چند اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر4:۔
چند اہم اسلامی آداب
شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ رحمۃ اللہ علیہ
ادب16:
قدر و منزلت میں اپنے سے بڑے کا حق پہچانو، اگر آپ اس کے ساتھ چل رہے ہوں تو اس کی دائیں جانب ذرا پیچھے ہٹ کر چلیں اور جب آپ گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو اسے اپنے سے آگے کرو، جب آپ کسی بڑے سے ملاقات کریں تو سلام اور احترام سے اس کاحق ادا کریں اور جب ان سے گفتگو کریں تو پہلے ان کوبات کرنے کا موقع دیں اور نہایت احترام سے کان لگا کر ان کی بات سنیں اور اگر گفتگو کا موضوع ایسا ہوکہ جس میں بحث کی ضرورت ہے تو نہایت ادب، سکون اور نرمی سے بحث کریں اور بات کرتے وقت آواز کوپست رکھیں اور ان کو بلاتے وقت اور خطاب کرتے وقت اس کے احترام کونہ بھولیں۔
اب مذکورہ بالا آداب کے بارے میں کچھ احادیث پیش کی جاتی ہیں :۔
1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو بھائی اس لیے آئے تاکہ ان کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ہے وہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کریں ان میں سے ایک بڑا بھائی تھا جب چھوٹے بھائی نے بات کرنی چاہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کَبِّرْ کَبِّرْ…یعنی اپنے بڑے بھائی کو اس کا حق دو اور اسے بات کرنے کا موقع دو۔
[بخاری، مسلم]
2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَجِلْ کَبِیْرَنَا
’’یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔‘‘
3: اور ایک روایت میں ہے۔
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لِعَالِمَنَا حَقَّہٗ۔
’’یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کھاتا اور ہمارے عالم کاحق نہیں جانتا۔‘‘
اس روایت کوامام احمد، امام حاکم اورامام طبرانی نے حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے
ادب17:۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد خوب غور سے سنو! جس میں ہے کہ
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عصر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مہربان اور شفیق تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ ہمیں اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا پیچھے گھر میں کس کس کوچھوڑ کر آئے ہو؟ جب ہم نے آپ کوبتایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ واپس اپنے گھر والوں کے پاس جائو اور ان کے درمیان رہو، ان کوتعلیم دو اور اچھے کاموں کاحکم دو، پھر جب نماز کاوقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو، وہ نماز کی امامت کرائے۔‘‘
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ذیل طبقات الحنابلۃ…1/87میں فقیہ ابوالحسن علی بن مبارک کرخی المتوفی: 487ھ جو امام فقیہ ابو یعلیٰ حنبلی جو اپنے زمانے میں شیخ الحنابلہ کہلاتے تھے رحہم اللہ تعالیٰ کے شاگرد ہیں ؛ ان کے ترجمہ میں لکھاہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں قاضی ابویعلیٰ کے ساتھ ساتھ چل رہاتھا اسی اثناء میں انہوں نے مجھ سے سوال کیاکہ اگر تم کسی ایسے شخص کے ساتھ چل رہے ہو جس کی تم تعطیم کرتے ہو تو اس ے ساتھ کس جانب چلو گے؟ مجھے معلوم نہیں فرمایا اس کے دائیں طرف چلو اور اسے نماز کے امام کے قائم مقام سمجھو اور بائیں جانب اس کے لیے چھوڑ دو تاکہ ضرورت کے وقت وہ اسے تھوک وغیرہ کے لیے استعمال کرسکے۔
ادب18:
