تحفظ ختم نبوت اوراہل حق کی قربانیاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تحفظ ختم نبوت اوراہل حق کی قربانیاں
ابو طاہر حنفی، مظفر آباد
حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جہاں بہت سارے عقائد ونظریات، عزائم وافکار کااظہار واقرار ضروری ہے وہیں مسئلہ ختم نبوت کااقرارواظہار بھی ضروری ہے آقا نامدار تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی’’ ختم نبوت‘‘ کامسئلہ اسلامی عقائد ونظریات کاوہ بنیادی پتھر ہے کہ جس کے بغیر اسلامی عمارت کاقیام صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن اورمحال ہے۔
اگر ایک لمحہ کے لے بھی عقیدہ ختم نبوت سے چشم پوشی کر لی جائے توپورے کا پورا دین ایک افسانہ بن کر رہ جائے گا یہ عظیم الشان عقیدہ جس پرخود آقانامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی قسم کی نرمی اورچشم پوشی والاانداز اختیار نہیں فرمایابلکہ آپ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے لشکر اسلام کوروانہ فرمایایہ لشکر آپ کے وصال کے باعث چند ہی منزلوں پر رُک گیااورجلیل القدر صحابہ کرام نے جانشین رسول خلیفہ اول بلافصل سیدناصدیق اکبر سے اس لشکر کو واپس مدینہ بلوانے کی درخواست اورتحویزدی توجانشین پیغمبر سیدنا صدیق اکبر نے جواب میں وہ تاریخی کلمات ارشاد فرمائے جن سے ان کی جلالت وعظمت اوراعلیٰ ایمانی کیفیت کااندازہ ہوتاہے آپ نے ارشادفرمایا۔
’’واللہ ! میں ہرگز اس لشکر کوواپس نہیں بلائوں گا جس لشکر کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایاہو چاہے مدینہ کے جنگلی درندے ہی کیوں نہ آکرمجھے نوچنے لگ جائیں۔ ‘‘
مسئلہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جہاں تک قربانی دینے کی بات ہے توتاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ مسیلمہ کذاب کے مقابلہ میں برپاہونے والی جنگ (جس کوجنگ یمامہ کے نام سے یاد کیاجاتاہے)میں ہزاروں صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیاجن میں ساڑھے سات سو وہ صحابہ کرام تھے جوقاری القرآن کہلاتے تھے۔
الغرض! عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جب بھی جانی، مالی قربانی کی ضرورت پڑی تو جانثاران ختم نبوت نے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیایہی وجہ ہے کہ جب مسیلمہ پنجاب مرزا غلام احمدقادیانی نے انگریزی حکومت کے ایماء پر جھوٹی نبوت کادعویٰ کیا اور انگریزی حکومت کے تعاون سے مسلمانوں کے گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی اورختم نبوت کے اہم اورعظیم الشان منصب پر حملہ آور ہوکر جہنم کاایندھن بنااورمسلمانان ہند کے مذہبی جذبات کومجروح کیاتوقافلہ اہل حق اس کے مقابلے میں آگیااوراس فتنہ کی سرکوبی کے لیے سینہ سپر ہو گیا۔
تحفظ ختم نبوت کی خاطر جانثاران ختم نبوت کوکٹھن مراحل اورمشکل حالات سے گزرنا پڑا لیکن اللہ نے کامیابی وکامرانی ان کے مقدر میں لکھ دی تھی اس قافلے کوسید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت حاصل تھی امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے نڈرانسان اس قافلے کے قائد تھے مولانامحمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ مولانامحمدیوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ جیسے علم و عمل کے پیکر اس کارواں کے شہسوارتھے۔
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مشکلات ومصائب اور قربانیوں کایہ سفر طے ہوتا رہا یہاں تک کہ لاہور کی سٹرکیں شمع رسالت کے پروانوں کے خون سے رنگین ہوئیں مگر قافلہ حق کی رفتار میں کمی نہ آئی ختم نبوت کایہ کاروان بلند ہمتی اورحوصلہ مندی کے ساتھ منزل مقصود کی طرف بڑھتا رہا بڑھتا رہا … بالآخر مفکر اسلام مولانا مفتی محمودرحمۃ اللہ علیہ اور مجاہد اسلام مولاناغلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں یہ کارواں پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہنچ گیا… سات اکتوبر 1974ء کو نوے سال کی عظیم جہد مسلسل اور شہداء کاخون رنگ لایااورمنکرین ختم نبوت قادیانیوں کو امت مسلمہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جداکردیا گیااور اس بات کااعلان کیاکہ’’ قادیانیت جدا مذہب ہے اسلام جدامذہب ہے قادیانیت کااسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی فتنہ سر اٹھاتاہے اوراسلام کی اصلی شکل کوتبدیل کرنے کی کوشش کرتاہے اس فتنے کاسرکچلنے کے لیے جب کوئی اہل حق کاقافلہ میدان میں آتاہے تواس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اسے بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں باطل کاتعاقب کرنے والوں کو جھگڑالو، تشدد پسند، فرقہ واریت کے علمبردار اورتنگ نظر گروہ کے القابات دے کر اپنامشن وموقف ترک کرنے پرمجبور کیا جاتاہے لیکن اہل حق کا قافلہ باوجود اس کے صراط مستقیم پرگامزن اوردین اسلام کی نشرواشاعت اور تحفظ شعائر اللہ میں مصروف عمل رہتاہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ قافلہ حق کی قربانیاں قبول فرمائے۔آمین
نماز اچھی روزہ اچھا حج اچھا زکوۃ اچھی
مگر باوجود اس کے میں مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا