نہ میں بد ظن نہ وہ بد گمان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نہ میں بد ظن نہ وہ بد گمان
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
تغیر کا زمانہ ہے آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو ملتی ہے جو سرتاپاانسان کو غمگین کر دیتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو کچھ عرصہ قبل پاکستانی شہریوں کے قتل کے جرم میں گرفتار کیاگیا۔ بعد ازاں صاحب بہادرامریکہ کی جانب سے مسلسل اس کی باعزت رہائی کے مطالبات رہے۔ اولاً تو پنجاب حکومت پر دبائو ڈالا گیا لیکن پنجاب حکومت نے کھل کر کہاکہ یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔ پھر وفاقی حکومت کے سامنے سفارشات پیش کی جانے لگیں اور…
اور…دیکھتے ہی دیکھتے ریمنڈ ڈیوس کو باعزت طور پر رہاکرکے خصوصی طیارہ کے ذریعے وطن بھیج دیاگیا۔ اس کا رد عمل کیاہوگا، یہ آنے والاوقت ہی بتلائے گا لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ حکومت عوامی رد عمل کا سامنے کرتے وقت اپنی کرسی بچالے تو یہ واقعی سیاست ہوگی۔ ایک طرف تو ملکی حالات اس حد تک نازک تو دوسری جانب ہماری کسمپرسی بھی مت پوچھیے، ہم نے اپنے مورچے جب نااہل ہاتھوں میں دئیے تو انجام بخیر نہیں ہوگا۔ اسی بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے اذا وسد الامرالی غیراہلہ فانتظر الساعۃجب معاملہ نااہل کے سپرد کردیاجائے تو پھر قیامت کا انتظارکرو۔
ہم نے اپنے جنگی ہتھیار…میڈیا کی جنگ میں …غیروں کے سپرد کررکھے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، لادین لوگ یاکہہ لیجئے کہ دین دشمن لوگ آج کھل کر اس میدان میں آئے ہوئے ہیں افسوس کہ ہمیں ابھی تک اس کا ادراک نہیں ہورہا…کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے چلاہے…
ورنہ ملا جیون رحمۃ اللہ کے زمانہ میں جب بادشاہ نے اہل اسلام کے عقائد ونظریات ان کی تہذیب وثقافت ان کے کلچر اور تمدن کو ختم کرنے کے لیے فوج کشی کا ارادہ کیا تو بادشاہ کو بتلایا گیا کہ بادشاہ کو یہ معلوم ہوناچاہیے کہ تیرے سپاہیوں کی تلوار اس مقام تک بعد میں پہنچے گی اور ملا جیون کا حکم اس کو پہلے فتح کر چکاہوگا۔
اکابرنے قلم کو تھاما تھا اور اس کا حق ادا کیا تھا۔ دشمن پر ان کی تلوار کا خوف تواپنی جگہ تھا ان کے حکم کی کاٹ بھی اس قدر تھی کہ ایک تحریر سے چرخ کہن کانپ اٹھتاتھا۔ حضورعلیہ السلام نے بھی علم کی حفاظت کا ذریعہ کتابت کو قرارردیاہے قید وا العلم بالکتابۃ علم کو محفوظ کرو تحریرکے ذریعے۔ آج قحط الرجال کے اس دور میں اچھا لکھنے والے کم ہورہے ہیں اس لیے ہمیں ان مسائل پر بھی ٹھنڈے دل سے غورکرناہوگا بلکہ غور وفکر کرنے کاوقت تو کب کا ختم ہوچکا۔ حضرت والا مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ نے اس کے تمام زاویوں کابغور جائزہ لے کر میڈیا میں اپنی ٹیم شامل کی تھی حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب المعروف استاد صاحب نے اس کو جس خوش اسلوبی سے پروان چڑھایا حقیقت یہ ہے کہ یہ استاد ہی کاکام ہے۔
حضرت استاد صاحب کے معتمد خاص برادرم محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور، مفتی محمد، مولانا محمد افضل، مولانا فیصل احمد، مولانا انور غازی، مولانا عدنان کاکاخیل، عزیزم مولانا عبدالمنعم فائز اور پوری ٹیم نے اس کونپل کو شجر سایہ دار بنانے کے لیے جس انتھک محنت کامظاہر ہ کیا ہے اسے حضرت والا کے اخلاص کے علاوہ دوسرا نام دینا ناانصافی ہوگی۔
میرے بارے میں ملک بھر میں ایک طبقہ جومسلکاً (اہل السنۃ والجماعۃ میں داخل نہیں ) نے ایک منفی پروپیگنڈہ کیا اور کہاکہ روزنامہ اسلام نے23 جنوری 2010 ء کی اشاعت میں ایک کالم نگار نے کہاہے کہ یہ ایجنسیوں کا آدمی ہے اور غیرضروری اختلافات کو ہوادینے کے لیے اس کو رہا کیاگیا وغیرہ وغیرہ۔ پھر کدورت اور عداوت کی حد ملاحظہ کریں کہ جس شہر میں میرا کہیں بیان ہوتا، یہ پورے شہر میں 23 جنوری 2010ء کی اشاعت کی فوٹو کاپیاں کراکے آویزاں کردیتے۔ اگر انصاف کو ملحوظ رکھا جاتاتو یہ ایک محض غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ27جنوری 2010ء کو ادارہ(روزنامہ اسلام)نے اپنے اخلاقی فرض کی ادائیگی کردی تھی اور اعتذار لگایا جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ نادانستہ طورپر ایسا ہوگیا اور ادرہ اس پرمعذرت خواہ ہے۔
میرے اورجامعۃ الرشید کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی سازشیں کی جانے لگیں لیکن !
