چند اہم اسلامی آداب

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
چند اہم اسلامی آداب
شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ
ادب19:۔
اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ کا پورا پورا ادب واحترام ملحوظ رکھیں، کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں آپ کے ادب کے زیادہ حق دار ہیں۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امک، ثم امک، ثم امک، ثم ابوک، ثم ادناک ادناک
یعنی تیری ماں، تیری ماں، تیری ماں، پھر تیرا باپ، پھر درجہ بدرجہ
[بخاری اور مسلم]
حضرت بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے ایک شخص کو دیکھا، وہ ایک شخص کے آگے آگے چل رہاہے۔ آپ نے اس آگے چلنے والے سے پوچھا یہ تمہارے کیالگتے ہیں ؟ اس نے کہا یہ میرے والد ہیں اس پرآپ نے فرمایا: اس کے آگے مت چلو، اور جب تک وہ نہ بیٹھ جائے تم مت بیٹھو اور اس کانام لے کر مت پکارو۔
[بخاری فی الادب المفرد،مصنف عبد الرزاق]
ابن وہب نے امام مالک بن انس کے شاگر امام عبدالرحمن بن القاسم مصری جن کی پیدائش132ھ میں اور وفات 191ھ میں ہوئی ہے، کے بارے میں حکایت نقل کی ہے کہ ان کے سامنے موطاامام مالک پڑھی جارہی تھی کہ فوراً کھڑے ہوگئے اور دیر تک کھڑے رہے پھر وہ بیٹھ گئے۔ جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیاتو فرمانے لگے میری والدہ مکان کے اوپر سے نیچے اتری تھیں اور کچھ مانگ رہی تھیں اور وہ کھڑی رہیں تو میں ان کے قیام کی وجہ سے کھڑا رہا پھر وہ اوپر چلی گئیں تومیں بیٹھ گیا۔
جلیل القدر تابعی طائوس بن کیسان فرماتے ہیں کہ سنت میں سے یہ بھی ہے کہ چار قسم کے لوگوں کا احترام کیاجائے: عالم کا،بڑی عمروالے کا، حاکم کا اور والد کا اور یہ گنوارپنا ہے کہ انسان اپنے والد کو اس کے نام سے پکارے۔
ادب20:۔
امام حافظ ابن عبدالبر اپنی کتاب (الکافی)فی فقہ السادۃ المالکیۃ میں فرماتے ہیں:۔
والدین کے ساتھ احسان کرنا لازمی فرض ہے اور یہ آسان کام ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ اور ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اولادان کے سامنے تسلیم خم کرے، گفتگو نرم کرے اور ان کی طرف محبت واحترام کی نگاہ سے دیکھے۔ ان کے ساتھ گفتگو کے وقت اپنی آواز بلند نہ کرے مگر اس صورت میں کہ ان کوسنانا مقصود ہو، اور جو نعمت اللہ نے انہیں دی ہے اسے ان کے ہاتھوں میں پھیلادے، اور کھانے پینے کی چیزوں میں ان کے بالمقابل اپنے آپ کو ترجیح نہ دے اورجب والد کے ساتھ چلے تو اس کے آگے نہ چلے اور مجلس میں اس سے پہلے گفتگو نہ کرے جب کہ وہ جانتاہو کہ والد اس کا زیادہ حق دار ہے اور جتنا ممکن ہو ان کی ناراضگی سے بچے، اور ان کے خوش کرنے میں اپنی طاقت خرچ کردے۔
والدین کو خوش رکھنا نیکی اور افضل اعمال میں سے ہے۔ جب وہ اسے پکاریں تو فوراً جواب دے، چاہے دونوں پکاریں یا کوئی ایک۔ اگر وہ نفلی نماز میں ہوتو نماز مختصرکرکے اس سے فارغ ہوکر فوراً ان کا جواب دے۔
اسی طرح والدین پر بھی یہ حق ہے کہ اولادسے نرمی کا برتائو کریں اپنے ساتھ نیکی کرنے پر اس کی مدد کریں اور اس کے ساتھ نہایت رفق او شفقت کا معاملہ کریں، کیونکہ اللہ کی مدد سے ہی انسان اطاعت اور فرائض بجالاتاہے۔
ادب21:۔
جب آپ اپنے والد یا کسی قابل احترام قریبی شخص یا اپنے برابر کے یا کم درجہ کے دوست کے استقبال کے لیے گھر سے باہر نکلیں یا آپ خود سفر سے آرہے ہوں تو اپنی صفائی اور ظاہری وضع قطع کا خیال رکھیں، اگروہ آپ سے کم ہے تو اپنی ظاہری ہیئت کو اس طرح بنائیں جو آپ کے مناسب ہو۔ اور اگر آپ سے اونچا ہوتو اپنی ہیئت ایسی بنائیں جو اس کے مناسب ہے اس لیے کہ آنکھ خوبصورت اچھی ہیئت، صاف ستھری اور باوقار صورت کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اور ظاہری ہیئت میں کوتاہی سے بچو، کیونکہ اس سے ملاقات کی خوشی اور لذت میں کمی آتی ہے اورآنکھ کو محبوب اور محترم کو دیکھنے کا حق ہے اسے دیکھنے سے خوشی ہوتی ہے۔
