گھریلو جھگڑے کیسے ختم ہوں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
گھریلو جھگڑے کیسے ختم ہوں ؟
پیر ذوالفقار نقشبندی مدظلہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اشعار بنائے اور یہ ان کے شعر بڑے مشہور ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس سے فارغ ہو کر گھر تشریف لا ئے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے چہرے کے ساتھ تشریف لا تے تھے، سلام کرتے تھے اس وقت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شعر سناتی تھی کیا شعر سناتی تھی فرماتی تھیں۔
لنا شمس وللآفا ق شمس
اے آسمان تیرا بھی ایک سورج ہے اور ایک ہمارا بھی سورج ہے
وشمسی خیرمن شمس السماء
اور میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے
فان الشمس تطلع بعد الفجر
اس لئے کہ آسمان کا سورج فجر کے بعد طلوع ہو تا ہے
وشمسی طالع بعد العشاء
اور میرا سورج تو میرے گھر میں عشاء کے بعد طلوع ہو تا ہے
اب سوچئے کہ بیوی اگر ان الفاظ کے ساتھ خاوند کا استقبال کرے تو خاوند کے دل میں کس قدر بیوی کی محبت آئے گی ! کوئی ہے آپ میں سے ایسی بیوی کہ جس نے کبھی خاوند کی محبت میں ایسے اشعار کہیں ہو یا کوئی فقرہ ہی ایسا بول دیا ہو۔ عورت یہ سمجھ لیتی ہے کہ بس خاوند ہی کی ذمہ دوری ہے کہ وہ اظہار کرے اور اپنے آپ کو سمجھتی ہے کہ میں جتنا اظہار نہیں کروں گی اتنی محبوبہ بن جاؤں گی یہ بہت بڑی Misunderstanding (غلط فہمی) ہے۔ تا لی دو ہاتھ سے بجتی ہے چاہیے کہ محبت کا اچھے انداز میں اظہار کیا جا ئے۔ عمل سے بھی، قول سے بھی، فعل سے بھی۔ چنانچہ جب خاوند محبت کا اظہار کرے تو بیوی بھی جواب میں محبت کا اظہار ضرور کرے ایسے الفا ظ سے کہ خاوند کا دل مطمئن ہو جا ئے۔ کہ میری بیوی مجھے ہی چاہتی ہے۔
یہ ذہن میں رکھنا کہ اگر خاوند کے دل میں شک پڑ جا ئے کہ یہ جو نقطہ ہے ہی اور بھی کا یہ خاوند کے دل میں فرق ڈال دیتا ہے۔ بیوی کوا یسی زندگی گزارنی چا ہیے کہ خاوند کو یقین دہانی کرائے کہ میں صرف آپ ہی سے محبت کر تی ہو ں۔
اپنی خوشی پر خاوند کی خوشی کو ترجیح دے:۔
دو سری عام طور پر غلطی یہ کہ اپنی خوشی کو خاوند کی خوشی کو ترجیح دینا۔ اس کو یہ فکر لگی رہے کہ خاوند کا دل اس سے خوش رہے۔ یہ نہیں کہ بس ہر وقت مجھے ہی خوش رہنا ہے۔ خاوند کی خوشی کا خیال رکھے اس کا دل خوش ہو گا تو گھر کی ذمہ داریوں کو بھی قبول کرے گا اس کی تو جہ کا اطلاق باہر کی بجائے اپنا گھر بن جا ئے گا۔ اور دفتر میں بیٹھ کر گھر کے لئے اداس ہو گا لوگ اسے اپنے کام کے لئے روکیں گے اور یہ جان چھڑا کے بھاگ رہاہو گا۔کیوں ؟اس لئے کہ یہ سمجھتا ہو گا کہ گھر جا کر مجھے سکون ملے گا۔ خاوند کی مرضی کے خلاف کو ئی کا م نہ کرے کئی دفعہ دیکھا کہ خاوند ایک بات سے منع کر تا ہے، بیوی سنی ان سنی کر دیتی ہے اور پھر وہی کام کرتی ہے۔جب منع کرنے کے باوجود پھر وہی کام کیا جا ئے تو یہ چیز جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ اور جھگڑانہ بھی ہو تو دل میں میل آنے کا سبب ضرور بن جا تی ہے۔
