ظہیر الدین محمدبابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دسویں قسط
ظہیر الدین محمدبابر
امان اللہ کاظم
کچھ عرصہ قبل خواجہ قاضی نے دولت بیگم کے ایماء پر بابرکے چچا سلطان احمد مرزا کی طرف جوچار رکنی وفد اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھاکہ( وہ یاتوبابرکواپناداماد سمجھتے ہوئے فرغانہ اس کو بخش دے یادوسری صورت میں اسے فرغانہ اپنے ایک باجگزارنمائندے کے طورپر سونپ دے) وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔ ادھرآخشی میں اپنے والد عمر شیخ مرزا کی تدفین کے بعد بابرمستقبل کے خیالات میں غلطاں و پیچاں اندرجان کی طرف لوٹ پڑا تھا۔سمندرکی سرکش وبے قرار موجوں کی طرح اس کے خیالات ایک دوسرے سے دست وگریباں تھے۔
اندرجاں پہنچ کربابرنے گرد ونواح کے معروضی حالات کا جائزہ لیااور امور سلطنت کی انجام دہی میں منہمک ہو گیا۔اس وقت اگرچہ وہ اپنی عمر کے بارھویں سال میں قدم رکھ چکا تھامگر سمجھ بوجھ اورمعاملہ سنجی کے اعتبارسے وہ اپنی طبعی عمرسے کہیں بڑا دکھائی دیتا تھا۔
بابر اپنے چچاسلطان احمد مرزا کے مزاج کو خوب جانتا تھا اسے معلوم تھاسلطان احمد مرزا فرغانہ پرشب خون مارنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ بنابریں وہ اندرجاں پہنچتے ہی چچاکی طرف سے مسلط کی گئی جنگ سے نبردآزما ہونے کے لیے فوجی تیاریوں میں منہمک ہو گیا
یہ بات بابر کے علم میں تھی کہ اندرجاں کی جنوبی سمت بہنے والادریااندرجان کے لیے ایک فصیل کا کام دیتا تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ہر وقت اس قدرکیچڑ موجود رہتا تھا کہ دشمن کا اسے عبور کر کے اندرجاں پرحملہ آور ہونااپنی جان کودائو پر لگانے کے مترادف تھا۔عمر شیخ مرزا کے حین حیات ایک مرتبہ سلطان احمد مرزا اس قسم کی حماقت کر بیٹھا تھا۔مگراسے بالآخر منہ کی ہی کھانا پڑی تھی اس مرتبہ بھی اگر اس نے اندر جاں پرشب خون مارنے کے لیے دریا کو عبور کرنے کی حماقت کی تو اسے اپنی فو ج کو ہلاکت میں ڈالنے کے سواکچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دریا کو عبورکرنے کیلیے اس پر صرف ایک ہی پل موجود تھا جس سے گذرکراندرجاں آیا جا سکتا تھا اس کے علاوہ اسے عبور کرنے کا اور کوئی ذریعہ موجودنہیں تھا۔
بابرنے کوئی وقت ضائع کئے بغیراپنی فوج کودریا کی طرف کوچ کا حکم دیے دیا۔ سلاخ قاسم اورحسن یعقوب کے علاوہ عمر شیخ مرزا کے دورکے کئی قابل اعتماد امیربھی اس کے ہم رکاب تھے۔ اپنی عدم موجودگی میں بابرنے خواجہ قاضی کواندرجاں میں اپنے نائب کے طورپرچھوڑا تاکہ وہاں وہ شہر کے نظم ونسق کوقائم رکھے۔
دریاکے ساحل سے کچھ فاصلے پربابرنے اپنی فوج کو خیموں کی تنصیب کاحکم دیا اور اسے یہ ہدایت بھی کی کہ ساحل اورخیموں کے درمیان ایک بڑاسا میدان رزم گاہ کے طور پر چھوڑ دیا جائے اس کے ساتھ ہی تیراندازوں کاایک دستہ دریا پر موجود اکلوتے پل کی نگرانی پر مامورکر دیا۔
قاسم سلاخ اورحسن یعقوب بڑے پرجوش نظرآرہے تھے ادھر ادھرگھوم پھرکرخیموں کی تنصیب کی نگرانی کر رہے تھے۔ دریا کا دوسرا کنارہ ابھی تک بھائیں بھائیں کر رہاتھا سلطان احمد مرزا کی فوج کا دور دور تک کوئی نشان نہیں مل رہا تھا۔ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں تھاکہ خطرہ ٹل گیا تھا
کئی دنوں تک دوسراکنارا ویران رہا مگر ایک دن…ایک دن سورج ابھی نمودارہی ہوا تھاکہ دوسرے کنارے پربہت دورسے گرد وغبار اڑتاہوا دکھائی دیا۔ یہ اس بات کاواضح اشارہ تھا کہ سلطان احمد مرزا حسب توقع بھاری فوج کے ساتھ آن پہنچا تھا۔