انہی آداب کی طرف رسول معظم اور نبی امی صلوات اللہ وسلامہ علیہ اپنے اس قول اور ارشاد میں راہنمائی فرماتے ہیں۔
انکم قادمون علی اخوانکم فاحسنوا لباسکم واصلحوا رحالکم ومظہر دوابکم ومراکبکم حتی تکونو کانکم شامۃ فی الناس فان اللہ لایحب الفحش والتفحش
[ابودائود، حاکم مسند امام احمد]
ترجمہ: تم عنقریب اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو، لہذا اچھے لباس پہن لو، اپنی سواریوں کو درست کرلو، یعنی ان کا ظاہری منظر تاکہ تم لوگوں میں ممتاز نظرآئو اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا برے عمل اور فحش گوئی کو۔
اگر ممکن ہوتو اپنے ساتھ کوئی تحفہ وغیرہ ضرور رکھ لیں، جو آپ اپنے میزبان یا اپنے مہمان کو پیش کرسکیں، تاکہ یہ ان کے تحفہ کا بدلہ ہوجائے تو آپ ایسا ضرور کرلیں کیونکہ آنکھ ملاقات میں اچھے منظر کا انتظارکرتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ ایسی ملاقات میں نفس کو ظاہری اور باطنی خوشی حاصل ہو اور تحفہ محبت پیدا کرتاہے اسی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تھا دوا تحابوا
ترجمہ: ایک دوسرے کو ہدیہ دوآپس میں محبت بڑھے گی۔
سلف صالحین کے حالات سے پتہ چلتاہے کہ جب وہ کسی کو ملنے جاتے تو اپنے ساتھ تحفہ لے کر جاتے اگرچہ وہ پیلو کی مسواک ہی کیوں نہ ہو۔
ادب22:۔
جب آپ کے ہاں کوئی مہمان آئے تو آپ کو اس کی مہمانی کے آداب معلوم ہونے چاہیں اوراس کے اکرام کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ اس کے کھانے پینے میں مبالغہ کریں کیونکہ ان امور میں اعتدال سنت ہے اوربغیر اسراف کے اکرام مطلوب ہے۔میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ آپ اس کے بیٹھنے، آرام کرنے اور سونے کا اچھا بندوبست کریں اور گھر میں اسے قبلہ کی سمت اوررخ بتائیں اور اسے وضو اور طہارت کی جگہ بتلائیں اور اس جیسی دوسری ضروریات کا خیال رکھیں۔
جب آپ اپنے مہمان کو وضو کے بعد یاکھانے کے بعد یا ہاتھ دھونے کے بعد تولیہ پیش کریں تو وہ صاف ستھراہونا چاہیے وہ آپ کے یا آپ کے گھر والوں کے استعمال والانہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگرممکن ہوتو آپ اس کے سامنے خوشبو بھی پیش کریں تاکہ وہ خوشبو لگائے اسی طرح آئینہ بھی پیش کریں تاکہ وہ اپنے آپ کو سنوارسکے ایسے ہی غسل خانہ اور بیت الخلاء میں استعمال ہونے والی اشیاء صاف ستھری ہونی چاہیں اور غسل خانہ سے ایسی تمام ایسی چیزیں اٹھا دیں جن پر مہمان اور اجنبی شخص کی نگاہ پڑنا مناسب نہیں۔
نیند اورآرام کے وقت مہمان کی راحت کاخیال رکھیں، بچوں کی چیخ وپکار اور گھر کے شور وغل سے اسے بچائیں۔ مہمان کی نگاہ سے مستورات کے کپڑے اور ان سے متعلق جوچیزیں ہیں انہیں دور رکھیں، کیونکہ یہ وقار کاحصہ ہے اور یہ آپ کے اور مہمان کے لیے عزت کا باعث ہے۔
آپ خود بھی مہمان کے سامنے اچھی ہیئت میں آئیں اگرچہ اس میں تکلف نہ ہو۔ نہایت ذوق اور احترام سے اس کی خدمت کریں اور اچھی دوستی اور محبت کی وجہ سے اس میں سستی اور وقار کے خلاف وضع وقطع اختیار نہ کریں ہمارے سلف صالحین جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو اپنے ظاہر کا بہتر اہتمام کرتے تھے۔
[بخاری ومسلم]
جب آپ خود کسی دوسرے یا رشتہ دار کے ہاں مہمان ہوں تو کوشش کریں کہ اس پرآپ بارنہ بنیں اس کے مشاغل اور کام کے اوقات کا خیال رکھیں، اورمہمانی کے وقت کو جتنا ممکن ہو، مختصررکھیں، کیونکہ ہر شخص کے تعلقات فرائض اور مختلف ظاہری اور مخفی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لہذا اپنے میزبان کے ساتھ نرم برتائو کیجئے اور اس کے اپنے امور، اعمال اور فرائض کے ادا کرنے میں اس کے معاون بن جائیے۔
