انجام بخیر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انجام بخیر
پطرس بخاری
ایک تنگ وتاریک کمرہ جس میں بجز ایک پرانی سی میز اور ایک لرزہ براندام کرسی کے اور کوئی فرنیچر نہیں۔ زمین پر ایک طرف چٹائی بچھی ہے۔ جس پر بے شمار کتابوں کا انبار لگاہے اس انبار سے جہاں جہاں کتابوں کی پشتیں نظر اتی ہیں وہاں شیکسپئیر، ٹالسٹائی، ورڈز ورتھ وغیرہ مشاہیر ادب کے نام دکھائی دے جاتے ہیں۔
باہر کہیں پاس ہی کتے بھونک رہے ہیں قریب ہی ایک برات اتری ہوئی ہے اس کے بینڈ کی آواز سنائی دے رہی ہے جس کے بجانے والے دق، دمہ، کھانسی اور اسی قسم کے دیگر امراض میں مبتلا معلوم ہوتے ہیں۔ ڈھول بجانے والے کی صحت البتہ اچھی ہے۔
پطرس نامی ایک نادار معلم میز پر کام کررہاہے۔ نوجوان ہے، لیکن چہرے پر گزشتہ تندرسی اور خوش باشی کے آثارکہیں کہیں باقی ہیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے ہیں چہرے سے ذہانت پسینہ بن کر ٹپک رہی ہے۔
سامنے لٹکی ہوئی ایک جنتری سے معلوم ہوتاہے کہ مہینے کی آخری تاریخ ہے۔باہر سے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتاہے پطرس اٹھ کر دروازہ کھول دیتاہے۔ تین طالب علم نہایت اعلیٰ لباس زیب تن کئے اندرداخل ہوتے ہیں۔
پطرس: حضرات اندر تشریف لے آئیے آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے لیکن جاہ حشمت کا خیال پوچ خیال ہے علم بڑی نعمت ہے۔ لہذا اے میرے فرزندو! اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن کر ان پر بیٹھ جائو۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کو بچھونا ہونا چاہیے۔
کمرے میں ایک پراسرارنور سا چھا جاتاہے فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔
طالب علم،تینوں مل کر:۔
اے خدا کے برگزیدہ بندے اے ہمارے محترم استاد ہم تمہارا حکم ماننے کو تیار ہیں۔ علم ہی ہم لوگوں کااوڑھنا اور علم ہی ہم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیے۔
کتابوں کو جوڑ کران پر بیٹھ جاتے ہیں۔
پطرس: کہو اے ہندوستان کے سپوتو! آج تم کو کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی۔
پہلا طالب علم: اے نیک انسان ہم آج تیرے احسانوں کا بدلہ اتارنے آئے ہیں۔
دوسراطالب علم: اے فرشتے ہم تیری نوازشوں کا ہدیہ پیش کرنے آئے ہیں۔
تیسراطالب علم: اے ہمارے مہربان ہم تیری محنتوں کا پھل تیرے پاس لائے ہیں۔
پطرس: یہ نہ کہو، خود میری محنت ہی میری محنت کا پھل ہے کالج کے مقررہ اوقات کے علاوہ جوکچھ میں نے تم کو پڑھایا، اس کا معاوضہ مجھے اس وقت وصول ہوگیا جب میں نے تمہاری آنکھوں میں ذکاوت چمکتی دیکھی۔ آہ! تم جانتے ہوکہ تعلیم وتدریس کیسا آسمانی پیشہ ہے تاہم تمہارے الفاظ سے میرے دل میں ایک عجیب مسرت سی بھر گئی ہے مجھ پر اعتماد کرو، بالکل مت گھبرائو، جو کچھ کہنا ہے تفصیل سے کہو۔
