بھابھی صا حبہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بھابھی صا حبہ!
مولانا محمد کلیم اللہ
ابھی چنددن پہلے مجھے ایک میسج موصول ہواکہ’’ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت کے ساتھ مجھے ایک بیٹی عطا فرمائی ہے۔ ‘‘میں نے فون کرکے مبارک باد دی، یہ میسج احناف میڈیا سروس کے ڈائریکٹر مولانا عابد جمشید (فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور؛ ایم فل پنجاب یونیورسٹی )کا تھا مولانا کی ذات گرامی کی شخصیت جاننے کے لیے میری تحریر پڑھنے کی بجائے ان سے ملاقات ضروری ہے۔ نہایت شریف الطبع، سلیم الفطرت، علم دوست، عالم باعمل، متفکرانہ ذہن رکھنے والے اور ایک درد مند انسان ہیں ۔ علم میں جتنی اللہ تعالی نے انہیں دسترس عطا کی ہے اس سے کہیں زیادہ وہ سادگی پسند ہیں ۔ اپنے شیخ ومرشد متکلم اسلام مولانامحمدالیاس گھمن حفظہ اللہ کے مسلکی کاموں کی ترویج میں دست بازو ہیں ۔ اللہ ا ن کو اس پراپنی شایان شان اجر جزیل عطافرمائے۔
مولانا کی اہلیہ کو ہم ’’بھابھی صا حبہ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔ بھابھی صا حبہ کی پیدائش تقریبا ً 1978ء میں ’’ساروکی‘‘ کے علاقے میں ہوئی(یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے ایک باسی غازی عامر چیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے گستاخ رسول کو جہنم واصل کیاتھا)بھابھی صا حبہ راجپورت برادری سے تعلق رکھتی تھیں آپ کے والد کا نام محمد جمیل ہے بھابھی صا حبہ کل پانچ بہن بھائی ہیں ۔
بچپن:۔
پرفتن زمانے میں لڑکیوں کی تربیت اس قدرمشکل ہے کہ… الامان والحفیظ۔ لیکن جن کے گھرانے میں دینی تعلیم کے چراغ جلتے ہوں وہاں زمانے کی تاریکیاں جنم نہیں لیتی۔ بھابھی صاحبہ کا گھرانہ ایک شریف اور پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ دین دار گھرانہ بھی ہے۔ جس کا اثر یہ ہے کہ تمام بہن بھائی عزت اور سلیقہ مندی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ محترمہ بھابھی صاحبہ بھی اپنے بہن بھائیوں کی طرح شریف اورعفت مآب خاتون تھیں ۔ بچپن ہی قرآن کریم ناظرہ مکمل کیا اور مسنون دعائوں کا التزام شروع کردیا۔ عصری تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی پھر لاہور کی مشہور دینی درسگاہ ’’جامعۃ الفصیل للبنات ماڈل ٹائون‘‘ میں درس نظامی شروع کیا اور دورہ حدیث کی تیاری اپنے شوہر نامدار کے پاس کی اس کے بعد وزیر آباد میں وفاق المدارس کے امتحانات میں شامل ہوکر اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔
گھریلوزندگی:۔
رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد انسان عملی زندگی گزارنا شروع کر دیتاہے بھابھی صاحبہ نے گھریلو زندگی کیسے گزاری ان کے شوہر نامدار مولانا عابد جمشید کی زبانی سنیے۔
’’جب میں اپنی والدہ کی طرف دیکھتاتھا تو مجھے محسوس ہوتا تھاکہ میری والدہ سے زیادہ نیک پاک کوئی خاتون نہیں بالکل یہی حال میری بیوی کا تھا کہ ان جیسی اطاعت گزار بیوی میں نے نہیں دیکھی، ان کے خصائل حمیدہ کانہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔گناہوں سے اجتناب اس قدر تھا آج کی عورت سے اس کی امیدیں بہت کم ہیں : تہمت، زبان درازی، جھوٹ، چغلی، غیبت وغیرہ تواس کے قریب سے بھی نہ گزرتی تھی۔حقوق اللہ کی حد درجہ ادائیگی اور حقوق العباد کے بارے میں اتنی محتاط کہ ہم جیسوں کو بھی رشک آجاتا ولیس الذکر کالانثٰی۔
