مواعظ متکلم اسلام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سلسلہ وار2:
مواعظ متکلم اسلام
مرتب: مولانا محمد حارث
الحمد للہ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم لقد خلقنا الانسان فی کبد۔صدق اللہ العظیم(درود پاک]
اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں کھانے کے لئے نہیں بھیجا بلکہ کمانے کے لئے بھیجا ہے۔ دنیا کمانے کی جگہ ہے اور جنت کھانے کی جگہ ہے۔ دنیا مشقت کی جگہ ہے اور آخرت آرام کی جگہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی وہ شخصیت ہے کہ جن کے صدقے اللہ رب العزت نے پوری کائنات کو وجود عطا فرمایا اور غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ خندق کھود رہے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جملے ارشاد فرما رہے ہیں۔
’’اللھم لا عیش الا عیش الآخرۃ فاغفر الانصار والمھاجرہ‘‘
اے اللہ میرے انصار کی بھی مغفرت فرما۔ اے اللہ میرے مہاجرین کی بھی مغفرت فرما !
عیش کی جگہ دنیا نہیں ہے عیش کی جگہ آخرت ہے جب آدمی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے پھر شریعت پر عمل کرنا بالکل مشکل نہیں آپ دیکھیں کالج کا وہ لڑکا جو محنت نہیں کرتا وہ کبھی رات کو سردی میں 2 بجے جاگ کے پڑھ رہا ہوتا ہے کیوں ؟ کہتا ہے امتحان قریب ہے۔ پورا سال دھیان نہیں دیا کچھ نہ کچھ تو پڑھ لوں تاکہ میرا مستقبل اچھا ہو جائے اور رات کو دو بجے تک جاگتا ہے۔
لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ رات کو جاگنے سے کیا ملتا ہے؟ رات کو تہجد سے کیا ملتا ہے؟ آپ مزدور کو دیکھ لیں تنخواہ کتنی ہے؟ سخت سردی کے موسم میں جاتا ہے ملازمت کے لئے کئی دیہاتوں سے لوگ شہروں میں جاتے ہیں اسی طرح گوالے کو دیکھیں کہاں صبح صبح نکل رہا ہے کسی ڈیرے پر جاتا ہے وہاں سے دودھ لے کر سائیکل چلا کر شہر پہنچتا ہے۔ سارا دن مصروف ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں یہ کام کروں گا تو میری دنیا بنے گی ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ محنت کرنے سے ہماری آخرت بنے گی۔ دنیا میں اللہ رب العزت نے ایک بار بھیجا ہے دوبارہ دنیا میں نہیں آنا۔ آج مجھے ایک ساتھی مذاق میں کہہ رہا تھا کہ استاد جی! بڑی سپیڈ لگی ہوئی ہے۔ میں نے کہا وقت تھوڑا ہو کام زیادہ ہو سپیڈ تو لگتی ہے ناں !
ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہماری زندگی بہت تھوڑی ہے اور ایک بار زندگی ملی ہے دوبارہ نہیں ملنی۔ اس میں جتنی محنت کر سکتے ہیں کرلیں پھر ہمارا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کے لئے تشریف لائے۔ ہم پوری دنیا میں تو جا نہیں سکتے۔ شاید اللہ لے بھی جائیں۔ اللہ کے خزانوں میں کیا کمی ہے لیکن شاید پوری دنیا میں نہ جا سکیں۔ پوری دنیا سامنے تو رکھیں۔ جب آپ پوری دنیا سامنے رکھ کر کام کریں گے تو اللہ رب العزت نتائج بھی پوری دنیا والے عطا فرمائیں گے اور جتنا ہمارا جذبہ مضبوط ہوگا، جتنی دل میں وسعت ہوگی، جتنی احوال پر نظر ہو گی اللہ تعالی اسی کے مطابق مدد و نصرت فرمائیں گے۔
میں یہ گذارش اس لئے کرتا ہوں ہم دنیا میں کام کے لئے آئے ہیں کام کا مزاج سمجھ گئے پھر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کسی طالب علم سے پوچھوآپ سبق میں کیوں نہیں آئے؟ کہتا ہے نزلہ ہے آپ سبق میں کیوں نہیں آئے؟ کہتا ہے بخار ہے اور مزدور کو دیکھیں نزلہ ہے پھر بھی جا رہا ہے بخار ہے پھر بھی جا رہا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ میں مدرسے میں رہتا ہوں میں نہیں بھی پڑھوں گا تو دوپہر کو کھانا پکا ہوا ہے، شام کو کھانا پکا ہوا ہے، میں مدرس ہوں پڑھایا پھر بھی تنخواہ ملے گی نہ پڑھایا پھر بھی تنخواہ ملے گی اور مزدور سمجھتا ہے کہ میں نے کام کیا تو ملنا ہے اور نہ کیا تو نہیں ملنا وہ کام میں لگتا ہے اور ہم سستی کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ معاملہ دنیا میں چل جاتا ہے آخرت میں یہ معاملہ نہیں چلنا۔
وَاَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔
جو کیا وہی ملنا ہے جو نہیں کیا وہ نہیں ملنا۔ تو جو کریں گے وہی آگے جا کے حاصل ہو گا میں یہ بات اس لئے عرض کرتا ہوں آج گناہوں سے بچنا کیوں مشکل ہے ہماری نظر آخرت پر ہے ہی نہیں۔ نظر ہے ہی دنیا پر… یہ گانا ہے اس کو سن لینا چاہیے، اس لڑکی پر نگاہ پڑی ہے اس کو دیکھ لینا چاہیے، فلاں سے تعلق ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ دماغ میں اگلی بات ہے ہی نہیں۔ آخرت میں کیا ملے گا؟
یہاں نگاہ روکنے پہ اللہ جنت کی حور دیں گے یہاں نگاہ کی حفاظت کرنے پہ جنت میں اللہ کا دیدار ہوگا۔ اپنے کان بچانے پہ اللہ جنت کے نغمے دیں گے اپنی زبان کی حفاظت کرنے پہ اللہ جنت کے میوے دیں گے۔ خدا کی قسم گناہ سے بچنا بہت آسان ہے اللہ مشکل کام بندے کو دیتے ہی نہیں اللہ وہی کام دیتے ہیں جو کرنا بندے کے بس میں ہو۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں آدمی زنا کرنے کے لئے عورت پر بیٹھ چکا ہوتو اس وقت بھی حکم ہے کہ پیچھے ہٹ جائو! اگر پیچھے ہٹنا بندے کے بس میں نہ ہوتا اللہ حکم ہی نہ دیتے۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا تو جب ایسی حالت میں بچنا بندے کے اختیار میں ہے تو جب قرب ہی نہیں ہے تو بچنا بطریق اولی اختیار میں ہے جب فطرت میں غلاظت، گندگی، نجاستیں ہوں تب جہنمی دماغ بنتا ہے پھر آدمی گناہوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے کہ مجھے گناہ کا موقع ملے اور جب اللہ دل میں آجائے اللہ کی محبت دل میں آجائے اور آخرت دل میں بیٹھ جائے پھر بندہ گناہوں سے بچنے کے اسباب پیدا کرتا ہے اور جو کوشش کرتا ہے اللہ اس کو گناہوں سے بچا ہی دیتے ہیں۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجاً وَ یَرْزُقْہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔
جب آدمی گناہوں سے بچتا ہے پھر اللہ گناہوں سے بچنے کے راستے بھی دیتے ہیں اور رزق اس کو وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے اس کو توقع بھی نہیں ہوتی۔
اللہ بہت کریم ہیں بہت ہی کریم ہیں آپ محنت کرکے دیکھیں خدا کی قسم اللہ یوں نوازتے ہیں بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ لوگ کہتے ہیں مزاج نہیں ہے۔ مزاج کیسے بنے؟ ہم محنت تو کریں ہم اللہ سے مانگنا تو سیکھیں کیسے اللہ تعالی اسباب عطا فرماتے ہیں گناہوں سے بچنے کا ارادہ کریں خدا کی قسم اللہ تعالی گناہوں سے بچنے کے اسباب پیدا فرما دیں گے۔ یہ اللہ تعالی نے اپنے ذمے لیا ہے بندہ محنت تو کرے اللہ کریم ہیں بندے کو محروم نہیں کرتے۔ ا للہ تعالی ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔
( ہم نے بندے کو مشقت میں پیدا کیا ہے) بندہ ہمت کرے اللہ اتنے اسباب عطا فرماتے ہیں۔ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا ہم چاہتے ہیں کام کریں دکھ ہو ہی نا۔ کام کریں تکلیف ہو ہی نا۔ ہمیشہ راحتیں ملیں۔ اس پہ بندے کو غور کرنا چاہیے۔ مشقت ملے یہ تو مزاج دنیا ہے اور جب آدمی اللہ تعالی کو نیکی کا واسطہ دے کر گناہ سے معافی مانگے پھر اللہ پاک آسانیاں پیدا فرماتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’ اَشَدُّ النَّاسِ بَلآ ئً اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ۔