ایں خیال است ومحال است وجنوں
نہ پہلے ایسا ہواتھا اورنہ ان شاء اللہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے اکابر نے اپنا ہاتھ میرے سر پررکھا ہواہے، نہ تومیں ان سے بدظن ہوں اورنہ ہی وہ مجھ سے بدگمان!
مزید یہ کہ میرے ادارے؛ مرکز اہل السنۃ والجماعۃ87جنوبی لاہور روڈ سرگودھا جو ایک دیہی علاقہ شمارہوتاہے؛ اس میں عروس البلاد کراچی سے روزنامہ اسلام کی ٹیم تشریف لائی۔ اور میرے پاس تخصص کرنے والے ستر علماء کو کالم نگاری کا کورس کرایا۔ جس پر میں ان تمام حضرات کا بے حد ممنون ہوں۔ اللہ رب العزت تمام حضرات کو اشاعت دین اور حفاظت دین کے لیے قبول فرمائے۔
ہم نے ہر دور میں عالمی امن جیسے حساس معاملے میں اپنی ہزاروں خواہشیں قربان کی ہیں اقوام متحدہ اور دیگر اتحاد بین ا لمذاہب کے ادارے اس بات پر گواہ ہیں ہر موڑ پر ہم نے امن کو ترجیح دی ہے لیکن اس کا نتیجہ جیساہم چاہتے تھے ویسا نہیں آیا بلکہ ہماری مقدس شخصیات کی گستاخیاں، مقدس مقامات کی توہین اور مقدس کتب کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے۔اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی امن کی کوششوں میں مصروف ادارے محض اس لیے بنائے گئے ہیں کہ وہ ہم اہل اسلام کو ہی سمجھاتے رہیں کہ’’ آپ کچھ نہ کریں۔ ‘‘ ورنہ صلیبی رہنمائوں نے اسلام دشمنی میں کون سی کسر اٹھارکھی ہے؟ ایک طویل سلسلہ ہے ماضی قریب میں عیسائی رہنما پوپ’’ بینی ڈکٹ’ ‘ مسیحی پادری ٹیری جونزاور وائن سیپ نے ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے دل دکھائیں ہیں۔
آج اخبارات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ مسیحی رہنما پادری’’ٹیری جونز‘‘ نے فلوریڈاکے چرچ میں پہلے قرآن پاک کو کافی دیر تیل میں ڈبوئے رکھا اور بعد میں چر چ ہی قرآن کریم کو (العیاذ باللہ) نذر آتش کردیا۔اس سے پہلے اس ملعون نے9/11پر قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ’’ مسلمان اپنے قرآن کی حفاظت کرلیں۔ ‘‘
پادری کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ قرآن پاک ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود رب ذوالعلیٰ نے لیاہے یہ بائبل کی طرح نہیں جو نازل تو کچھ اور ہوئی تھی لیکن لالچی عیسائی پادریوں نے فتوی فروشی کرتے کرتے اس میں اس قدر تحریف کردی کہ کسی ایک حرف کے بھی 100 فیصد سچا ہونے کا احتمال باقی نہیں رہا۔لیکن اس کے باوجود تمام مسلمانا ن عالم میں سے کسی نے بھی بائبل کی بے حرمتی اور توہین کا سوچا تک نہیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ٹیری جونز کو ورلڈ ایونجیلیکل الائنس نے اس پر معافی مانگنے کو بھی کیا۔ لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ معافی مانگنے سے انکار کیاہے بلکہ اپنے کئے ہوئے اس فعل شنیع پر فخر کیاہے۔
میرے خیال کے مطابق ٹیری جونز کو معلوم ہے کہ قرآن پاک وہ انمٹ کتاب ہے جو قیامت تک رہنی ہے اس میں مسلمانوں کے لیے دنیا پر حکمرانی کے اصول موجود ہیں کفر وطاغوت کا سر کچلنے کے لیے جہاد جیسا روشن حکم موجود ہے تمام دنیائے کفر آج جہاد سے خائف ہے کبھی تو جہادی آیات کو نصاب بلکہ قرآن سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتاہے اور کبھی ایسی ناپاک جسارت کی جاتی ہے جس سے تمام اہل اسلام کے قلوب پھٹ جاتے۔
میں ’’ ٹیری جونز‘‘ سے واضح لفظوں میں کہتاہوں کہ تم نے قرآن کریم کو نذرآتش کرکے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ تمام اہل اسلام کو غمزدہ کردیا اور ان شاء اللہ تم بہت جلد اپنے اس کام کی سزا پائو گے۔ امریکی حکومت بھی کان کھول کر سن لے اور پاکستانی حکمران بھی! تم نے اب اگر’’ امن کی آشا’ ‘کی کوئی بات کی توہم تمہاری یہ بات کبھی نہیں مانیں گے
اب وقت ہے مسلمان کے انتقام کا ااور اس کا نظارہ دیکھنے کی تم میں تاب نہیں۔ اب خدا کی زمین کو ایسے ملعونوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک کردیاجائے گا۔