آہ!ہمارے استاذجی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آہ!ہمارے استاذجی
محمد عمران طیب، امام جامع مسجد طوبیٰ،سرگودھا
خوشبو کے جزیروں سے تاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے فقط اک تیری کمی ہے
استاد جی آپ تو اللہ کے ولی ہیں !ہمارے لیے بھی دعا فرمادیں کہ اللہ ہمیں بھی اپنا ولی بنالے…ہیں یہ کیا کہا آپ نے؟آئندہ اس بات کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں استاذ جی نے قدرے سخت انداز میں کہا۔
میری گفتگو استاذ جی سے اس وقت ہوئی تھی جب کہ مجھے یہاں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا۔ اس سے پہلے تبلیغی مرکز سرگودھا میں استاد جی کا بیان سننے کا اتفاق ہواتو بہت پسند آیا ایک اچھوتا اور منفرد انداز تھااستاذ جی اپنی بات کو بہت سادہ اور آسان طریقہ سے حقیقی مثال سے سمجھا دیا کرتے تھے بیان کے دوران پورا مجمع ساکت و خاموش اور ہمہ تن گوش ہوتا تھا، جن کا میں تعارف کروانے چلا ہوں یہ شخصیت تھی’’ حضرت قاری حافظ محمد حنیف رحمہ اللہ کی‘‘ جنہوں نے استاذ جی کے نام سے شہرت پائی۔
حضرت کا بچپن رائے پورانڈیا میں گذرا جہاں انہوں نے بڑے بڑے بزرگوں کی صحبت اٹھائی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی،آپ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمہ اللہ سے بیعت تھے اور آپ کا شمار صاحب کشف وصاحب بصیرت بزرگوں میں ہوتا تھا۔ تقریبا75سال پہلے انڈیا سے سیدھا سرگودھا تشریف لائے ا ور جامع مسجد طوبی پٹھانوں والی بلاک نمبر8کو اپنا مسکن بنایا جوکہ اُس وقت چند فٹ پر مشتمل ایک تھڑے کی شکل میں تھی۔ یہی سے آپ نے اپنا تبلیغی کام شروع کیا اور پہلا گشت کیا۔آپ کا شمار ان لوگوں میں تھا جنہوں نے سرگودھا میں تبلیغ کے کام کا آغاز کیا۔چونکہ آپ کا وقت حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ اور مولانا یوسف رحمہ اللہ کے ساتھ بھی گزرا، اس لیے آپ کی زندگی پر ان کے نقوش واثرات نمایاں تھے آپ نے بیانات میں کبھی کوئی افتراقی بات نہیں فرمائی بلکہ آپ کی یہ فکر اور کوشش ہوتی تھی کہ کس طرح امت متفق ومتحد ہوجائے آپ ہر ایک کی دلجوئی فرماتے تھے اور ہر ایک کو اپنے حسن سلوک سے دین پر لانے کی کوشش فرماتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ باپ کے بھی راز دار ہوتے تھے اور بیٹے کے بھی خاوند کے بھی اور بیوی کے بھی لیکن کسی ایک کی بات دوسرے کو نہ بتاتے بلکہ پچیدہ سے پچیدہ مسئلہ کا بہت آسان حل تجویز فرما کر سب کو آپس میں پیار ومحبت اور اتفاق کی تعلیم رہتے تھے۔
میں نے تقریبا ساڑھے چار سال کا عرصہ یہاں پر استاذ جی کی خدمت اور صحبت میں گذارا میں نے استاذ جی کی طبیعت اور مزاج کا اثر یہاں کے لوگوں میں بھی پایا کہ یہاں کے لوگ ما شاء اللہ ائمہ موذنین اور علماء کرام کی عزت و احترام کرنے والے اور سلجھے ہوئے سنجیدہ لوگ ہیں۔ استاذ جی رحمہ اللہ کی منفرد خصوصیات میں سے ایک خصوصیت خدمت قرآن کریم بھی ہے جب سے آپ یہاں تشریف لائے آپ نے قرآن کریم پڑھانا شروع کیا اورآخر عمر تک سخت بیماری کے آخری چند دنوں کے علاوہ آپ بڑی جانفشانی کے ساتھ قرآن پاک پڑھاتے رہے۔
تقریبا لوگوں کی چوتھی یا پانچویں نسلیں آپ سے اس وقت سے پڑھ رہی تھی۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں سے ہے، جو دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ قرآن کریم سے آپ کو عشق کی حد تک لگائو تھا۔ اس کے بغیر آپ کو چین نہ آتاتھا۔ یہی آپ کی غذا اور یہی آپ کا اعلاج تھا۔ اسی وجہ سے آپ اپنے کسی رشتہ دار یا بیٹی کے گھر نہ ٹھہرتے تھے کہ صبح بچے آئیں گے اور میں ہوئوں گا تو ان کا سبق ضائع ہوگا اور قیامت کے دن مجھے ان کا سوال ہوگا اور بیماری کی وجہ سے ان کو یہاں سے دور رکھا بھی جاتا تو پھر بھی چپکے سے پہنچ جاتے حتی کہ ہسپتال میں داخل ہونے کے دنوں میں بھی اجازت لے کر آتے اور پڑھاکر ہسپتال چلے جاتے۔ آپ نے اپنے حج اور عمرہ یا تبلیغی سفر کے علاوہ کبھی بھی ستر سالوں میں چھٹی نہ کی۔ فجر کی آذان سے پہلے بچوں سمیت تشریف لاتے اور فجر کے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد تک پڑھاتے۔ اسی طرح سے پہلے ایک بجے سے تقریبا چار ساڑھے چار بجے تک پڑھاتے۔ آپ کے پڑھانے کا انداز بھی بہت عمدہ تھابچوں کو ہرہر موقعہ کی مسنون دعائیں۔ وضو نماز وغیرہ کے فرائض وسنن وغیرہ نماز اورنماز جنازہ کا علمی طریقہ اجتماعی طورپر سکھاتے تھے۔ مجھے یہاں کا ماحول اس وجہ سے بھی بہت پسند آیاکہ یہاں کے لوگ استاذجی کے شاگر ہونے کی وجہ سے قرآن پاک اور نمازوغیرہ اچھی طرح سے پڑھنا جانتے ہیں آپ چونکہ بچوں اور بچیوں دونوں کو پڑھاتے تھے ایسے بچیوں میں بھی آپ نے شاگردوں کی تعداد بھی بے شمارہے اور مستورات کے بیان کے لیے بھی آپ کوترجیح دی جاتی تھی۔