دنیا میں سب سے زیادہ تکالیف ان کو آتی ہیں جو انبیاء علیہم السلام ہیں۔ پھر ان کو آتی ہیں جو انبیاء کے قریب ہوں۔ ام المومنین حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: ’’ مجھے حسرت ہوتی تھی کہ مجھے مرتے وقت تکلیف نہ ہو۔ کہتی ہیں: ’’ میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بوقت موت تکلیف دیکھی ہے تو میں نے اس تمنا کو چھوڑ دیا۔ اب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بوقت موت تکلیف (العیاذ باللہ) رحمت ہے، راحت ہے، عافیت ہے۔ یہ تکلیف اللہ کی ناراضگی تھوڑی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنے دن پہلے بخارہو گیا؟
اتنا شدید بخار ہے کہ سہارے سے چل رہے ہیں اور جب سہارے سے بھی نہیں چل سکے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردہ اٹھا کے دیکھتے کہ میری زندگی میں میری جماعت نے میری سنت کا خیال کیا ہے کہ نہیں ؟ اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیار کردہ جماعت نے نماز پڑھی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کتنا ٹھنڈا ہوا ہو گا کہ جو فوج میں نے تیار کی ہے میری آنکھوں کے سامنے اللہ مجھے اس کا رزلٹ دکھا رہے ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم پہ حق ہے کہ ہم ان پر درود بھیجیں۔
مجھے ایک ساتھی کہنے لگے کہ ہمارا جو عقیدہ ہے کہ یہاں سے صلوۃ وسلام پڑھیں تو ملائکہ پہنچاتے ہیں اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضے پر پڑھیں تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود سماعت فرماتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوۃ و سلام ایک تحفہ ہے اور جب بڑے کی خدمت میں تحفہ دور سے بھیجیں تو پھر بھیجتے ہیں پیش نہیں کرتے اور جب قریب جاکر تحفہ دیں تو بھیجتے نہیں پیش کرتے ہیں۔
مجھے ایک ساتھی کہنے لگے کہ اس پر ایک سوال ہے میں نے کہا وہ کیا؟ حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ مذاکرات کرنے کے لئے گئے تھے ا ور روایات میں آتا ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ عمر! مذاکرات کے لئے تم جائو۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بڑا پیارا جواب دیا تھا۔ میں آج کی زبان میں سمجھانے کے لئے کہتا ہوں۔ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مذاکرات کا بندہ نہیں ہوں۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجو!
مذاکرات کے لئے بڑے ٹھنڈے مزاج کا بندہ ہونا چاہیے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کتنا اہم مشورہ دیا کہ مذاکرات کے لئے ایسا بندہ بھیجو کہ جو قابل قبول ہو اور حضرت عمررضی اللہ عنہ جب گئے تو وہ دن تھااور کہا: ’’اگر کسی نے اپنی عورتیں بیوہ کرانی ہوں تو بات کرو۔ بچے یتیم کرانے ہیں تو بات کرو۔ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں ہجرت کرکے مدینہ منورہ جا رہا ہوں۔ راستہ روکنا ہے تو روک لو۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک نے عجیب مزاج عطا فرمایا تھا۔ میں سمجھانے کے لئے کہتا ہوں کہ اللہ رب العزت کی ایک صفت’ ’جلال‘‘ ہے اور ایک صفت’ ’جمال‘‘ ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ اللہ کی صفات کو حاصل کرو اور اللہ کی جو بھی صفات ہیں۔ صفت علم ہے، صفت رحمت ہے۔ یہ بواسطہ نبوت کے امت کو ملی ہیں اور سب سے پہلے جن کو ملی ہیں وہ صحابہ کرام ہیں۔ اللہ کریم کی صفت’’ جلال‘‘ بھی ہے اور صفت’ ’جمال’ ‘بھی ہے۔ فجر، مغرب اور عشاء میں قرأت اونچی آواز سے اور ظہر اور عصر میں آہستہ۔ وہ اس لئے کہ جب سورج غروب ہوتاہے تو خدا کے وصف’ ’جمال’ ‘کا ظہور ہوتا ہے اور جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وصف’’ جلال‘‘ کا ظہور ہوتاہے اور جب بڑے جلال میں ہوں چھوٹے نہیں بولتے اور جب بڑے’ ’جمال‘‘ میں ہوں تو چھوٹے لطیفے سناتے ہیں۔ تو چونکہ مغرب کے بعد وصف جمال کا ظہور ہوتا ہے۔ جونہی سورج غروب ہوا تو جہراً الحمد للہ رب العٰلمین…اور جونہی وصف جلال کا ظہور ہوا۔ اب بولنے کی ہمت نہیں اور یہ دونوں وصف بواسطہ نبوت کے امت کو ملے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ وصف جلال کا مظہر ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وصف جمال کا مظہر ہیں۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شجاعت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہرت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں شجاعت تھی لیکن شہرت نہیں۔ میرا آج بھی ذوق ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے دلیر شخص کا نام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ یہ جملہ میں کہتا ہوں اور اس پر دلائل بھی لاتا ہوں ایک مرتبہ میں نے مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی’ ’حیاۃ الصحابہ‘‘ پڑھی۔ انہوں نے اس پر باب قائم کیاہے۔ بَابُ اَشْجَعِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَبُوْبَکْرٍ۔ اس میں روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، تم میں سب سے دلیر کون تھا؟ کہتے ہیں ابوبکر صدیق۔ پوچھا دلیل کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے تو سب صحابہ ہمت ہار گئے اور ابوبکر صدیق اکیلا کھڑارہا۔اور یہی دلیل میں دیا کرتا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق کی شجاعت پہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ اللہ نے ہمیں مشقت میں پیدا کیا۔ وہ کیسے؟گناہ نہ کرنے کی مشقت اٹھانی پڑے گی۔ لوگ کہتے ہیں استاد جی! کوئی دم کریں گناہ کرنے کو جی چاہتاہے۔ میں کہتا ہوں کون سا دم کروں ؟ کہ دل ہی نہ کرے اگر دل ہی نہ کرے تو شادی کیسے کراؤگے؟ شادی تب کرائیں گے جب دل کرے۔ فرق کیا ہے؟ کہ جی چاہتا ہے پلاؤ کھانے کو مگر حرام نہیں کھانا حلال کھانا ہے جی چاہتا ہے کولڈ ڈرنک کو مگر حرام نہیں حلال۔
میں بار بار سمجھاتا ہوں اور بڑی بے تکلفی سے سمجھاتا ہوں کہ یہ دعانہ کرو کہ ہمارا دل نہ کرے یہ تو ہونا ہی نہیں اگر دل نہ کرے اور گناہ نہ کریں پھر کمال کون سا؟ ؟ جنوری کا مہینہ ہو، روزہ رکھا ہو اور پیاس نہ لگے تو کمال کون سا۔ کمال تو یہ ہے کہ جون جولائی کا مہینہ ہوبارہ چودہ گھنٹے کا دن ہے پیاس شدت سے لگ رہی ہے غسل خانے میں گئے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں۔ ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں قطرات سامنے سے گزرتے ہیں لب کے اندر نہیں جانے دیتے۔ کیوں ؟ اللہ دیکھ رہے ہیں اگر پیاس ہی نہ لگے معدہ خراب ہو یہ کون سا کمال ہے؟ گناہ کو دل کرے پھر گناہ نہ کریں یہ کمال ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔
’’قُلْ لِلْمُوْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔
مومنین سے کہو اپنی نگاہ کی حفاظت کریں اور پہلے مومن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اگر دل نہیں کرتا تو حفاظت کا معنی کیا؟ دل کرتا ہے تب ہی گناہ سے حفاظت ہوگی ناں۔ اس لئے جب گناہ نہیں کریں گے تو مشقت ہوگی۔
