بہو کی ذمہ داریاں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بہو کی ذمہ داریاں
پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
بہو کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس آنے والی لڑکی نے بھی بہت ساری باتوں کاخیال رکھنا ہوتا ہے۔ وہ ایک نئے گھر میں آئی ہے اور اس نئے گھر میں اسے اپنی حیثیت منوانے کے لیے یقینا بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔
ساس کو اپنی دشمن نہ سمجھے!
بہو ہمیشہ ایک موٹی سی بات یہ سوچے کہ ساس اگر میری دشمن ہوتی تو مجھے اپنے گھر میں لاتی ہی کیوں ؟ جب اس نے مجھے اپنے بیٹے کے لیے پسند کیا اوربہو بناکرلائی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ میری دشمن نہیں بلکہ میری محسنہ ہے اس کا میرے اوپر احسان ہے کہ اتنا اچھا بیٹا ذمہ دار اور سمجھ دار اس کے لیے اس نے مجھے بیوی کے طور پرمنتخب کیا۔ اگر وہ’ ’نہ’ ‘کر دیتی تویہ رشتہ نہ ہو سکتا، اگر یہ رشتہ ہواہے تو اس میں ساس کامیرے اوپر احسان ہے جب بہو ذہن لے کرآئے گی کہ ساس میری محسنہ ہے تو یقینا وہ گھر میں آکر اس ساس کوساس نہیں سمجھے گی بلکہ اپنی ماں سمجھے گی اور ماں کے سمجھنے سے ہی سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔
ماں بیٹے کی محبت میں کمی نہ آنے دے:۔
پھربہو کویہ بھی ذہن میں رکھناچاہیے کہ میرے آنے سے پہلے یہ ہنستا بستا گھر تھا، ماں تھی، بیٹی تھی، بیٹا تھا، خاوند تھا، آپس میں محبت پیار سے رہ رہے تھے اس بیٹے کوماں نے محبتوں سے پالا، یہ ماں کے ساتھ اتنا زیادہ Attach(مانوس)تھا، اب میں اس گھر میں نئی آئی ہوں تو اس بیٹے کو اپنی ماں سے الگ نہیں کرنا، مجھے اس بیٹے کواپنی ماں سے دور نہیں کرنا، میرے خاوند کے لیے یہ جنت ہے۔ اس کے قدموں میں اللہ رب العزت نے میرے خاوند کے لیے جنت بنائی ہے۔ لہذا میں نے ہمیشہ ان کو Respect (عزت) دینی ہے اور ان کی خدمت کومجھے اپنے لیے سعادت سمجھنی ہے، جب بہو یہ سمجھے گی تو یقینا وہ ماں بیٹے کی محبت میں کیل نہیں ٹھونکے گی، وہ بوڑھی ساس کوستائے گی نہیں۔
بلکہ اگر خاوند اس کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارے اور اپنی ماں اوربہن بہت ہی چھوڑے رہے تو بہو کویہ چاہیے کہ اپنے خاوند کوسمجھائے کہ اپنے ماں باپ کوIgnore(نظر انداز) کرنااچھانہیں ہوتا۔ اگر اس کاسگا بھائی اپنے ماں باپ سے لاپرواہی برتتا تو اس کو کتنا برا لگتا اب اس کاخاوند اگرماں باپ کو Ignore(نظرانداز)کررہاہے توپھر اس کوکیوں اچھا لگتا ہے؟ تو بیوی کوچاہیے کہ وہ بھی یہ بات سمجھائے، تاکہ اس کاخاوند ماں باپ کے ساتھ وہی محبتیں رکھے جو شادی سے پہلے تھیں۔
ساس سے لاپرواہی نہ برتے:۔
کئی جگہوں پردیکھا،ساس بوڑھی ہے نند گھر میں نہیں توپھر بہوگھرآتے ہی شیرنی بن جاتی ہے اور ساس کو ignore کرناشروع کردیتی ہے۔
