مواعظ متکلم اسلام

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
مواعظ متکلم اسلام
مرتب:مولانامفتی محمد حارث دامت برکاتہم
استاذ الحدیث جامعہ رحمانیہ جدید دکن منڈی بہائوالدین
خطبہ مسنونہ: اعوذباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَااَنْتَ مَوْلٰنَافَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo
[البقرہ]
اللہ رب العزت دنیاکی تمام چیزوں کے’ ’خالق‘‘ اور’’ مالک‘‘ ہیں۔ عدم سے وجود میں لانے کو’ ’تخلیق‘‘ کہتے ہیں اور تخلیق کرنے والے کو خالق۔ مختلف موجودات جوڑکر نئی شکل دینے کو’ ’ایجاد‘‘ کہتے ہیں اورایجاد کرنے والے کو’’موجد۔‘‘ اللہ جل شانہ’ ’خالق‘‘ ہیں : ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ ؛ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ اللہ جل شانہ مالک ہیں : وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ (جاثیہ)موجد بھی مالک ہوتا ہے اس کی ملکیت عارضی اور غیر حقیقی ہوتی ہے جیسے کار مختلف دھاتوں سے مل کر بنتی ہے اور بنانے والی کمپنی اس کی مالک ہوتی ہے لیکن جب وہ کمپنی کارکو بیچ دیتی ہے تو وہ کار کمپنی کی ملکیت سے نکل کر خریدارکی ملکیت میں آ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی مالک ہیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت دائمی اورحقیقی ہے جیسے اللہ الگ الگ چیزوں کے مالک ہیں اسی طرح جب ان چیزوں کو ملا کر نئی شکل دی جاتی ہے تب بھی وہ اللہ کی ملکیت میں ہیں۔ جب ایک شخص یا کمپنی کوئی چیز ایجاد کرتی ہے تو ساتھ استعمال کا طریقہ، ہدایات اور استعمال کی حد بھی بتاتی ہے اور اگر خرابی پیدا ہو جائے تو اس کا حل بھی بتاتی ہے کیا اللہ جل شانہ جو اشیاء کے خالق حقیقی ہیں ان کو حق نہیں کہ وہ ان اشیاء کے استعمال کا طریقہ اورحدود بتائیں ! ! ! !
جب کار بنانے والی کمپنی کارکی حد رفتار بتا سکتی ہے تواللہ جل شانہ آنکھ کے دیکھنے کی حد نہیں بتا سکتے؟ جس طرح دنیامیں ایجاد شدہ چیزوں کے ساتھ ہدایات کی فائل ہوتی ہے اسی طرح اللہ جل شانہ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن وحدیث کی صورت میں اپنی تخلیقات کے متعلق ہدایات دی ہیں کہ آنکھ سے کیا دیکھنا ہے کیانہیں۔ کان سے کیا سُنناہے کیا نہیں۔ پھر جب انسان ان ہدایات کے خلاف عمل کرے گا تو اللہ جل شانہ اس کے خلاف چار گواہ لائیں گے۔
1: زمین:یَؤْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا آج لوگ تعجب سے سوال کرتے ہیں کہ زمین کیسے بتائے گی! ! ! ! اس کاجواب یہ ہے کہ سی ڈی اورکیس! ! ٹ زمین میں موجود دھاتوں سے ملا کر بنائی جاتی ہیں اگر زمین سے باہر نکل کروہ ریکارڈنگ محفوظ رکھ سکتی ہے اور سُنا سکتی ہے تو زمین کے اندر رہ کر ریکارڈنگ کر لیں اورقیامت کے دن سنا دیں توکیا بعید ہے۔
2: اعضاء: یَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَااَیْدِیْھِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُھُمْ۔