پہلا طالب علم: (سروقد اور دست بستہ کھڑاہوکر) اے محترم استاد ہم علم کی بے بہا دولت سے محروم تھے درس کے مقررہ اوقات سے ہماری پیاس نہ بجھ سکتی تھی۔ پولیس اور سول سروس کے امتحانات کی کڑی آزمائش میں تو نے ہماری دستگیری کی اور ہمارے تایک دماغوں میں اجالاہوگیا۔ مقتدرمعلم توجانتاہے آج مہینے کی آخری تاریخ ہے ہم تیری خدمتوں کا حقیر سا معاوضہ پیش کرنے آئے ہیں۔ تیرے عالمانہ تبحر اور تیری بزرگانہ شفقت کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتاتاہم اظہار تشکر کے طور پر جو کم مایہ رقم ہم تیری خدمت میں پیش کریں اسے قبول کر،کہ ہماری احسان مندی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
پطرس: تمہارے الفاظ سے ایک عجیب بے قراری میرے جسم پر طاری ہوگئی۔
پہلے طالب علم کا اشارہ پاکر باقی دوطالب علم بھی کھڑے ہوجاتے ہیں باہر بینڈ یک لخت زور زور سے بجنے لگتاہے۔
پہلا طالب علم: (آگے بڑھ کر) اے ہمارے مہربان مجھ حقیر کی نذر قبول کر (بڑے ادب واحترام کے ساتھ اٹھنی پیش کرتاہے۔
دوسرا طالب علم: (آگے بڑھ کر)اسے فرشتے میرے ہدیے کو شرف قبولیت بخش (اٹھنی پیش کرتاہے۔
تیسرا طالب علم: (آگے بڑھ کر)اے نیک انسان مجھ ناچیز انسان کو مفتخر فرما (اٹھنی پیش کرتاہے۔
پطرس: (جذبات سے بے قابو ہوکر رقت انگیز آواز سے)اے میرے فرزندو خداوند کی رحمت تم پر نازل ہو۔ تمہاری سعادتمندی اورفرض شناسی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ تمہیں اس دنیا میں آرام اورآخرت میں نجات ہو اور خدا تمہارے سینوں کو علم کے نور سے منور رکھے(تینوں اٹھنیاں اٹھا کرمیز پر رکھ لیتاہے]
طالب علم: (تینوں مل کر)اللہ کے بر گزیدہ بندے! ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اجازت چاہتے ہیں کہ گھر پرہمارے لیے بے تاب ہوں گے۔
پطرس: خدا تمہارا حامی وناصر ہو اور تمہاری علم کی پیاس اور بھی بڑھتی رہے۔
طالب علم چلے جاتے ہیں
پطرس: (تنہائی میں سربسجود ہو کر ) باری تعالیٰ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنی ناچیز محنت کے ثمر کے لیے بہت دنوں انتظار میں نہ رکھا۔ تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں لیکن ہماری کم مائیگی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ تیرا ہی فرض وکرم ہے کہ تو میرے وسیلے سے اوروں کو بھی رزق پہنچاتاہے اور جو ملازم میری خدمت کرتاہے اس کا بھی کفیل تو نے مجھ ہی کو بنا رکھا ہے تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں اور تیری بخشش ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے۔
کمرے میں پھر ایک پراسرار سی روشنی چھا جاتی ہے اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے کچھ دیر کے بعد پطرس سجدے سے سر اٹھاتا ہے اور ملازم کو آواز دیتاہے۔
پطرس: اے خدا کے دیانتدار اور محنتی بندے! ذرا یہاں توآئیو۔
ملازم: (باہر سے) اے میرے خوش خصال آقا! میں کھاپکاکرآئوں گا کہ تعجیل شیطان کاکام ہے۔
ایک طویل وقفہ جس کے دوران میں درختوں کے سائے پہلے سے دگنے لمبے ہو گئے ہیں