خاوند کی اطاعت گزار اتنی کہ کیا پوچھتے ہو۔ میں نے ساری زندگی ان کی زبان سے ’’نہ‘‘ نہیں سنی۔ بس وہ اپنے خاوند کی رضا جوئی میں فنا تھیں ۔بیک وقت جہاں وہ ایک بیوی کے فرائض انجام دیتی وہاں ایک اچھی بہو ہونے کا بھی ثبوت تھیں ۔ ہماری والدہ صاحبہ نے بچیوں کے لیے اپنے علاقے میں دینی ادارہ شروع کیاتھا اس میں بھی میری اہلیہ جہاں ایک معلمہ تھیں تو گھریلو معاملات میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ سارے گھر اور مدرسے کا نظم ونسق یوں چلتاتھا کہ اہل علاقہ کے لیے ضرب المثل تھا۔ آداب کی اس قدر رعایت کرتی تھیں میں کبھی ان کو الفت وپیار میں کہہ دیتا ’’اتنا بھی تکلف مت کرو ‘‘چھوٹا منہ بڑی بات والی مثال ہے کہ اس کی مثالیں فقط قرون اولیٰ میں ملتی تھیں شاید یہ بھی انہی سے بچھڑی ہوئی ایک مقدس روح تھی جس نے میری زندگی میں خوشیوں کی فصل کو لہلہا دیا۔ میرے وقت کا زیادہ حصہ گھر سے دور گزرتاتھا بچوں کی نگہداشت میں مجھے کبھی پریشانی کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس لیے کہ اس نے بچوں کو پیار ماں بن کر دیا اور ان کی تربیت باپ بن کر کی۔ آج بھی اللہ کا فضل ہے میری چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے ان کے ہم عمر بچوں اور بچیوں میں آپ کوخاص فرق نظر آئے گا جو خالصتا ًان کی والدہ کی تربیت کا مظہر اورآئینہ دار ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اللہ کا فضل اور ہمارے شیخ متکلم اسلام ولی کامل مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی تریبت کا اثر ہے۔ اللہ تعالی مرحومہ کو جزاء خیر عطا فرمائے، اس کی حسنات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماکے سئیات سے در گزر فرمائے اور روزقیامت ایک بار پھر ہم کوآپس میں ملا دے جہاں وہ جنت کے حوروں کی سردار بنے گی۔ آمین
وفات:۔
بھابھی صاحبہ اپنی چوتھی بیٹی کی پیدائش کے بعد غیر معمولی طور پر بیمار ہوئیں ۔ علاج معالجہ کے لیے مختلف ہسپتالوں میں تشریف لائیں ۔ آخر کار’’ فوجی فائونڈیشن ہسپتال‘‘ کے ایمرجنسی وارڈ I.C.Uمیں 16مئی کوزندگی کی بازی اس حالت میں ہارگئیں کہ زبان پر اللہ اللہ اللہ کی صدائیں تھیں ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
نمازجنازہ:۔
بھابھی صاحبہ خود صاحب نسبت تھیں اورآپ کے بیت کا تعلق استاد محترم شیخ طریقت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ سے تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ آپ کے شیخ نے پڑھایا جنازے میں دور دراز سے علمائ، طلبائ،خطباء حفاظ، مجاہدین اور دین دار لوگ تشریف لائے سرگودھا سے مرکز اھل السنت والجماعت کے اساتذہ اور احناف ٹرسٹ کے ذمہ داران پر مشتمل جبکہ لاہور سے احناف میڈیا سروس کے عہدیداران اور جامعہ حقانیہ سے اساتذہ اور طلبا پر مشتمل قافلوں نے شرکت کی اس کے علاوہ نواحی علاقوں سے علما کے ایک جم غفیر نے شرکت کی بعد ازاں آپ کو چک گلاں گوجرانوالہ کے قبرستان میں دفن کیاگیا۔ اللہ آپ کی مرقد کو تاحد نگاہ وسعتیں عطا فرمائے اوراس کو نورسے بھردے۔
نوٹ:ادارہ بنات اہل السنت اس غم میں برابر کا شریک ہے اللہ تعالی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور بھابی صاحبہ کی اولاد کا خود؛ کفیل بن جائے۔ اللہ ان بچوں کو زمانے کی تلخیوں سے بچائے رکھے۔اور اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین یارب العالمین