بچیوں کی اچھی تعلیم وتربیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بچیوں کی اچھی تعلیم وتربیت
ملا فقیر
برصغیر پاک وہند پر جب تک انگریز کا ناجائز تسلط رہا تب تک اس نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور دینی اقدار وروایات کو پامال کرکے مسلمانوں کے دلوں میں غیراسلامی رسوم وروایات کی اہمیت اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فسادی ذہنیت کے حامل انگریز نے اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رکھا بلکہ جاتے جاتے وہ اپنی ثقافت کی ترویج اورمسلم نسل کو اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے کے لیے کچھ ایسے کارندے چھوڑ کرگیا جن کی گھنائونی سازشوں سے یہاں کے باسیوں کی نہ صرف خوئے غلامی کو دوام ملا بلکہ نوبت بایں جارسید کہ آج ہمارا معاشرہ بے حیائی فحاشی اور عریانی کی دلدل میں پھنسا ہواہے۔ حیائ، عفت اور پاک دامنی جنس نایاب ہو چکی ہے نوجوان نسل اخلاقی خرابیوں اور جنسی بے راہ رویوں کا شکارہے۔
ہر طرف ظلمت وتاریکی میں ڈوبے ہوئے اس معاشرے میں کچھ تمنائے چراغ دینی مدارس کی شکل میں نظر آتے ہیں جن کے جلو وں سے انگریز مکار کے نمک حلالوں کا حقیقی چہر ہ آج سے60،70 برس پہلے بے نقاب ہوچکاتھا اور آج اس کے کارندوں کے پول کھل رہے ہیں یہ مدارس شروع سے لے کرآج تک شعائر اسلام کادفاع کرنے اور استعماری یلغار کے خلاف ایک مضبوط ڈھال بن کر معاشرے کوذلت ورسوائی کی گہری کھائی میں گرنے سے بچانے میں بھر پور کردار ادا کرتے آرہے ہیں۔ آج اسلامی تعلیمات اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کو معاشرے میں عام کرنے کی جو کوشش نظر آتی ہے وہ بھی انہی مدارس مرہون منت ہے۔ اسلام دشمن عناصر کے ہر قسم کے حربوں اور کوششوں کے باوجود مصر، ترکی ودیگر اسلامی ممالک کی طرف حجاب، داڑھی اور دوسرے شعائر اسلام پر پابندی جوکہ عذاب خداوندی کو صریح دعوت جیسے عمل کا ارتکاب ہمارے ملک میں اب تک نہیں ہوا۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دینی اور اسلامی تعلیم کو عام کیے بغیر ہم شعائر اسلام کی حفاظت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب وثقافت کو برقراررکھ سکتے ہیں۔ دور حاضر کے فتنوں سے اپنے آپ کو بچانے کیلیے علم دین کا حصول اور اولیاء اللہ کی صحبت جہاں مردوں کے لیے ضروری وہاں خواتین کے لیے بھی انتہائی اہم ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ مدارس دینیہ میں جب عورت کی عزت وناموس کی حفاظت کے ساتھ اس کو علوم دینیہ کے زیور سے آراستہ کیاجائے تو اعتراضات کی بوچھاڑ اور مخلوط نظام تعلیم والے اداروں میں بچیاں والدین کی نظروں سے اوجھل ہو کر’ ’کچھ بھی‘‘ کریں تو ترقی یافتہ دور کے ساتھ چلنے کی کوشش قراردے کر داد تحسین سے نوازا جاتا ہے۔
اسلام دنیاوی فنون کے حصول سے ہرگز منع نہیں کرتا بلکہ صحیح نیت سے ان فنون کا سیکھنا بھی عبادت بن جاتاہے لیکن جس تعلیم کا حصول ایمان کے سودے پر موقوف ہو کر رہ جائے اور جس فن کو بے غیرتی و بے حمیتی کی چادر اوڑھے بغیر حاصل کرنا محال ہو اس فن کو اپنے لیے لازمی قرار دے کر ہم کون سے دنیاوی یا اخروی فوائد سمیٹ رہے ہیں جس نظام کے تحت آج کل ہماری بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی نکلنا ہے کہ یہ پڑھنے کے بعد جہاز میں ائر ہوسٹس، دفاتر میں رسپشنسٹ اور ڈائیو میں خادمہ بن کر ہوس بھری نظروں کی خوشی کاساماں بن جائیں اور یہی وہ حقوق نسواں ہے جس کا ڈھونگ رچا کر عالمی استعمار مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسا رہاہے۔
عورت وہ ہستی ہے جس کے بطن سے انبیائ، شہداء اور صلحاء جنم لیتے ہیں موضوع کی مناسبت سے اگر یہاں وہ سچ رقم کروں تو بے جانہ ہوگا جو آج کل عام ہوچکاہے کہ ماں اگر شب بیدار ہوتوبیٹا شاہ ولی اللہ پیدا ہوتاہے ماں صالحہ ہو تو بیٹا اسماعیل شہیدپیدا ہوتاہے ماں مجاہدہ ہو تو بیٹا حسین احمد مدنی پیدا ہوتاہے۔ ماں اگر مفکرہ ہوتو بیٹامفتی محمود پیدا ہوتاہے ماں جرأت مند ہو تو بیٹا حق نواز پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے گھرانے کی کامیابی خاتون خانہ پر منحصر ہوا کرتی ہے ایک عورت کی زندگی بدلنے سے پورے خاندان میں انقلاب آسکتا ہے بچیوں کی اچھی تعلیم وتربیت نہ صرف فرض ہے بلکہ معاشرے میں تبدیلی کا بھی واحد ذریعہ ہے جس کو نظر انداز کرنے سے دنیا وآخرت میں ناکامی کا سامنا ہوسکتاہے۔ اعادنا اللہ من ذلک