مہمانی اور اکرم کے موقع پر بڑے اور صاحب فضل کوہمیشہ ترجیح دو اور پہلے بڑے سے شروع کرو، پھر جو اس کی دائیں جانب مجلس میں بیٹھے ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے جس کی دلیل سابقہ دوحدیثیں کَبِّرْ کَبِّرْاور لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا کے علاوہ بہت سی حدیثیں ہیں، جن میں سے چند ایک کویہاں ذکر کیاجاتاہے۔
1: امام مسلم نے اپنی صحیح میں باب آداب الطعام والشراب واحکامھا میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کبھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے پر بلایاجاتاتو ہم اس وقت تک اپنے ہاتھ نہ بڑھاتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نہ فرماتے اوراپنا ہاتھ نہ ڈالتے۔‘‘
2: امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب ریاض الصالحین میں اس موضوع پر ایک خاص باب باندھا ہے اور بہت سی احادیث ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر کو میں یہاں ذکرکر رہا ہوں، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے عنوان باندھا ہے:
بَابُ تَوْقِیْرِ الْعُلَمَائِ وَالْکِبَارِ وَاَہْلِ الْفَضْلِ وَتَقْدِیْمِھِمْ عَلٰی غَیْرِھِمْ وَرَفْعِ مَجَالِسِھِمْ وَاِظْہَارِمَرْتَبَتِھِمْ۔
الف: اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:۔
قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُاُوْلُوالْاَلْبَابِ۔
’’یعنی آپ کہہ دیجئے کیا علم والے اورجہل والے(کہیں )برابر ہوتے ہیں ؟وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل(سلیم)ہیں۔ ‘‘
ب: حضرت ابومسعود عقبہ بن عمروالبدری الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
یَؤُمُّ الْقَوْمَ اَقْرَؤُھُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ فَاِنْ کَانُوْا فِی الْقِرَأَۃِ سَوَائٌ فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَّۃِ فَاِنْ کَانُوْا فِی السُّنَّۃِ سَوَائٌ فَاَقْدَمُھُمْ ہِجْرَۃً فَاِنْ کَانُوْا فِی الْھِجْرَۃِ سَوَائٌ فَاَقْدَمُھُمْ سِنًّا۔
’’یعنی لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کاعالم اورقاری ہو، اگر قرآت میں سب برابرہوں تو جوسنت کابڑاعالم ہو، پھر اگرسنت میں سب برابرہوں تو جو ہجرت میں بھی پہلا ہو پھر اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑاہو۔‘‘
ج: عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیَلِیْنِیْ مِنْکُمْ اُوْلُو الْاَحْلَامِ وَالنَّھْیِ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔
’’یعنی میرے قریب (نمازمیں )وہ لوگ کھڑے ہوں جوعقل مند اور سمجھ دار ہوں، پھر جو ان کے قریب ہوں پھر جو ان کے قریب ہوں۔ ‘‘
د: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے شہداء کو دو دو کرکے ایک قبر میں رکھتے تھے پھر آپ پوچھتے کہ ان دونوں میں قرآن کریم کازیادہ حافظ کون ہے؟ جب دو میں سے ایک کی طرف اشارہ کیاجاتاتوآپ اسے قبلہ رخ قبر میں پہلے لٹاتے۔’ ‘
ہ: حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَرَانِیْ فِی الْمَنَامِ اَتَسَوَّکُ بِسِوَاکٍ فَجَائَ نِیْ رَجُلَانِ اَحَدُھُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْاٰخَرِ فَنَاوَلْتُ السِّوَاکَ اَلْاَصْغَرَ فَقِیْلَ لِیْ کَبِّرْ فَدَفَعْتُہٗ اِلَی الْاَکْبَرِ مِنْھُمَا
[مسلم]
