نیکیوں کا پھیلانا اور گناہوں سے روکنا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اس ماہ کا سبق
نیکیوں کا پھیلانا اور گناہوں سے روکنا
مولانا عاشق الہیٰ بلند شہری رحمہ اللہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سے کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے اور بہت سے کاموں سے منع کیاہے آدمی کا نفس بڑاشریرہے کچھ تو نفس کی شرارت اور کچھ شیطان کا بہکائو دونوں چیزیں مل کر انسان کو خدا کی فرنبرداری سے ہٹا دیتی ہیں یعنی جوکام کرنے کے ہیں ان کوآدمی نہیں کرتا اور جن کاموں کی ممانعت ہے ان کو کرتا ہے اللہ پاک نے گناہوں کی روک تھام اور نیکیوں کو رواج دینے کاکام سب مسلمانوں کے ذمہ فرمادیاہے، چوتھے پارے کی ایک آیت میں نیکیوں کے کرانے اور برائیوں سے روکنے کو اس امت کا خاص کام بتایاجس طرح خود نیک بننا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ضروری ہے بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اللہ کے حکموں پر چلانے کی ذمہ داری سب مسلمانوں پرہے۔
حضرت رسول مقبولﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے جو برے کام کودیھے تواس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے یعنی ہوسکے تو ہاتھ سے اس برائی کوروک دیوے اور یہ نہیں ہوسکتا تو زبان سے ٹوک دیوے اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کم سے کم دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کاکمزور درجہ ہے آج کل یہ بڑی وبا پھیل گئی ہے کہ لوگ گناہ کرتے ہیں اور گناہ کو جائز اور اچھا کام سمجھتے ہیں اور سمجھانے والوں س کہتے ہیں کہ صاحب آپ ترقی سے روکتے ہیں بھلا خدا کے حکم کے خلاف کرنے سے ترقی کیسے ہوکستی ہے بہت سے مرداور عورت خود تو نمازی ہیں مگر اپنے عزیزو، بچوں ، نوکروں محلہ والوں کو خلاف شرح چلتے دیکھتے ہیں مگر ذرا بھی زبان نہیں ہلاتے پھر مصیبت آتی ہے توبلبلاتے ہیں خوب جانتے ہیں کہ بیٹا شطرنج کا شوقین ہے تاش کھیلتا ہے، نمازیں غارت کرتاہے مگر کبھی حرف غلط کی طرح بھی یہ نہیں کہتے کہ بیٹا کیاکررہے ہو؟ یہ مسلاموں کے کام نہیں ہیں اپنے بیٹے سے اس لیے ناراض رہنے والے بہت ہیں کہ وہ دوکان پر محنت سے کام نہیں کرتا یاملازمت کی کوشش نہیں کرتا لیکن اگر اولادبدعمل فاسق اور گنہ گار ہے نماز قضاکرتی ہے تو اس وجہ سے ناراضگی اختیار کرنے کا ارواج نہیں ہے عزیزی رشتہ دارپڑوس کے مرد بے عمل ہیں نماز غارت کرتے ہیں روزہ نہیں رکھتے سو خورہیں رشوت لیتے ہیں یا اور کوئی کام خلاف شرح کرتے ہیں مگر ہم ان کو ٹوکنے میں جھجکتے ہیں اور مرور اور لحاظ میں ان کو گناہ سے نہیں روکتے یہ بہت سخت وبال کی بات ہے جب برائیاں عام ہوجاتی ہیں اور نیک لوگ اپنی نیکی کولیے بیٹھے رہتے ہیں اور یہ کوشش نہیں کرتے کہ گناہ بندہوں تو نیک وباسب پرعذاب آجاتاہے اور اس وقت دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت رسول مقبولﷺ نے کسی پہلے زمانے کی امت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کوحکم دیاکہ فلاں شہر کو مع اس کے رہنے والوں کے الٹ دے یعنی زمین کے اوپر کے حصہ کو نیچے اور نیچے کے حصہ کو اوپر کردو حضرت جبرائیل نے عرض کیا کہ ایپروردگار اس میں شک نہیں کہ ان میں تیراایک بندہ بھی ہے جس نے پل بھر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی ہے اس کی تو جان بخشی کی جاوے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو بھی اسی سزا میں شامل کرو، کیونکہ کبھی بھی میرے حکموں کی نافرمانی اورخلاف ورزی دیکھ کر بطور ناراضگی اس کے چہرے پر بل نہیں بڑا دیکھو یہ آدمی بہت نیک تھا مگر چونکہ برائیوں سے دوسروں کو نہ روکتا تھا اور گناہوں کو دیکھ کر ناراضگی ظاہر نہ کرتا تھا اس لیے عذاب میں پکڑاگیا۔
جب خداتعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اور ان سے روکانہ جاتاہوتواللہ تعالیٰ کی طرف سے سب پر عذاب آجاتاہے حضرت رسول مقبول نے فرمایاہے کہ جن لوگوں میں ایک آدمی بھی ایسای ہو جو ان میں رہتا سہتا ہواورگناہ کرتاہو اور وہ لوگ گناہ سے ہٹا کر صحیح راستہ پرڈالنے کی قوت ہوتے ہوئے اس کو صحیح راستہ پر نہ ڈالیں تو ان کے مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ضروران پر عذاب ڈالیں گے۔
ایک مرتبہ حضرت رسول مقبولﷺ منبر پرتشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کے بعد لوگوں سے فرمایاکہ یقین جانوں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نیکیوں کے لیے کہتے رہو اور برائیوں سے روکتے رہو اس وقت سے پہلے جب مجھ سے دعا کرو گے تو قبول نہ کروں گا اور مجھ سے سول کرو گے تو سوال پویرا نہ کرہوگا اور مجھے سے مدد چاہوگے تو تمہاری مدد نہ کروں گا یعنی نیکیوں کے لیے کہنا اور برائیوں سے روکنا ایسا عملہے کہ اگر اس کو چھوڑ دوگے تو عذاب آئے گا اور اس وقت دعا قبول نہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہ کی جائے گی اور سوال پورا نہ کیاجائے گا۔
ان باتوں کو خوب سمجھ لو اور سب کو سمجھائوجہاں تک ہوسکے اپنوں کو اور غیرون کوخاص کرجن پر تمہارا زورہے جیسے نوکر ہیں یا اولاد ہے سب کو خدا کے راستہ پر اپنی طاقت سے چلائو گناہوں سے روکو اور نیکیوں کے راستہ پر ڈالو۔
امید کے سہارے بنت خلیل جھنگ
کب سے کھڑی ہو ں یا رب امید کے سہارے یہ دن ناجانے میں نے کس طرح سے گزارے بے چین و مضطرب دل جا کر کسے پکا رے وہ کو ن ہے جو حالت بگڑی ہو ئی سنوارے
ہے باب یہ کرم کا خالی نہ پھر یا رب
دینا اگر تجھے ہے پھر کیوں ہی دیر یارب
کنج قفس سے بدتر اپنا ہے یہ آشیانہ اس قید بے کس میں گزارا ہے اک زمانہ
مغموم دل پہ یارب لازم ہے رحم کھا نا کرتی ہو میں شکایت تجھ سے یہ عاجزانہ
بار الم ہے دل پر طاقت نہیں ہے دل میں
کیونکر ہو صبر مجھ سے ہمت نہیں ہے دل میں
کب سے لئے کھڑی ہو ں میں کاسہ گدائی اب تک ملا نہ مجھ کو اور شام ہو نے آئی
بندہ نواز میری منت کی لا ج رکھ لے میری نہیں تو اپنی رحمت کی لاج رکھ لے
کب سے کھڑی ہو ں یا رب امید کے سہارے
یہ دن ناجانے میں نے کس طرح سے گزارے