ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

گیارہویں قسط

ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظمؔ
دریا کے ایک کنارے پر ظہیر الدین محمد بابر اور دوسرے کنارے پر سلطان احمد مرزا کی فوج کیل کانٹے سے لیس صف بستہ ہوکر آمادہ جنگ دکھائی دیتی تھی۔ بابر کی عقابی نگاہیں اس سارے منظر نامے کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ دریا کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ دور دور تک دلدلی سلسلہ چلا گیا تھا جس کاواضح مطلب یہ تھا کہ سلطان احمد مرزا کی فوج کے پاس دریا کو عبور کرنے کے لیے پل کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا یہ بات بابر کے لیے باعث اطمینان تھی کیونکہ وہ غنیم کو باآسانی دوسرے کنارے تک پہنچنے سے روک سکتاتھا۔
بابر نے اپنے معتمد امراء کے مشورے سے اپنی فوج کو دریا کے کنارے پل کے دونوں جانب دور دور تک پھیلا دیاتھاکہ دشمن کو دریا عبورکرنے سے بہر طور روکا جاسکے۔ بابر کی نظریں برابر دشمن فوج کی نقل وحرکت کاجائزہ لے رہی تھیں۔ بابر نے دیکھاکہ سلطان احمد مرزا بڑی مستعدی کے ساتھ گھوم پھر کر اپنی فوج کی صف بندی کا معائنہ کر رہا تھا اور وہ اس بات کاجائزہ بھی لے رہاتھا کہ پل کے علاوہ وہ دریاکس طرح عبور کرسکتاہے کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں چاہتا تھاکہ کنارے کی دلدلی زمین کو عبورکرتے ہوئے وہ اپنی فوج کو ہلاکت کی نذر کردے پل کو عبور کرنے کے علاوہ اس کے پاس دشمن تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا وہ اسی سوچ میں گم گھوڑے پر سوار ہوکر ادھر سے ادھراور ادھر سے ادھر محو گشت تھا۔
چونکہ بابر او سلطان احمد کے درمیان کافی فاصلہ تھا اس لیے بابر؛ سلطان احمد مرزا کی طرف سے اپنی فوج کو دی جانے والی ہدایات تو نہیں سن پا رہا تھا مگر اس کے ہاتھوں کے اشاروں کنایوں سے یہ ضرور معلوم ہو رہا تھاکہ وہ اس کے خلاف کچھ منصوبے بنا رہاتھا۔
بابر نے حفظ ما تقدم کے طور پر حسن یعقوب کی سرکردگی میں بارہ تیر اندازوں کا ایک بہت بڑا دستہ پل کے مقابل تعینات کر دیا اور اسے حکم دیاکہ اگر دشمن پل عبور کرنے کی کوشش کرے تواسے تیروں کی باڑ پر رکھ لے۔ تیر اندازوں کے دستے کے عقب میں ایک اور دستہ تعینات کردیا گیا جو شمشیرزنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اس دستے کی کمان ماہر شمشیر زن سلاخ کے سپرد کردی گئی۔
دریا کے کنارے کنارے پل کے دونوں طرف دور دور تک فوج کو اس طرح پھیلا دیا گیا کہ اس کی اگلی صف میں ماہر تیر انداز اور پچھلی صف میں ماہر شمشیر زن ایستادہ تھے۔ بابر کویہ یقین تھا کہ اس کی یہ حکمت عملی دشمن کو دریا عبور کرنے سے بخوبی روک سکتی تھی۔دشمن فوج کے سپاہی بڑے پرجوش دکھائی دے رہے تھے وہ فقط سلطان احمد مرزا کے اشارے کے منتظر تھے ان کاخیال تھا کہ وہ بارہ سالہ نوآموز شہزادے کی فوج کوچشم زدن میں کاٹ کر پھینکیں گے اور پھر دندناتے ہوئے اندر جان تک جا پہنچیں گے۔مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہونے والانہیں تھا۔ اگر چہ سلطان احمد مرزا کے سرداران فوج اپنی فتح پر کامل یقین رکھتے تھے مگر سلطان احمد مرزا کسی گہری سوچ میں مبتلا نظر آرہا تھا کیونکہ وہ کسی جلد بازی سے کام لے کر اپنی فوج کو موت کے منہ میں نہیں دھکیل سکتا تھا۔ وہ بار بار اپنے سرداران کو یہ مشورہ دے رہا تھا کہ وہ عجلت سے کام نہ لیں …مگر سردار کنارے پر کھڑے کھڑے اپنا وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر عجلت پسند ہے اور یہی عجلت پسندی اکثر اوقات اسے ہلاکت سے بھی دوچار کردیتی ہے۔ یہی فطری عجلت پسندی سلطان احمد مرزا کے پرجوش سپاہیوں کو دریا عبور کرنے پر مجبور کئے دے رہی تھی جبکہ سلطان احمد مرزا کی آنکھوں میں چار سال پہلے پیش آنے والا تباہی کا منظر گھوم رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار اپنے سرداروں کو عجلت پسندی سے منع کر رہا تھا مگر ان کے پائوں تھے کہ زمین پر ٹکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
سلطان احمد مرزا کے سردارباربار اسے خاقان اعظم کے خطرے سے آگاہ کر رہے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے سُستی سے کام لیاتو شمال کی جانب سے خاقان اعظم آخشی اور اندر جان میں داخل ہوکر فرغانہ پر قابض ہوجائے گا اور پھر ہم اپنے ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں گے اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے ہمیں بہر طور دریاکو عبور کر کے اندر جان کو اپنے دائرہ اختیار میں لے لینا چاہیے۔