کئی جگہوں پر ہمیں یہ خبر ملی کہ ساس کواپنے وقت پرکھانا بھی نہیں دیاجاتا۔ بس خاوند کو قابو کر لیتی ہیں اوراس کے بعد ساس کوایک بڑھیا سمجھ کرکمرے کے ایک کونے میں پڑی رہنے دیتی ہے۔ یہ چیز انتہائی بری ہے شریعت نے ساس اور سسر کوماں اورباپ کودرجہ دیاہے آنے والی بہو یہ سوچے کہ اگر اس بوڑھی عورت کی میں خدمت کروں گی تومیں اپنے خاوند کوبھی راضی کروں گی اپنے خداکوبھی راضی کروں گی۔ اب اس کے لیے اپنی ساس کی خدمت کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔
ساس کادل خوش کرنے کی کوشش کرے:۔
بہو کوچاہیے کہ ایسے مواقع تلاش کرے کہ وہ اپنی ساس کادل خوش کرسکے، بعض کام بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کوPersonal attention(ذاتی توجہ)دی جائے تو دوسرے بندے کے دل میں جگہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طورپر: اگر ساس کوئی میڈیسن استعمال کرتی ہے تو وقت کے اوپر اس کومیڈیسن دے دینا، احتیاطی کھاناکھاتی ہے تووہ بناکردے دینا، وضو کاپانی گرم کرکے دے دینا، مصلی بچھا کر دینا، یہ ان کے چھوٹے چھوٹے کام ہوں گے لیکن جب بہو ان کاموں کو کرے گی تو وہ سمجھے گی کہ یہ بہو نہیں میرے گھر کی بیٹی ہے تو یقینا ساس کا رویہ بہو کے ساتھ ماں جیسا ہوجائے گا۔ یہ بہو کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نئے گھر میں جا کر ساس کے دل میں اپنی جگہ بنائے۔ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے کاموں سے انسان دوسرے کا دل موہ لیتاہے چنانچہ ایسے مواقع کوتلاش کرناچاہیے کہ جس سے انہیں یہ محسوس ہوکہ یہ بیٹی بن کر ان کی ذاتی خدمت کوبھی اپنی سعادت سمجھتی ہے۔
ساس کے تجربات سے فائدہ اٹھائے:۔
بلکہ بہوکو چاہیے کہ کوئی بھی کام کرناہوتو ساس کے تجربہ سے فائدہ اٹھائے بلکہ اس سے مشورہ کر لیاکرے۔ یہ سوچے کہ اگر میں اپنی ساس امی سے پوچھ کر، مشورہ کرکے کام کروں گی تو یقینا میں غلطیاں کم کروں گی، جب بغیر مشورہ کے کام کروں گی تو کوتاہیاں زیادہ کروں گی۔ لہذا ساس کے مشورہ سے کام کرناچاہیے۔ اس کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے بلکہ اس کے تبصرہ سے سبق سیکھناچاہیے کہ میں نے ایسے پکایا اوردسترخوان لگایا، اورمیری ساس نے ایسے کہاتواچھا میں نے آج کے بعد ایسے نہیں کرنا۔
ساس کوہر اناماں کوہرانے کے برابرسمجھے:۔
اور ایک بڑی اہم بات یہ کہ اگر کھینچا تانی کا ماحول بن گیااوریہ بہو جیت بھی گئی تویہی سمجھے کہ میں اپنی ماں کوہر ا چکی ہوں۔ جب بہو نے یہ ذہن میں رکھاکہ اس کھینچا تانی میں ساس کو ہرانے کامطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی ماں کو ہر ا دیا تو پھر اس کی عقل ٹھکانے رہے گی اور اس کھینچا تانی کے ماحول کونہیں بننے دے گی۔
خاو ند سے ساس نند کی برائیاں ہرگز نہ کرے:۔