بابری فوج کے سردار بڑے انہماک اورتجسس سے غنیم کے لشکریوں کو دیکھ رہے تھے جو خیموں کی تنصیب میں منہمک تھے۔ خواجہ قاضی کے سلطان احمد مرزا کی طرف بھیجے گئے قاصد ابھی تک نہیں لوٹے تھے اورنہ ہی اب تک ان کے لوٹنے کی کوئی وجہ معلوم ہو سکی تھی۔
سورج ابھر اچڑھا ڈھلا اور پھر ڈوب گیاکچھ ہی دیرمیں اندھیرا اتر آیا۔ دریاکے دونوں کناروں پرتاحد نظر آگ کے الاؤ جل اٹھے۔ حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے مہیب اندھیرے کوچیر نے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ لوگ حوائج ضروریہ سے فراغت حاصل کر کے ٹولیوں کی صورت میں آگ کے الائوں کے گرد بیٹھ کرخوش گپیوں میں مصروف نظر آنے لگے۔ کچھ منچلے نوجوان اِدھر اُدھر پھدکتے پھر رہے تھے۔ جوں جوں رات ڈھلتی چلی گئی الائوں کے گرد جمی محفلیں بھی جمی برف کی طرح پگھلتی چلی گئیں۔ اب صرف پہرے داروں کی’ ’جاگتے رہنا‘‘کی آوازیں ہی کبھی کبھی سنائی پڑنے لگیں۔
دریاکے دونوں کناروں پرخیموں کے شہربسے ہوئے تھے۔ صبح ہوئی توزندگی ایک مرتبہ پھر جاگ اٹھی دونوں طرف کے چاق وچوبند فوجی نوجوان بڑے پرجوش نظر آ رہے تھے۔ بابر کے گردا گرد اس کے امیروں اور مشیروں کی محفل جمی ہوئی تھی جنگی معاملات پربحث وتمحیص کاسلسلہ جاری تھا۔ خواجہ قاضی کی طرف سے سلطان احمدمرزا کی طرف بھیجے جانے والے قاصدوں سے متعلق بھی گفتگو کاسلسلہ چل نکلا توحسن یعقوب کہنے لگا:
’’اب تک انہیں آجاناچاہیے تھا۔ سلطان احمدمرزا جیسے لوگوں سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ اس نے انہیں بندی خانے میں ڈال دیاہو۔ ورنہ وہ خواجہ قاضی کی پیشکش کاکوئی نہ کوئی جواب لے کرلوٹ آتے۔‘‘
سلاخ نے حسن یعقوب کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ’’ مجھے قوی یقین ہے کہ سلطان احمد مرزا اس حد تک نہیں گِرسکتاکہ وہ شاہی قاصدوں کو قید کرلے۔‘‘
ابھی سلاخ کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک غلام دوڑتاہواآیااواس نے کہا۔
‘ ’دریاکے پل کی نگرانی پرمامورسپاہیوں کاکہناہے کہ چارگھڑسوار پل کی جانب بڑھتے چلے آ رہے ہیں شایدکہ وہی شاہی قاصد ہیں جنہیں محترم خواجہ قاضی نے سلطان احمدمرزا کی طرف بھیجا تھا۔‘‘
سلاخ، حسن یعقوب اورقاسم شاہی خیمے سے باہر نکلے اورپل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ ابھی کچھ ہی دورگئے تھے کہ انہیں چارگھڑسواراپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دے۔ وہ قریب پہنچے تومعلوم ہواکہ یہ وہی چارلوگ تھے جنہیں خواجہ قاضی کے پیغام کے ساتھ سلطان احمدمرزا کی طرف بھیجاگیاتھا۔پس انہیں فی الفوربابرکے خیمے تک لے جایاگیا۔ان چاروں کی ہئیت کذائی سے یہ لگ رہاتھا کہ ان کے پاس سنانے کے لیے کوئی اچھی خبر نہ تھی۔ ان کے لٹکے ہوئے چہروں پر ناکامی کی داستان رقم تھی جسے چہر ہ شناس لوگ باآسانی پڑھ سکتے تھے۔اگرچہ پوچھنے کے لیے اب کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی مگر حسن یعقوب نے بالآکرپوچھ ہی لیا:
’’یونہی گُم صُم کھڑے رہوگے یامنہ سے کچھ پھوٹوگے بھی! ! ! ؟ صاف صاف بتائو کہ خواجہ قاضی کے بھیجے گئے پیغام کاسلطان احمد نے کیاجواب دیا؟
وفد کے سربراہ نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا:۔