پطرس: آہ انتظار کی گھڑیاں کس قدر شیریں ہیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز کس خوش اسلوبی سے بینڈ کی آوازسے ساتھ مل رہی ہے۔
سر بسجود گرپڑتاہے
پھر اٹھ کر میز کے سامنے بیٹھ جاتاہے اٹھنیوں پر نظر پڑتی ہے۔ ان کو فوراً ایک کتاب کے نیچے چھپا دیتاہے۔
پطرس: آہ مجھے زرودولت سے نفرت ہے۔ خدایا میرے دل کو دنیا کے لالچ سے پاک رکھیو۔
ملازم اندر آتاہے
پطرس: اے مزدور پیشہ انسان مجھے تجھ پر رحم آتاہے کہ ضیائے علم کی ایک کرن بھی کبھی تیرے سینے میں داخل نہ ہوئی۔تاہم خداوند تعالیٰ کے دربار میں تم ہم سب برابرہیں۔ تو جانتا ہے آج مہینے کی آخری تاریخ ہے تیری تنخواہ کی ادائیگی کا وقت سرپرآگیا۔ خوش ہوکر آج تجھے اپنی مشقت کا معاوضہ مل جائے گا۔ یہ تین اٹھنیاں قبول کر۔ اور باقی ساڑھے اٹھارہ روپے کے لیے کسی لطیفہ غیبی کا انتظار کر۔ دنیا امید پر قائم ہے اور مایوسی کفر ہے۔
ملازم اٹھنیاں زور زور سے زمین پر پھینک کر گھر سے باہر نکل جاتاہے بینڈ زور سے بجنے لگتاہے۔
پطرس: خدایا تکبر کے گناہ سے ہم سب کو بچائے رکھ اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں کا سا غرور ہم سے دور رکھ۔
پھر کام میں مشغول ہوجاتاہے
باورچی خانے میں کھانا جلنے کی ہلکی ہلکی بوآرہی ہے…ایک طویل وقفہ کے دوران میں درختوں کے سائے پہلے سے چوگنے لمبے ہوگئے ہیں۔ بینڈ بدستور بج رہاہے یک لخت باہر سٹرک پر موٹروں کے آکر رک جانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
تھوڑی دیر بعدکوئی شخص دروازے پرد ستک دیتاہے
پطرس: (کام پر سے سراٹھاکر)اے شخص تو کون ہے؟
ایک آواز: (باہر سے)حضور! میں غلاموں کا غلام ہوں اور باہر دست بستہ کھڑاہوں کہ اجازت ہو تو اندر آئوں اور عرض حال کروں۔
پطرس: (دل میں ) اس آواز سے نا آشنا ہوں لیکن لہجے سے پایا جاتاہے کہ بولنے والا کوئی شائستہ شخص ہے۔ خدایا یہ کون ہے؟(بلند آواز سے)اندر آجائیے!
دروازہ کھلتاہے اور ایک شخص لباس فاخرہ پہنے اندر داخل ہوتاہے چہرے سے وقار ٹپک رہاہے۔ لیکن نظریں زمین دوزہیں اور ادب واحترام سے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔
پطرس: آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک ہی کرسی ہے لیکن جاہ وحشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے علم بڑی نعمت ہے لہذا اے محترم اجنبی اس انبار میں سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو۔ اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن کر ان پر بیٹھ جائو۔ علم ہی ہم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی ہم لوگوں کا بچھونا ہوناچاہیے۔
اجنبی: اے برگزیدہ شخص میں تیرے سامنے کھڑے رہنے ہی میں اپنی سعادت سمجھتاہوں۔
پطرس: تمہیں کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی؟
اجنبی: اے ذی علم محترم! گوتم میری صورت سے واقف نہیں لیکن میں شعبہ تعلیم کا افسر ہوں اور شرمندہ ہوں کہ میں آج تک کبھی نیاز حاصل کرنے کے لیے حاضر نہ ہوا۔میری اس کوتاہی اور غفلت کو اپنے علم وفضل کے صدقے معاف کردو۔
