی غلطیاں دیکھناشروع کر دیتی ہے توساس کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر اپنے بڑے پن کاثبوت دے اوراس بچی کوایڈجسٹ ہونے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے۔ اگراپنی بیٹی بھی اس کی شکایت کرے تو بیٹی کوسمجھابجھا لے،ڈانٹ ڈپٹ کر لے،مگر گھر کے اندر خواہ مخواہ ماحول کو Pollute(آلودہ)نہ ہونے دے۔