سلطان احمد مرزا ایک کمزور دل انسان تھا گذشتہ تباہی کا منظر جونہی اس کی نظروں میں گھومتا تواس کے دل میں ہول سا اٹھنے لگتا …اور اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ایک طرف تو اس کے سامنے خاقان اعظم کا ہواسا کھڑا تھا جب کہ دوسری طرف اس کا مد مقابل اس کا بھتیجا تھا جو اس کی چہیتی شہزادی عائشہ سے منسوب تھا اور اس پر مستزاد اس کے فوجی سرداروں کا دبائو اندریں حالات سلطان احمد مرزا کا رہامختلف حالات کی آماج گاہ بنا ہو اتھا وہ خیالات کی اس گھتی کو جس قدر سلجھانا چاہتا تھا وہ اس قدر اور الجھتی چلی جارہی تھی۔وہ اپنے سرداروں سے صرف اس قدر ہی کہہ سکا کہ’’سوچ سمجھ کر قدم اٹھائو! ایسا نہ ہو کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر شرمندگی سے دوچار ہونا پڑے اگر باردگر ایسا ہوا تو پھر زندگی بھر ہم اندر جان کا رخ نہ کرسکیں گے مجھے تو یہ سوچ سوچ کر ہول آرہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جان سے جائیں اور ان سے بھی جائیں۔ ‘‘
ایک سردار نے نہایت مؤدبانہ انداز میں سلطان احمد مرزا سے کہا کہ’’آپ نے جو کچھ بھی فرمایا ہے، درست فرمایاہے۔ مگر… یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہم سمر قند سے یہاں تک چل کر اس لیے آئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وادی فرغانہ پر قبضہ کرنا ہمارا حق ہے اس خوبصورت وادی کو بارہ سالہ لڑکے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتاجوکہ ہمارے پھرکوں کی امانت ہے ہم یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے آباء واجداد کے اس ورثے پر مغلستان کا وحشی خاقان قبضہ جما لے۔ اس سے پہلے کہ خاقان کے قدم اس کی طرف بڑھائیں، ہمیں اس کو اپنے احاطہ اقتدار میں سے لینا چاہیے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا پس وقت کا یہی تقاضا ہے کہ ہمیں کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر قدم بڑھاتے ہوئے اندر جان میں داخل ہو جانا چاہیے ورنہ عمر بھر اپنی مصلحت کوشی کا پچھتاو ا رہے گا۔‘‘
سردار کی پرجوش تقریر نے سلطان احمد مرزا پر بہت اثر کیا بنا بریں اس نے بالآخر آگے بڑھنے کی اجازت دے دی سلطان احمد مرزا کے سرداروں نے اجازت ملتے ہی اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔ ہر سپاہی بڑا پر جوش تھا اور دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتاتھا اس لیے دھکم پیل شروع ہوگئی جس کی وجہ سے پل پر رش بڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناقابل برداشت بوجھ کی بنا پر پل بیٹھ گیا۔ سپاہی گھوڑوں سمیت پانی میں ڈوبتے چلے گئے پل کی اطراف میں پھیلے ہوئے فوجیوں نے بھی نا عاقبت اندیشانہ انداز میں اپنے گھوڑے دریامیں ڈال دیے اس بات کی پروا کیے بغیر کہ دریاکی ساحلی زمین دلدلی ہے اور مجنونانہ اندازمیں آگے بڑھتے چلے گے کیونکہ وہ جلداز جلد دوسرے کنارے پر پہنچنا چاہتے تھے۔
انہیں اپنی یہ جرات رندانہ بہت مہنگی پڑی۔ وہ اپنے گھوڑوں سمیت دریاکی تہہ میں موجود کیچڑ اور دلدل میں غائب ہوتے چلے گئے اور بالفرض محال جو لوگ دریاکوایسی جگہ سے عبور کر رہے تھے جہاں اسے اس کی تہ دلدلی اثرات سے قدرے محفوظ تھی تو بدقسمتی سے انہیں دوسرے کنارے پر پہنچنے سے پہلے ہی بابر کے تیراندازوں کی تیراندازی نے آلیااور اس طرح دریاکا دوسرا کنارہ دیکھنے کی حسرت دل میں لیے ہوئے راہی ملک عدم ہوتے چلے گئے۔ کچھ منچلے جو دوسرے کنارے تک پہنچ بھی گئے تو انہیں بابرکے شمشیرزنوں نے اپنی نوک ہائے شمشیر پرلے لیا۔
دریا کے پانی کا تیز بہاو ٔ دریاکی تہہ کی دلدلی کیفیت اور دریا پر بنے پل کی شکستگی جنوبی سمر قندیوں کے جنوں کو کم نہ کرسکی۔ بالفرض محال جولوگ دوسرے کنارے پر پہنچ ہی گئے وہ گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیے گئے سلطان احمد مرزا اپنی فوج کی تباہی کومتوحش نظروں سے دیکھ رہا تھا اسے ایک مرتبہ پھر منہ کی کھانی پڑ رہی تھی۔ اہل فرغانہ نے ایک مرتبہ پھر اسے غیریقینی تباہی سے ہمکنار کر دیا تھا۔سلطان احمد مرزا نے ناموافق صورت حال کے پیش نظر اپنے فوجیوں کو فورا جنگ بند کر دینے کاحکم دیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سمر قندی اپنی بچی کھچی افرادی قوت کے ساتھ جانب سمر قند رواں دواں ہوگئے۔بابر اپنی غیرمتوقع کامیابی پر نہایت ہی شاداں وفرحاں دکھائی دے رہاتھا جب دریا کا دوسرا کنارا سمرقندیوں کے وجود سے پاک ہوگیا توبابر نے بھی اپنی فوج کو واپسی کا حکم دیا۔ (جاری ہے]