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھاکہ میں مسواک کر رہا ہوں اور میرے پاس دوآدمی آئے جن میں ایک بڑا تھا، تو میں نے وہ مسواک چھوٹے کودے دی تو مجھے سے کہا گیا کہ بڑے کو دو؛ توان میں سے جو بڑا تھا وہ مسواک میں نے اسے دے دی۔‘‘
و: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ مِنْ اِجْلَالِ اللّٰہِ تَعَالیٰ اِکْرَامُ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَیْرَ الْغَالِیْ فِیْہِ وَالْجَانِیْ عَنْہٗ، وَاِکَرَامُ ذِی السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ بڑی عمر والے مسلمان اورقرآن کریم کے حافظ جو اس میں غلو اور جفاء نہ کرتا ہو، اس کااکرام کیاجائے اور عدل وانصاف والے حاکم کا۔‘‘
ز: حضرت میمون بن ابی شبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے دروازے پر ایک سائل آیا، آپ نے اسے روٹی کا ٹکڑا دیا(اور وہ چلا گیا )پھر ایک اور سفید پوش سائل آیا توآپ نے اسے بٹھا کر کھانا کھلایا۔ جب آپ سے دونوں میں امتیاز کرنے کے بارے میں پوچھا گیا توآپ رضی اللہ عنھانے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
اَنْزِلُو النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ۔
ترجمہ: ’’لوگوں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق معاملہ کرو۔‘‘
ج: حضرت ابوسعید بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھوٹا بچہ تھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث یاد کرتا تھا لیکن ادب کی وجہ سے مجلس میں بات نہیں کرتاتھا کیونکہ وہاں ایسے حضرات موجود تھے جو مجھے سے بڑی عمر والے تھے۔
[بخاری ومسلم]
لہذا سنت یہ ہے کہ مجلس میں جو عمر کے اعتبار سے بڑا ہو، یا افضل ہو یابڑا عالم ہو، یعنی مجلس میں ایسا شخص موجود ہو جودوسروں میں کوئی امتیازی وصف رکھتاہو، چاہے عمر میں بڑا ہو، یا علم کے اعتبار سے، یاوجاہت یا اہل بیت کے شرف کے اعتبار سے، یا عہدہ ومنصب کے اعتبار سے، یا جہاد فی سبیل اللہ کے اعتبار سے، یا جو دو سخاء کے اعتبار سے ہو، تو اکرام کی ابتداء اس سے کی جائے۔’ ‘
خلاصہ یہ کہ مہمانی اوراکرام میں سنت یہ ہے کہ کسی امتیازی وصف والے آدمی سے شروع کیاجائے، پھر جواس کے دائیں جانب ہو، تاکہ دونوں نصوص میں تطبیق ہوجائے، یعنی جن نصوص میں دائیں طرف سے شروع کرنے کاحکم ہے، یاجن نصوص میں (کَبِّرْ،کَبِّرْ)اور(لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا) اور (اِبْدَؤُا بِالْاَ کَابِرِ) وارد ہوا ہے۔
بعض لوگ نصوص کے سمجھنے میں غلطی کی بناء پر نصوص کوصحیح محل پر حمل کرنے میں کوتاہی کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ جوشخص میزبان کے دائیں جانب ہو چاہے کوئی بھی ہو، اس سے شروع کیاجائے اور ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں دائیں طرف سے شروع کرنے کاحکم دیاگیا ہے حالانکہ یہ حکم اس وقت ہے جب مجلس میں موجود سب افراد عمر کے اعتبار سے یادوسری صفات کے اعتبار سے برابر ہوں تواس صورت میں جو بھی دائیں جانب ہو اس سے شروع کیا جائے۔ لیکن اگر وہ سب باقی تمام صفات میں برابر ہوں لیکن ان میں ایک کسی اور جہت سے ممتاز ہو مثلاً عمر میں سب سے بڑا ہو تواس سے ابتداء کی جائے گی کیونکہ اس وصف کی وجہ سے اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ہوگی، لہذا اس وصف کو ترجیح دیتے ہوئے اس شخص سے ابتداء کی جائے گی۔
امام ابن رشد رحمہ اللہ اپنی عظیم کتاب البیان والتحصیل میں فرماتے ہیں۔