اللہ جل شانہ قیامت کے دن زبان پر مہر لگا دیں گے اعضاء گواہی دیں گے بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اعضاء کیسے بولیں گے۔
سوال یہ ہے کہ زبان کیسی بولتی ہے کیا زبان کی زبان ہے؟ نہیں بلکہ یہ توگوشت کا لوتھڑا ہے اللہ جل شانہ اس سے الفاظ جاری کر رہے ہیں جس طرح زبان سے الفاظ اللہ جل شانہ جاری کراتے ہیں اسی طرح ہاتھ اور پائوں سے بھی الفاظ جاری فرمائیں گے۔
3: کراماً کاتبین: کِرَاماً کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ
(انفطار]
4: نامہ اعمال: وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ
(التکویر]
اگر قیامت کے دن یہ چار گواہ پیش ہوگئے تو بچنے کی کوئی صورت ہے؟ مگر اللہ جل شانہ کریم ہیں اورکریم اس ذات کوکہتے ہیں جو استحقاق سے بڑھ کر عطا کرے۔
اَلَّذِیْ یُعْطِیْ فَوْقَ الْاِسْتِحْقَاقِ
لطیفہ: حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایاکہ قرآن مجید میں اللہ کریم نے ارشادفرمایا:یَااَیُّھَاالْاِنْسَانُ مَا غَرَّ کَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ۔
تومیراجی چاہتاہے کہ میں اللہ کوجواب دوں۔
کَرْمُکَ،کَرْمُکَ کَرْمُکَ
اللہ جل شانہ خالق اور مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کریم بھی ہیں انہوں نے بہت آسان حل بتایا ہے کہ قیامت کے دن اِن چارگواہوں میں سے کوئی پیش ہی نہ ہو۔جس طرح سکول کے استاد طالب علم کو درخواست لکھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ان کوچھٹی دینے کا ارادہ ہوتا ہے نہ کہ چھٹی دینے کا ارادہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ جل شانہ حل بتا رہے ہیں تو ارادہ معاف کرنے کا ہے حل یہ ہے کہ توبہ کریں۔
توبہ کس کوکہتے ہیں ؟
1: گناہ کو چھوڑ دے۔ 2: گناہ پرنادم وپشیمان ہو۔ 3: آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ ہو۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع صغیر اسی طرح التشرف فی احادیث التصرف میں بھی ہے۔اِذَاتَابَ الْعَبْدُ……الخ
ضابطہ: جب بادشاہ کسی مجرم کو معاف کرتے ہیں تو ریکارڈ ضائع نہیں کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اتنے کریم ہیں جب معاف کرتے ہیں تو ریکارڈ بھی ضائع کر دیتے ہیں اللہ جل شانہ کے احکام کو پورا کرنے کے لیے فرشتے موجود ہیں : بارش اللہ برساتے ہیں مگر فرشتے کے ذریعے سے، روح اللہ قبض کرتے ہیں مگر فرشتے کے ذریعے سے۔ مگر گناہوں کوختم کرنے کی ذمہ داری فرشتوں کو نہیں دی۔ تاکہ اگر وہی انسان دوبارہ گناہ کرے تو فرشتے یہ نہ کہیں کہ کتنا گندا انسان ہے اس لیے گناہوں کوخود مٹاتے ہیں۔
قرآن کریم کی جوآیت میں نے ابتداء میں پڑھی ہے اس کامطلب مفتی بغداد علامہ آلوسی رحمہ اللہ تفسیر روح المعانی میں بیان فرماتے ہیں۔
[وَاعْفُ عَنَّا)اَیْ اِمْحِ آثَارَ ذُنُوْبِنَا بِتَرْکِ الْعَقُوْبَۃِ۔
[وَاغْفِرْلَنَا)اَیْ بِسَتْرِ الْقَبِیْحِ وَاِظْہَارِالْجَمِیْلِ
[وَارْحَمْنَا)اَیْ تَعَطُّفْ عَلَیْنَا بِمَا یُوْجِبُ الْمَزِیْدَ۔
[اَنْتَ مَوْلَانَا)اَیْ مَالِکُنَا وَسَیِّدُنَا۔ (
[روح المعانی جلد نمبر2 ص17]