گناہ سے بچنے کی مشقت ہوتی ہے یہ طے کر لو…جتنی مشقت ہوگی گناہ نہیں کرنا … لاکھوں فوائد ہوں باطل کے ساتھ نہیں ملنا…ہزار نقصان ہو جائیں ہم نے باطل کو قبول نہیں کرنا عقیدہ کھرا ہو نا چاہیے اور بالکل خالص ہو۔ کیا معلوم کہ امام مھدی علیہ السلام آج آجائیں کل آجائیں۔ ہم ان کی فوج میں شامل ہوں۔ نفس پرست بندہ ان کی فوج میں شامل نہیں ہو سکتا۔ حدیث مبارک میں آتا ہے: ’’ دجال آئے گا اور کہے گا مجھے خدا مانو! جو نہیں مانے گا اس کا رزق بند کر دے گا بارشیں روک دے گا کھانا نہیں ملے گا اور جو کمزور ایمان والا ہو گا وہ خدا کوچھوڑ کے دجال کو مان لے گا۔
اور ایک ایسا بندہ ہوگا کہ دجال اسے پکڑ کر کہے گا مان!! وہ کہے گا نہیں مانتا۔ دجال تلوار لے کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ پھر جوڑے گا اور کہے گا اب مانو۔ وہ کہے گا اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تو جھوٹا ہے اب تو بالکل تیرا کلمہ نہیں پڑھوں گا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ دجال دوبارہ اس بندے کے دوٹکڑے نہیں کر سکے گا آدمی تھوڑی سی ہمت تو کرے۔ اللہ بڑے بڑے فتنوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔
اہل باطل سے تعلق توڑیں اور اہل حق سے رشتہ جوڑیں صرف اللہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن کہیں گے یہ میرے لئے تعلق توڑتا ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کتنے خوش ہوں گے۔ ہمارا پوری دنیا میں پہلا اور آخری سہارا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی وجہ سے جس جس کو چھوڑنا پڑے چھوڑ دو۔ پھر اللہ کی مدد و نصرت قلبی اطمینان دیکھو اللہ کی قسم دنیا میں جینے کا مزہ آجاتا ہے اور جو یوں نہیں جیتا پھر جینے کا مزہ نہیں آتا۔ اللہ پاک مجھے اور آپ کو ان باتوں کے استحضار کی توفیق عطا فرمائے۔ میں یہ بات اس لئے سمجھاتا ہوں کہ اللہ کا تعلق نصیب ہو جائے تو جینے کا مزہ آجاتا ہے اور یہ مزہ آدمی زبان سے بیان نہیں کر سکتا پھر آدمی چھائوں کو نہیں دیکھتا پھر محلات کو نہیں دیکھتا پھر اپنی جھونپڑی میں خوش رہتا ہے۔
وہ تھوکتے نہیں ہیں تخت سکندری پہ
جن کا بستر لگا ہوا ہے مولا تیری گلی میں
ہمیں یہاں کتنا لطف آتا ہے میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں رات تین بجے واپس آیا۔ طلباء تو سو رہے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک ساتھی نے دروازہ کھولا اور ہم یہیں مسجد میں بیٹھ گئے میں نے کہا میں تھکا ہوا ہوں لیکن یہاں جو مجھے لطف آرہا ہے میں اسے بیان نہیں کر سکتا کیوں ؟
جہاں ہر وقت مسلک، نظریہ، عقیدہ، قرآن کی بات ہوتی ہے وہاں رحمت کا نزول کیسے ہوتا ہے؟ اس کو محسوس کرنے کے لئے تھوڑا سا دل چاہیے۔ آدمی کی جتنی بھی اچھی خوارک ہو اور ہو مریض تو کیا زبان کو مٹھاس محسوس ہوتی ہے؟ مٹھا س تب آئے گی جب اس کا اپنا بخار ٹھیک ہوگا۔ تو دعا کریں کہ اللہ ہمارا بخار ٹھیک فرمائیں اور اللہ اپنا تعلق نصیب فرمائیں اللہ اپنے دین کے ساتھ لگائے رکھیں۔ اس کا اندازہ موت کے بعد ہو گا یہ جو چھوٹی چھوٹی نسبتیں ہیں مہینے میں ایک دن نکالنا، اللہ کا نام لینا۔ خدا کی قسم موت کے بعد ہمیں پتا چلے کا کہ اس سے ہمیں کیا ملا ہے۔
مجھے پیرذوالفقاراحمد نقشبندی صاحب کے ایک خلفیہ بتا رہے تھے کہتے ہیں شیخ کے بیان میں ایک بندہ کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ آپ ہر وقت کہتے ہیں ذکر کرو، اللہ کا نام لو، آپ کوئی علمی بات بھی کر لیا کریں۔ فرمایا یہ جو بات تو نے میرے ساتھ کی ہے تمہارا میرے اوپر احسان ہوگا کہ میری یہی شکایت میدان حشر میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں لگانا کہ اے اللہ یہ ہر وقت اللہ اللہ ہی کرتا رہتا تھا۔ کوئی علمی بات نہیں کرتا تھا۔اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنے نام کی مٹھاس اور حلاوت نصیب فرمائیں۔ (آمین]