’’اہل مجلس کے حالات اگر ایک جیسے یاقریب قریب ہوں توابتداء دائیں طرف سے کی جائے گی۔ مکارم اخلاق میں یہ پسندیدہ طریقہ ہے۔ کیونکہ اس میں کسی کوکسی پر ترجیح کااظہار نہیں ہوتا۔لیکن اگر مجلس میں کوئی عالم ہو، سن رسید ہ یاصاحب فضل ہوتو سنت طریقہ یہ ہے کہ اس بڑے سے بتداء کی جائے، چاہیے وہ جہاں بھی بیٹھا ہو۔ پھر اس کی دائیں سے شروع کی جائے۔
جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پیش کیاگیا جس میں پانی ملایا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمانے کے بعد اپنے دائیں بیٹھے ہوئے اعرابی کو دیا۔ جب کہ آپ کے بائیں جانب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا۔
اَلْاَیْمَنْ فَالْاَیْمَنْ
توبائیں جانب والے کوپہلے نہیں دیا جائے گا چاہے وہ دائیں جانب والے کے مقابلہ میں اپنے علم وفضل اور بڑی عمر کی وجہ سے ابتداء کازیادہ مستحق ہو، الایہ کی دائیں والے سے اجازت لے کر بائیں والے کوپہلے دیاجائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہ ایک دفعہ آپ کوپینے کی کوئی چیز پیش کی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا آپ کے دائیں جانب ایک بچہ اور بائیں جانب بڑی عمر کے حضرات تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے سے فرمایاکیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اسے ان حضرات کو دے دوں ؟ تولڑکے نے کہا بخداہرگز نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کی طرف سے پہنچنے والے حصہ پرکسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا، جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ اس کاحق ہے۔‘‘
لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ جب مجلس میں کوئی ممتاز شخصیت نہ ہو تو مطلق دائیں طرف سے شروع کرنا ہی شرعی طریقہ ہے جیساکہ ابھی ابھی ذکر ہوالیکن اگر مجلس میں کوئی ایسا شخص موجود جس میں کوئی وصف پایاجاتاہے جسے شارع نے باعث شرف قراردیا ہے تو بلاشک ابتداء اسی صاحب فضل سے کی جائے گی اور قائل کے اس زعم کے مطابق کہ میزبان شروع کرے جو بھی اس کے دائیں جانب بیٹھا ہو وہ چاہے بچہ ہو، چھوٹا لڑکا ہو، صدر مجلس کانوکر ہویااس کاڈرائیور ہو، جب کہ مجلس کاسرتاج کبھی بڑا عالم، گورنر دادا یاوالد کا صاحب فضل چچا ہوتاہے تو بتائیے کہ کیااسلام کے احکام اور آداب اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ان بزرگان قوم کوچھوڑ کراکرام اورضیافت کی ابتداء بچوں خادموں اورڈرائیوروں سے کی جائے پھر ان کے بعد جوان سے اعلیٰ ہوں یا ان جیسے ہوں ان سے کی جائے؟ حالانکہ کبھی سرتاج مجلس سے پہلے دسیوں چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔ تو اس صورت میں میزبان کبھی دس اورکبھی بیس چھوٹوں کے بعد صدر مجلس تک پہنچے گا۔
اس لیے فقہ اسلام اور آداب اسلام اس سے منزہ ہیں کہ وہ اس بے تربیتی اور فطری ادب کے خلاف کرنے کی اجازت دیں۔
ہاں اگر اہل مجلس میں کوئی چھوٹا ایک عام آدمی خود پانی مانگتاہے تووہ مانگنے کی وجہ سے اس بات کاحق دار ہوجاتاہے کہ اس کی فرمائش پوری کی جائے اور اس سے ابتداء کی جائے، اور اس کے بعد اس کے دائیں جانب والے کودیا جائے چاہے وہ سب سے زیادہ کم سن یاکم مرتبہ والا ہو اور جب اس چھوٹے کوپانی وغیرہ پیش کیاجائے اور وہ دیکھے کہ اس سے کوئی بڑا اس پانی وغیرہ کی طرف دیکھ رہا ہے اور وہ ایثار کرتے ہوئے اس بڑے سے ابتداء کرتا ہے اور اسلامی ادب کی رعایت کرتاہے تواس نے ایک بڑی فضیلت حاصل کرلی، جس سے اس کی چہک مہک بڑھے گی، اور اس کی قدرومنزلت اور ثواب میں اضافہ ہوگا۔