خاوند کوئی کام کہے تو ذمہ داری سے کرو:۔
ایک تیسری بات کہ اگر کوئی خاوند کوئی کام ذمہ لگا ئے اسے اس طرح کرو کہ خاوند بے فکر ہو جا ئے یہ نہیں کہ جو کام اس نے ذمہ لگایا اس کو تو کیا نہیں اور دوسرے کاموں میں لگی رہی۔
مثال: خاوند نے صبح دفتر جا نا ہو تا ہے اس وقت خاوند کے کپڑے تیار ہو ں اس کا کھانا تیار ہو، یہ بیوی کی ذمہ داری ہے، اب خاوند کے دفتر کا وقت ہو گیا اور بیوی بیچاری نے ابھی کپڑے بھی نہیں نکا لے۔ کیوں نہیں نکا لے؟ جی میں سو کر ہی دیرسے اٹھی ہوں تو یہ چیز الجھن کا سبب بنے گی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے کہ مجھے اس موقع پر کیا کرنا ہے۔ سونے کا، جاگنے کا کچھ اصول ہو نا چاہیے کچھ اوقات ایسے ہو تے ہیں کہ عورت کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا پڑتا ہے۔ اب گھر کی نوکرانیوں کو کہہ دینا کہ کپڑے دھو دینا کپڑے استری کر دینااور خاوند کے لئے یہ سمجھ لینا کہ خود ہی کپڑے نکا ل لے گا اور تیار ہو کر دفتر چلا جا ئے گا اور اس وقت میری نیند میں خلل نہیں آنا چاہیے، یہ انتہا ئی بے وقوفی کی بات ہے۔ یہ زندگی کی ساتھی ہے اسے اپنی خدمت کے ذریعے خاوند کا دل جیتنا چا ہیے چنانچہ خاوند کوئی کام ذمہ لگا ئے تو اسے اپنا فرض منصبی سمجھے اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں۔
فر مائش کرتے ہو تے مرد کی گنجائش کو دیکھنا چاہیے:۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بسا اوقات عورت مرد کی گنجا ئش سے بڑی فرمائش کر دیتی ہے تو فرمائش کرتے ہو ئے خاوند کی بھی گنجائش دیکھا کرو ! اب اگر خاوند Affordہی نہیں کر سکتا اور آپ نے ضد کر کے اگر کپڑے خرید بھی لیے تو پہن کر خاوند کو آپ خوش کیسے کر سکتی ہیں ؟ اس کا دل اگر دکھی ہو گا تو آپ نئے کپڑے لے کر اس کی محبت میں کوئی اضافہ نہیں کریں گی۔ یہ تو اصول کی بات یاد رکھیں کہ فرمائش ہمیشہ گنجائش کے مطابق ہو نی چاہیے۔
خاوند کی عطا ء پر شکریہ ادا کریں: ۔
آپ کی فرمائش کو اگر خاوند پو را کر دے تو آپ اس کا شکریہ بھی ادا کریں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ خاوند بیوی کی ہر جا ئز بات کو پورا کرتے ہیں اور جواب میں بیوی کی زنان سے شکریہ کا لفظ بھی نہیں نکلتا۔کیوں نہیں نکلتا؟ اللہ جا نے۔ یہ وہ بڑی بڑی غلطیاں ہیں جو ظاہر میں چھوٹی نظر آتی ہیں مگر دلوں میں فرق ڈال دیتی ہیں۔ خاوند تحفہ لا یا پھل خرید کر لا یااور بیوی اس کی طرف کو ئی تو جہ ہی نہ دے، ایسے سمجھے کہ ہاں ٹھیک ہے آگئی ہے کو ئی بات نہیں۔
تو اس طرح اگر بے پرواہی کا اظہار کرے گی تو خاوند کے دل پر اس کی چوٹ لگے گی جب خاوند تحفہ لا ئے تو آپ اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں اور خوشی کا اظہار کریں تا کہ اگلی دفعہ اس سے بہتر تحفے کی مستحق بن سکیں۔