آبدیدہ ہوجاتاہے
پطرس: اے خدا کیایہ سب وہم ہے کیامیر ی آنکھیں دھوکاکھارہی ہیں ؟
اجنبی: مجھے تعجب نہیں کہ تم میرے آنے کو وہم سمجھو۔ کیونکہ آج تک ہم نے تم جیسے نیک اور برگزیدہ انسان سے اس قدر غفلت برتی کہ مجھے خود معلوم ہوتاہے لیکن مجھے پر یقین کرو۔ میں فی الحقیقت یہاں تمہاری خدمت میں کھڑاہوں اور تمہاری آنکھیں تمہیں ہرگز دھوکانہیں دے رہیں۔ اے شریف اور غم زدہ انسان یقین نہ ہوتو میرے چٹکی لے کر میرا امتحان کرلو۔
پطرس اجنبی کے چٹکی لیتاہے اجنبی زور سے چیختاہے
پطرس: ہاں اب مجھے کچھ کچھ یقین آگیا۔ لیکن حضوروالا! آپ کا یہاں قدم رنجہ فرمانا میرے لیے اس قدر باعث فخر ہے کہ مجھے ڈر ہے کہیں میں دیوانہ نہ ہوجائوں۔
اجنبی: ایسے الفاظ کہہ کر مجھے کانٹوں میں نہ گھسیٹو اور یقین جانو کہ میں اپنی گزشتہ خطائوں پر بہت نادم ہوں۔
پطرس: (مبہوت ہوکر) مجھے اب کیا حکم ہے؟
اجنبی: میری اتنی مجال کہاں کہ میں آپ کوحکم دوں البتہ ایک عرض ہے۔ اگر آپ منظور کرلیں تو میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھوں۔
پطرس: آپ فرمائیے میں سن رہاہوں۔ گو مجھے یقین نہیں کہ عالم بیدارہے۔
اجنبی تالی بجاتا ہے چھ خدام چھ بڑے بڑے صندوق اٹھاکر اندرداخل ہوتے ہیں اور زمین پر رکھ کر بڑے ادب سے کورنش بجا لاکر چلے جاتے ہیں
اجنبی: (صندوقوں کے ڈھکنے کھول کر) میں بادشاہ معظم، شاہزادہ ویلز، وائسرائے ہند اور کمانڈر انچیف ان چاروں کے ایماپر یہ تحائف آپ کی خدمت میں آپ کے علم و فضل کی قدر دانی کے طورپر لے کر حاضر ہوا ہوں (بھرائی ہوئی آواز سے) ان کو قبول کیجئے۔ اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے ورنہ ان سب کادل ٹوٹ جائے گا۔
پطرس: (صندوقوں کو دیکھ کر) سونا، اشرفیاں، جواہرات، مجھے یقین نہیں آتا!(آیۃ الکرسی پڑھنے لگتاہے۔
اجنبی: ان کو قبول کیجئے اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے۔(آنسو ٹپ ٹپ گرتے ہیں [
گانا آج موری اکھیاں پل نہ لاگیں
پطرس: اے اجنبی تیرے آنسوکیوں گر رہے ہیں اور توکیوں گارہاہے؟ معلوم ہوتا ہے تجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں۔ یہ تیری کمزوری کی نشانی ہے خدا تجھے تقویت اور ہمت دے۔ میں خوش ہوں کہ تو اور تیرے آقاعلم سے اس قدر محبت رکھتے ہیں۔ بس اب جاکہ ہمارے مطالعے کا وقت ہے کل کالج میں اپنے لیکچروں سے ہمیں چار پانچ سو روحوں کو خواب جہالت سے جگانا ہے۔
اجنبی: (سسکیاں بھرتے ہوئے) مجھے اجازت ہوتو میں حاضر ہوکر آپ کے خیالات سے مستفید ہوں۔
پطرس: خدا تمہار حامی وناصر ہواور تمہارے علم کی پیاس اوربھی بڑھتی رہے۔
اجنبی رخصت ہوجاتاہے پطرس صندوقوں کو کھوئی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتاہے اور پھر یکلخت مسرت کی ایک چیخ مارکر گر پڑتاہے اور مر جاتاہے کمرے میں ایک پر اسرار نور چھا جاتا ہے اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ باہر بینڈ بدستور بج رہاہے