’’سلطان احمدمرزا تومائل بہ کرم تھا مگر اس کے امیروں نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ وہ لوگ دولت فرغانہ کے خلاف ادھارکھائے بیٹھے تھے گویاکہ انہیں عمرشیخ مرزا اوراس کے خانوادے سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ انہوں سلطان احمد مرزا کوانگیخت کیاکہ اگر عمر شیخ مرزا زندہ ہوتا تو اور بات تھی مگراب ایک بارہ سالہ لڑکے کو فرغانہ کاوالی مان لیناقرین مصلحت نہیں ہے۔ عمرشیخ مرزا کی موت نے ہماراکام بہت آسان کر دیاہے بابرجیسے کچی عمر کے لڑکے کو ہمارے مقابلے میں تاب مقاومت کہاں ہے؟ اس سے پہلے کہ خاقانِ اعظم فرغانہ پرشب خون مارے ہمیں اس پرقبضہ کر لینا چاہیے۔ اگر ہم نے مصلحت آمیزی سے کام لیاتوپھرسوائے پچھتاوے کے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ صحیح وقت پرصحیح فیصلہ کرناہی دانش مندی ہے جولوگ وقت کاساتھ نہیں دیتے وقت بھی ان کاساتھ نہیں دیتا۔ ہم نے دیکھاکہ سلطان احمد مرزا اپنے امراء کے سامنے بے بس دکھائی دے رہاتھابالآخر اس نے ہمیں ٹکاساجواب دے دیا۔‘‘
قاصد خاموش ہوا تو بابرنے دیکھاکہ اس کے امراء کچھ بجھے بجھے سے اورپژمردہ دکھائی دے رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے اس کامتھاٹھنکا مگر فوراً ہی اس نے اپنی دلی کیفیت پرقابو پا لیا اور پھربڑے تحمل کے ساتھ اپنے امراء سے یوں مخاطب ہوا۔
’’کیاتم بھی سلطان احمدمرزا کے درباریوں کی طرح ہی سمجھتے ہوکہ ایک بارہ سالہ لڑکا وادی جنت نظیر فرغانہ کادفاع کیونکرکرے گا جب کہ اس کے دائیں بائیں دوطاقت ورغینم اس کا تیا پنچاکرنے کے لیے بالکل تیاربیٹھے ہیں۔ یہ مانا کہ ہماری عسکری قوت ان کے مقابلے میں ہیچ ہے مگرجنگیں صرف عسکری قوت کے بل بوتے پرنہیں جیتی جاتیں بلکہ قوت ارادی عزم صمیم اورجرات مردانہ جیتنے کاباعث بنتی ہیں۔
کیاتم بھول گئے ہوکہ چنگیزخان جیسے نوسالہ بچے نے کہ جس کی عسکری قوت صرف چار چھوٹے چھوٹے بچے تھے ترغاطائی طاقتورغنیم کہ جس کے پاس تیس ہزاروحشی نفوس پر مشتمل فوج تھی ناکوں چنے چبوادیے تھے ترغاطائی سمجھتاتھاکہ وہ ننھے منھے چنگیز خان کو چیونٹی کی طرح اپنے پائوں تلے مسَل دے گامگر چنگیز خان کی قوت ارادی نے ترغاطائی کو وہ دن دکھایاکہ جب وہ چنگیز خان کے پائوں کے تلوے چاٹ رہا تھا۔چنگیز خان کی طرح ہمیں بھی اپنے حوصلے بلند رکھنے چاہییں۔ سلطان احمد مرزا کی جارحانہ یلغارہماراکچھ نہیں بگاڑسکتی۔‘‘
حسن یعقوب اچانک کھڑا ہو گیا اوراس نے امراء کوغیرت دلاتے ہوئے کہا:۔
’’اگر ہم آج اپنے بارہ سالہ سلطان کااس نازک وقت میں ساتھ نہیں دیں گے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے لیے بھی بظاہر اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘
والی فرغانہ کے دربارکے سواہمیں اورکوئی ایسادربارنظر نہیں آتاکہ جہاں ہم اسی شان اور آن بان کے ساتھ زندگی گزارسکیں کہ جس شان کے ساتھ ہم یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ تو ہماری جگہ سلطان احمدمراز کے دربارمیں ہوگی اورنہ ہی خاقان اعظم کے دربار میں۔ کیونکہ ان کے درباری ہمیں ان کے پاس تک نہیں بھٹکنے دیں گے لہذا ہماری زندگی ہماری موت ہماراعزوشرف اور ہماری عزت وناموس صرف اورصرف والی فرغانہ کے دربار ہی سے وابستہ ہے سلطان بابرکایہ کہنا عین سچ ہے کہ جنگیں صرف عسکری قوت کے بل بوتے پرنہیں جیتی جاسکتیں۔ آئو! آج ہم عہد کریں کہ ہم اپنی آخری سانسوں تک اپنے مادر وطن کا دفاع کریں گے ہم غنیم کو بتا دیں گے کہ جس دیس کے جوانوں کی خودی مانند فولاد ہوتی ہے اسے دنیاکی کوئی طاقت زیر نہیں کرسکتی۔‘‘
پہلے بابراوربعد ازاں حسن یعقوب کی جوشیلی تقریرنے مردہ دل امراء کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیداکر دیااورسب حاضرین نے بیک زبان کہاکہ’ ’وہ سلطان احمد مرزا اوراس کی فوج کو دریا عبور نہیں کرنے دیں گے۔ ہم ہرقیمت پرمادر وطن کادفاع کریں گے۔ اپنے خون کا آخری قطرہ اپنے مادر ِوطن پرنچھاور کریں گے۔دریاکی دلدلی تہ جارج فوج کامدفن ثابت ہوگی۔
[جاری ہے]