چغل خوری سے بچے۔ خاوند کے سامنے اس کی ماں اوربہن کی چغلیاں کرنا، اللہ رب العزت کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ اگر وہ گھر کے اندر کوئی کمی کوتاہی دیکھے بھی سہی تو خاوند کے سامنے ساس اورنند کی برائیاں نہ کرے۔ اس کویہ نہ بتائے کہ آپ کوکیاپتہ کہ آپ کی بہن کیا ہے؟ کیا کرتی ہے؟ بھائی کے ذہن میں بہن کے بارے میں کوئی اس قسم کی بات بٹھانااوراس کا تاثر خراب کرنا، اس سے کسی صریح گناہ کواس طرح پیش کردینا کہ بھائی کے دل سے بہن کی محبت ہی نکل جائے، شرعا ًیہ بھی جائز نہیں ہے۔ اگر یہ اس گھر میں کوئی کوتاہیاں دیکھتی ہے توبہو کو چاہیے کہ یہ بھی دل بڑاکرے نہ میکے میں بتائے نہ اپنے خاوند کو بتائے۔ تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ اپنے گھر میں Adjust(سیٹ)ہو جائے گی تو پھر اللہ رب العزت اسے موقع دیں گے، یہ ماحول کو بھی اچھا بنا لے گی اور یہ گھر کے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بھی پیدا کر لے گی چنانچہ اس کوچاہیے کہ یہ ابتدائی دنوں میں خاموش رہے بس جودیکھے اپنی زبان کو بند رکھے۔ یہ بات سو فیصد سچی ہے کہ گونگی اوربہری بہو سے کوئی بھی لڑائی نہیں کرتا۔ہرکوئی اپنے آپ کوامن میں سمجھتاہے۔ تو اس بچی کوابھی چاہیے کہ ابتدائی چند دنوں میں گونگا اوربہرابن کر گزار لے تاکہ دوسرے بندے اس کے اخلاقیات کے معترف ہوسکیں۔
خاوند سے الگ مکان کامطالبہ نہ کرے:۔
خاوند کو ہر گز نہ کہے کہ مجھے الگ مکان چاہیے یایہ کہ مجھے میکے چھوڑ کر آئو ! اپنی طرف سے کوشش یہی کرے کہ میں نے اس آباد گھر کو آباد رکھناہے…ہاں وقت سے ساتھ ساتھ اللہ کا بنایا ہوا ایک نظام ہے ایک بچے کی شادی ہوتی ہے پھر دوسرے بچے کی ہوتی ہے ایک بچے کا الگ گھر بنتاہے پھر دوسرے کاالگ گھربنتاہے۔ توآنے والے وقت میں الگ گھر تو ہرایک کا بننا ہی ہوتا ہے اورنہیں توساس بوڑھی ہوتی ہے جب وہ قبر کاکونہ جاکر آباد کرتی ہے توبہو کاویسے ہی الگ گھر بن جاتاہے تو اس بارے میں بہو کو اتناپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سمجھے کہ جتنا خدمت کو موقع اللہ نے مجھے دیامیں اس سعادت سے اپنے آپ کوکیوں محروم ہونے دوں ؟ تواس طرح گھر کے لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔
خاوند سے جھگڑا نہ کرے:۔
کئی دفعہ ایسا ہوتاہے کہ ساس کی وجہ سے یانند کی وجہ سے بہو تنگ ہوتی ہے تووہ اپنے خاوند کو شکایت لگاتی ہے اورخاوند کہتاہے کہ اچھا ٹھیک ہے کوئی نہ کوئی بندوبست کریں گے۔ مگر یہ اپنے خاوند کے ساتھ بھی الجھنا شروع ہوجاتی ہے خاوند کے ساتھ جھگڑا کرنا بیوی کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے اس سے بڑی غلطی بیوی اپنی زندگی میں نہیں کرسکتی کہ جواس کے سرکاسایہ ہے سپورٹ ہے اس کی تقویت کا سبب ہے اس کی عزت کی نگران ہے اسی بندے کے ساتھ جھگڑا شروع کر دے۔