جب آپ میزبان کے گھرمیں ہوں تو اپنی نگاہ کو تتبع اور تلاش میں آزاد نہ چھوڑیں خصوصاً جب آپ کو کسی دوسرے کمرے میں بلایا جائے جو مہمان کے لیے خاص نہیں لہذا اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں، کیونکہ ممکن ہے وہاں کوئی ایسی چیز ہو جس کا دیکھنا آپ کے لیے نامناسب ہو،نیز غیر متعلقہ سوالات سے بھی بچیں۔
ادب23:۔
آپ کے مسلمان بھائی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہوجائے تو آپ اس کی تیمارداری کریں اس سے اسلامی اخوت اور شجر مراسم کی سیرابی ہوتی ہے اورا س میں بہت زیادہ اجروثواب بھی ہے جس میں نیکیوں کا حریص کبھی کوتاہی نہیں کرتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکاارشاد ہے۔
ان المسلم اذا عاد اخاہ المسلم لم یزل فی خرفۃ الجنۃ حتی یرجع قیل یا رسول اللہ وما خرفۃ الجنۃ قال جناھا۔
یعنی ا یک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کرتاہے تو وہ برابر جنت کی خوشوں میں رہتا ہے جب تک کہ واپس نہ لوٹے آپ سے پوچھا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے خوشوں کا کیامطلب ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پھل۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:۔
من عاد مریضا لم یزل یخوض فی الرحمۃ حتی یجلس فاذاجلس اغتمس فیھا۔
(رواہ احمد وابن ماجہ]
یعنی ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کرتاہے تو وہ برابر اللہ کی رحمت میں غوطے لگاتاہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے اور جب وہ بیٹھ جاتاہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
ادب24:۔
جب آپ کسی بیمار کی تیمارداری کریں تو یہ نہ بھولیں کہ تیمار داری کے بھی کچھ آداب ہیں جوکہ تیمارداری کرنے والے سے مطلوب ہیں تاکہ یہ تیمارداری مریض کے لیے نشاط کاذریعہ بنے اور اس کی ہمت کو بڑھائے اور اس کی تکالیف کو ہلکا کرنے میں مددگار ہو۔ اور یہ اس اجر وثواب کے علاوہ ہے جو اسے صبر کرنے اور اجر کی نیت پر ملتاہے۔
مریض کی تیمارداری کرنے والے کو چاہیے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرے کیونکہ مریض کے مرض سے بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جو زیادہ دیر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے مریض کی عیادت کی مثال جمعہ کے خطیب کے جلسہ کی سی ہے یعنی جس طرح وہ دو خطبوں کے درمیان مختصر اور ہلکا سا بیٹھتا ہے اسی طرح مریض کے پاس بھی مختصر وقت بیٹھنا چاہیے اس سلسلہ میں عربی کے چند اشعار ہیں۔
ادب العیادۃ ان تکون مسلما
وتکون فی اثر السلام مودعا
یعنی تیمارداری کے آداب میں سے ہے کہ مریض کو سلام کرو، اور سلام کے بعد اسے الوداع کہہ دو نیز کہا گیاہے۔
حسن العیادۃ یوم بین یومین
واقدر قلیلا کمثل اللحظ بالعین
لا تبسر من علیلا فی مسالۃ
یکفیک من ذاک تسألہ بحرفین
یعنی تیمارداری ایک دن چھوڑ کرو اور مریض کے پاس اتنا تھوڑا بیٹھو جیسے آنکھ کے جھپکنے کا وقت، اور مریض سے سوالات کرکے اسے پریشان مت کرو، پس دو حرفی سوال کافی ہے۔ یعنی تیمارداری کرے والا مریض سے کہے، آپ کے مزاج کیسے ہیں ؟اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے۔
حافظ ابن عبدالبر نے الفافی میں لکھاہے:’’جو شخص کسی تندرست سے ملاقات کرے یا کسی بیمار کی تیمارداری کرے تو اسے چاہیے کہ جہاں وہ اسے بٹھائے وہاں بیٹھے کیونکہ یہ شخص اپنے گھر کے پردہ کی جگہ کو خوب جانتاہے۔‘‘بیمارکی عیادت سنت موکدہ ہے اور سب سے اچھی عیادت وہ ہے جو مختصر ہو، تیمار دار کو چاہیے کہ بیمار کے پاس زیادہ نہ بیٹھے۔ الایہ کہ وہ اس کا دوست ہو جو اس سے مانوس ہے اور اس کے بیٹھنے سے وہ خوش ہوتاہو۔