خاوند کے آتے ہی گھر کا رونا دھونا نہ لے کر بیٹھ جا ئیں: ۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ خاوند جیسے ہی گھر میں آئے فوراً اس کے سامنے رونا دھونا نہ لے کر بیٹھ جا ئیں۔ پہلے اس سے بات چیت کر کے یہ پو چھے کہ باہر اس کا وقت کیسے گزرا۔ وہ خوش گھر آیا ہے یا کسی وجہ سے پریشان گھر آیا ہے یہ بات تو معلوم نہیں کرتی بس خاوند کو دیکھتی ہیں اور اپنا رونا رونے بیٹھ جا تی ہیں۔ پہلے آپ اس سے بات چیت کریں اس سے پوچھیں اس کا اندازہ لگائیں کہ خاوند باہر سے کس کیفیت سے آیا ہے؟ کو ئی کا روباری پریشانی،کسی آدمی نے کسی معاملے میں ذہنی طور پر پریشان تو نہیں کیا، اس کو کسی نے غصہ تو نہیں دلا دیا خاوند اگر باہر ہی سے کسی پریشانی کے عالم میں آیا ہے اب بیوی کو چاہیے کہ پہلے اس کے دل کو خوش کرے، اس سے میٹھی میٹھی پیار والی باتیں کرے اس کے موڈ کو نارمل کرے پھر اس کے بعد جو کہنا ہے کہے لیکن خاوند پر نظر پڑتے ہی شکوہ شکا یت لے کر بیٹھ جا نا، تمہاری امی نے یہ کہہ دیا تمہاری بہن نے یہ کہہ دیا میں تو اس گھر میں آ کر پریشان ہو گئی، تم مجھے کن مصیبتوں کے پلے ڈال کر چلے گئے؟ اس قسم کی باتیں تو اور زیا دہ Frustrate(پریشان )کرنے والی باتیں ہیں۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ باہر سے آنے والے خاوند کو پہلے بٹھائیں اور بات چیت کے ذریعے اندازہ لگا ئیں کہ اس کا ذہن فریش ہے کہ نہیں اگر جا نے کہ ٹھیک ہے تو جو آپ کی جا ئز بات ہے ضرور کریں۔ موقع کی بات سونے کی ڈالیوں کی مانند ہو تی ہے اور بے موقع بات جھگڑے کا سب بن جا تی ہے اگر کسی وقت آپ کا خاوند غصہ میں ہے تو پھر اس کے سامنے بالکل نرم ہو جائیں اتنی نفسیات ہر بیوی کو سمجھنی چاہییں۔
سمجھداری سے کام لیں: ۔
اس لئے آپ سمجھ داری سے کام لیں فقط یہ بات کہ میں خوبصورت ہوں کا فی نہیں ہو تی خاوند کو خوش کرنے کے لئے چھلکتے ہو ئے دمکتے ہو ئے حسن کی ضرورت نہیں ہو تی سمجھداری کی ضرورت ہو تی ہے۔ اس لئے کتنی ایسی عورتیں ہیں جو شکل کی نارمل سی ہو تی ہیں مگر اپنے خاوند کے دل پر راج کرتی ہیں اس لئے بزرگوں نے مقولہ بنایا
’’وہی سہاگن جسے پیا چاہے‘‘
وہی سہاگن ہو تی ہے جسے خاوند پسند کرے۔ کیا عجب بات ہے کہ لڑکی کی شکل صرف ولیمہ میں لو گ دیکھتے ہیں اور باقی ساری عمر اس کی عقل دیکھی جا تی ہے اورلڑکی کو پسند کرتے ہوئے بعض دفعہ ساس صاحبہ اس کی عقل دیکھتی ہی نہیں فقط شکل پر ہی لٹو ہو جا تی ہے اور کئی دفعہ خاوند صاحب بھی شکل پر لٹو ہو جا تے ہیں۔ ماں باپ بھی سمجھاتے ہیں کہ نہیں تیری شادی اس کے ساتھ ٹھیک نہیں ، نوجوان ضد کر لیتے ہیں کہ نہیں میں نے تو شادی اس کے ساتھ ہی کر نی ہے۔ اس لئے کہ کہیں ایک نظر دیکھی اور ظاہر کی شکل دیکھ کر وہ اچھی لگ گئی۔ اب ماں باپ کو بہت مجبور کر کے وہاں شادی کر واتے ہیں اور جب وہ گھر آتی ہے تو پھر انسان کو اس وقت حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی خوبصورت کے اندر عقل کی تو رتی بھی نہیں تھی۔ تو جب ساری زندگی عقل نے کا م کرنا ہے تو پھر اس کو کیوں نہیں دیکھتے اس لئے سمجھداری،عقلمندی گھر آباد کر نے کی بنیادی وجہ ہے۔