بہر حال استاذ جی ایک جامع صفات وکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے آپ کی شخصیت اور کمالات کا احاطہ کرنے کے لیے ذہن وقلم ساتھ نہیں دیتے، عاجزی وانکساری تواضع اور مسکنت، نیز حلم ووقار میں اپنی مثال آپ تھے۔اپنے کپڑے ساری عمر خود اپنے ہاتھ سے دھوتے، فرماتے تھے کہ اگر میں کسی اور کے ہاتھ کا دھلا ہوا کپڑا پہن لوں تو نماز میں میرا دل نہیں لگتا۔
امت کی خیر خواہی اور دوراندیشی کے لیے ایک واقعہ بطور مثال ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو کر عرض کرنے لگا کہ میرے والد نماز نہ پڑھتے تھے ساری زندگی کی نمازیں ان کے ذمہ ہیں اور وہ انتقال کرچکے ہیں اور یہی ان کی طرف سے نمازوں کا فدیہ دینا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس یہ تقریبا انیس ہزار روپے ہیں ان کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے اس لیے میں پریشان ہوں کہ کیاکروں آپ نے فرمایاکہ بھائی میں بھی مستحق زکوۃ ہوں لائو یہ مجھے دو آپ نے اس سے وہ رقم لے کر دوبارہ اس کو د یے دی اور فرمایا کہ یہ میری طرف سے ہدیہ ہے اور پھر اس سے بطور فدیہ کے لے کر، اس کو ہدیہ کر دی اس طرح کئی مرتبہ کے بعد آخر میں پھر وہ رقم اس کو لوٹا دی جس کی وجہ سے اس کا مسئلہ حل ہوگیا اور رقم بھی اس کے پاس رہی۔
میرے ذھن میں تو استاذ جی کی مثال پھل دار درخت جیسی آتی ہے کہ وہ لوگوں کی سختیاں اٹھاکر بھی ان کو ثمرہ وفائدہ پہنچاتاہے خو د دھوپ میں جل کر، اوروں کو سایہ داراور راحت کا سامان مہیا کرتا ہے آلودہ فضاء کو اپنے اندر جذب کرکے صاف ستھرا ماحول عطاء کرتاہے زندگی کے آخری ایام میں ہسپتال میں اپنے بیٹے ابوذر صاحب کو فرمایاکہ زندگی بھر میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کسی چڑیاکے بچے کا دل بھی میر ی وجہ سے نہ رکھے ہیں نے زندگی کیسی گذاری اس کا فیصلہ میرا جنازہ کرے گا اگر تم دیکھو کہ لوگ میری تعریف کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور اگر دیکھو کہ میری برائی بیان کررہے ہیں تومیرے لیے استغفار کرنا۔
آخری دنوں میں عیادت کے لیے میرا ہسپتال جانا ہوا، تو اتنی سخت تکلیف میں تھے کہ دیکھی نہ جاتی تھی اس کے باوجود یہ آیت مبارکہ بار بار پڑھتے تھے’ ’ویحذمہ کواللہ نفسہ واللہ روف بالعباد‘‘یعنی اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اس لیے کہ اللہ بندوں پرمہربان ہے اور وصال کے دن تو صبح سے واللہ روف بالعباد ہی کاورد رہا حتی کہ 24فروری2004ء بروز جمعرات کو یہ آیت مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے عصرکے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ ہر آنکھ اشکبار تھی لوگ ایک دوسرے سے مل کر رورہے تھے اور تسلیاں دے رہے تھے۔ محتاط اندازے کے مطابق تقریبا40ہزار افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی جنازے
کا منظر دیدنی تھا لوگ پروانہ وار فدا ہورہے تھے اور ہر ایک خود کواستاذ جی کا وارث سمجھ رہاتھا۔
نماز جنازہ حضرات اقدس مولانا مفتی محمد طاہر سلیم مدظلہم نے پڑھائی۔ اور تد فین کے بعد ان الفاظ میں دعا کروائی کہ یا اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے اس انسان کو ہمیشہ بڑے د لنشین انداز میں تیری بڑائی بیان کرتے ہوئے سنا اور یہ بڑے پیارے اندا زمیں قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے یا اللہ تو ان کی بال بال مغفرت فرما۔ حضرت نے اپنے پسماندگان میں 3بیٹے اور چاربیٹیاں اورہزاروں متعلقین چھوڑے حضرت کے انتقال سے صرف ان کی اولاد ہی یتیم نہیں ہوئی بلکہ ہم سب یتیم ہوگئے آپ کے وصال کے بعد یہ جملہ ہر ایک کی زبان پر تھا کہ’’ استاذ جی کو سب سے زیادہ محبت مجھ سے تھی۔‘‘اللہ رب العزت استاذ جی جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور آپ کے فیوض وبرکات کو قیامت تک جاری رکھے۔ آمین