توبہو کی کوتاہیوں میں سے یہ ایک بڑی کوتاہی ہوتی ہے کہ معاملات تو ساس اور نند خراب کر رہے ہیں اور یہ اپنے خاوند کے ساتھ منہ بسور کے اورروٹھ کے بیٹھ جاتی ہے اب خاوند ابتدائی شادی کے دنوں میں محبت پیار کے موڈ میں ہوتاہے اوربیوی صاحبہ نے شکل بنائی ہوتی ہے تو الٹا خاوند کے دل میں بھی یہ اپنے لیے جگہ کم کر بیٹھتی ہے یہ غلطی بھی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
تنقید کوصبر سے برداشت کرے:۔
بہو کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ میں اس گھر میں نئی آتی ہوں اوریہ نئی چیز کو آزمایا اور پر کھا جاتاہے یہی بہو اپنے لیے سونے کازیور خریدتی ہے توکتنا پرکھتی ہے توگھر میں ایک نیاانسان آیا ہے توہر بندہ اس کودیکھے گا جانچے گا کہ یہ کیسے بیٹھتااٹھتاہے؟ کیسے بولتا ہے؟ کیسے اس کی زندگی کے شب وروز ہیں تووہ اس بات کوسمجھے کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھے نظر سے دیکھاجائے گا؟ اور اگر کوئی بات گھر کے لوگ میرے بارے میں کردیتے ہیں تویہ غلط فہمی ہوتی ہے۔
پھر یہ بھی سمجھے کہ ساس عمر میں زیادہ ہے اور جتنی عمر زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی بندے میں تنقید کا مادہ بھی زیادہ ہوجاتاہے اورچڑ چڑاپن بھی زیادہ ہو جاتا ہے لہذا اس چڑچڑے پن کوعمر کا تقاضا سمجھے۔ یہ بھی سوچے کہ گھر میں جب میں غلطی کرتی تھی تو اگر سگی ماں کا تھپڑبھی برداشت کر لیتی تھی توکیا اس کاسمجھانابرداشت نہیں کرسکتی ساس کے سمجھانے پربھی اس کو غصہ آجاتاہے تویہ بھی ایک کوتاہی ہوتی ہے۔
شوہر کے مال پرفقط اپناحق نہ جتائے:۔
کئی مرتبہ بہو یہ سمجھتی ہے کہ خاوند جو کما رہا ہے وہ تو بحیثیت بیوی میرا حق ہے۔ اب یہ ماں باپ اور بہنیں سب کااس کے کندھوں پر کیوں بوجھ پڑگیا؟ تو اس میاں کے کندھوں پہ یہ بوجھ پہلے سے تھااب تونہیں پڑا۔ یہ آنے والی لڑکی کی غلط بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ماں باپ کو اس کے سر کابوجھ سمجھے۔ یہ وہ رشتے ناتے ہیں جن کو نبھانا ہوتاہے۔ شادی کے بعد یہ تو نہیں ہو جاتا کہ بندہ ماں کو بھول جائے، بہن کوبھول جائے، باپ کو بھول جائے، تولڑکی یہ غلطی کبھی بھی نہ کرے کہ اپنے گھر کے ان افراد کو اپنے خاوند کے سر کا بوجھ سمجھے۔
سسرال میں میکے کے فضائل نہ بیان کرتی رہے:۔
پھر ایک غلطی یہ بھی کرتی ہے کہ سسرال کے گھر میں جوخوشی اورغمی ہوتی ہے اس میں برابر کی شریک نہیں ہوتی پیچھے پیچھے رہتی ہے تو جب ان کی خوشی اورغمی میں برابر کی شریک نہیں ہوگی تو صاف ظاہر ہے کہ پھر ان کوآپ پر اعتراض کاموقع ملے گا۔
دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہے:۔
نئے گھر میں آکر لوگوں کے حالات کی ٹوہ میں لگے رہنا، تجسس میں رہنا کہ میری نند کہاں سے آتی ہے؟ کہاں جاتی ہے؟ کس کے فون آتے ہیں کسی سے اس کاتعلق تو نہیں ؟ نندیں کیسے کیسے کپڑے پہنتی ہیں ؟ میری ساس کیاکرتی ہے؟ میرا سسر کیا کرتاہے؟ ساس اور سسر کے درمیان جھگڑے تو نہیں ؟ اس قسم کی ٹوہ میں آتے ہی لگ جانا انتہائی برا کام ہوتاہے یہ شرعا بھی حرام ہے قرآن کریم میں ہے: وَلَاتَجَسَّسُوْا (تجسس میں نہ پڑو]
دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانایہ عقل مندی نہیں ہوتی اپنے کام سے کام رکھے’ ’تجھ کو پرائی کیاپڑی اپنی نبیٹر تو‘‘
اور کئی دفعہ یہ غلطی بھی دیکھی کہ اگر ان کو نند وغیرہ کی کچھ اونچ نیچ معلوم ہوجاتی ہے توپھر اپنے میکے فون کرکے فوراً پیغام پہنچاتی ہیں۔ بلکہ کئی مرتبہ اپنی ناراضگی کابدلہ اسی طرح لیتی ہیں۔ مثال کے طورپرنند سے رنجش تھی، اب اس کے رشتہ کی بات جو چلی توجو رشتہ والے آتے ہیں ان کی عورتوں کو فون کرکے اس کے بارے میں بتادیتی ہے کہ وہ تو بہت ہی نکھٹو ہے بہت ہی کام چور ہے بہت ہی ضدی ہے اس کو تو کام کرنا نہیں آتا۔ یااس سے بھی بڑی بات کردی کہ مجھے تولگتا ہے کہ اس کے کسی سے کسی کے ساتھ افئیرزہیں۔
اب اس طرح کی باتیں کرکے نند کے مستقبل کو خراب کرنااور اس سے بدلہ لینا اس سے بڑی نالائقی اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگربہو گھر میں رہ کرایسا کام کرے گی تو یقینا اپنا گھر برباد کرنے والی بات کرے گی۔ دوسروں کے حالات کی ٹوہ میں رہنا اور دوسروں کے سامنے ان کے عیبوں کو کھولنا، شریعت نے اس چیز سے منع کردیا ہے۔
دوسروں پررعب چلانے کی بجائے دل جیتنے کی کوشش کرے:۔
کئی دفعہ یہ بھی دیکھاکہ بہو جب گھر میں آتی ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ میں توبڑے بھائی کی بیوی ہوں لہذا اب یہ میری نند جو ہے یہ تومیری خادمہ ہے اس پر رعب چلاتی ہے نند پررعب چلانے سے پہلے اس کے دل کوجیتنا انتہائی ضروری ہوتاہے۔
بس یہ ہر ایک کے ساتھ محبت پیارکا تعلق رکھے اور اپنے خاوند کوپرسکون زندگی دے۔ بہو کویہ بات سوچنی چاہیے کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں شادی کرنے کابنیادی مقصد فرمایا (لِتَسْکُنُوْااِلَیْھَا) تاکہ تمہیں اپنی بیویوں سے سکون ملے۔ توجو بیوی اپنے خاوند کو سکون دے ہی نہیں سکتی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو اپنے میاں کوجھگڑوں میں الجھا لینا ہر وقت اس کے سامنے یہی باتیں چھیڑ کر بیٹھ جانا انتہائی نالائقی ہوتی ہے۔
بیوی کوچاہیے کہ اپنے خاوند کوایسا پرسکون ماحول دے کہ دفتر اوردکان پر بیٹھے ہوئے بھی اس کا جی چاہیے کہ میں ابھی اپنے گھر چلا جائوں یہ نہ ہو کہ دفتر میں بیٹھاہوا ایک کے بعد دوسری فائل کھول رہاہو اور کام کرنے والے لوگ بھی پریشان کہ آج صاحب گھر ہی نہیں جا رہے اور کوئی پوچھے کہ جی گھر کیوں نہیں جاتے؟ تومیاں بتائے کہ وہاں جاکر جوہوناہے اس کومجھے پتہ ہے میں چاہتا ہوں کہ کچھ وقت اور یہاں گزر جائے تواچھاہے تو گھر کے ماحول کوایسا بھی نہیں بنانا چاہیے کہ خاوند گھر میں آ کر الٹاپریشان ہو جائے۔