اسلام او رخواتین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلام او رخواتین
مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ
ہندوستان میں منوکے مذہبی قوانین میں باپ، شوہر یا دونوں کی وفا ت ہو جانے کی صورت میں بیٹے سے علیحدہ عورت کا کوئی مستقل حق نہیں تھا اور ان سب کی وفات کے بعد اس کا شوہر کے کسی قریبی رشتہ دار سے متعلق ہو جانا ضروری تھا، وہ کسی حال میں اپنے معاملہ میں خود مختار نہیں ہوسکتی تھی معاشی معاملات میں اس کی حق تلفی سے زیادہ سختی اس کے شوہر سے علیحدہ زندگی کے انکار کی صورت میں تھی، جس کے مطابق بیوی کو شوہر کے مرنے کے دن مر جانا اوراس کی چتا پرستی ہو جانا ضروری تھا یہ پرانی رسم برہمنی تمدن کے قدیم زمانہ سے سترہویں صدی تک برقرار رہی اور اس کے بعد مذہبی حلقوں کی ناپسندیدگی کے باوجود ختم ہوگئی۔
حمو رابی کی شریعت (جس کی وجہ سے بابل مشہور ہوا تھا ) عورت کو پالتو جانور سمجھتی تھی اور اس کی نظر میں عورت کی حیثیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کی رو سے اگر کسی نے کسی کی لڑکی کو قتل کیا ہے تو قاتل کو اپنی لڑکی مقتولہ لڑکی کے بدلہ میں حوالہ کرنا ہوتی تھی تاکہ لڑکی والا اسے قتل کردے یا باندی بنالے یا معاف کردے مگر وہ اکثر قتل ہی کی جاتی تھی۔ یونان قدیم میں عورت ہر قسم کے حقوق اور آزادی سے محروم تھی اسے ایسے بڑے گھروں میں رہنا ہوتا تھا جو راستہ سے دور کم کھڑکیوں والے ہوتے تھے اور ان کے دروازوں پر پہرہ دار مقرر رہتے تھے، بیویوں اور گھریلو عورتوں کی طرف بے توجہی کے سبب بڑے یونانی شہروں میں ایسی محفلیں عام ہوگئی تھیں جن میں گانے والیوں اور حسین عورتوں سے دل بہلایا جاتا تھا، مہذب محفلوں میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ جانے کی بہت کم اجازت تھی، اسی طرح فلسفیوں کے حلقے عورتوں کی موجودگی سے خالی نظر آتے ہیں اور پیشہ ورعورتوں یا مطلقہ باندیوں جیسی شہرت وعزت کسی شریف خاتون کو کبھی حاصل نہیں ہوئی۔
قدیم رومیوں کا عورتوں کے ساتھ معاملہ قدیم ہندوئوں ہی جیسا تھا جس کے تحت وہ باپ، شوہر اور بیٹیوں کے ماتحت رہتی تھیں اپنے تہذیبی عروج کے دور میں ان کا خیال تھا کہ
’’نہ عورت کی بیڑی کاٹی جا سکتی ہے نہ اس کی گردن سے جوا اتارا جا سکتا ہے رومی عورت اسی وقت آزاد ہوئی جب بغاوت اور نافرمانی کرکے رومی غلام آزاد ہوئے اور عورت کو غلام رکھنا ناممکن ہوگیا۔‘‘
استاد عقاد نے قدیم مصری تہذیب میں عورتوں کے بعض حقوق واختیار کے ذکرکرنے کے بعد لکھا ہے
’’اسلام سے پہلے مصری تہذیب اور اس کے قوانین ختم ہوچکے تھے اور شرق اوسط میں اس دور میں رومی تہذیب کے زوال اور اس کے عیاشی اور لذت پرستی کے رد عمل کے طور پر دینوی زندگی سے نفرت کا رجحان پیدا ہو گیا تھا بلکہ زندگی اورآل واولاد کی طرف سے سرد مہری پیدا ہوگئی تھی اور زاہدانہ رجحان نے جسم اور عورت کو نجس سمجھ لیا تھا اور عورت کو گناہوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا، قرون وسطی کے اس رجحان ہی کا اثر تھا کہ پندرہویں صدی عیسوی تک کلیسا کے ذمہ دار عورت کی فطرت کے بارے میں سنجیدگی سے غورکر رہے تھے کہ کیا وہ جسم بلا روح ہے یا روح رکھنے والا جسم ہے جس سے نجات یا ہلاکت متعلق ہوتی ہے اکثریت کا خیال یہ تھا وہ نجات پانے والی روح سے خالی ہے اور اس نے کنواری مریم والدہ حضرت مسیح کے سوا کسی کا استثناء نہیں ۔
رومی عہد کے اس رجحان نے بعد کی مصری تہذیب میں عورت کے مقام کو متاثر کیا مصریوں پر رومی مظالم کی شدت ان کی رہبانیت اور دنیا بیزاری کا سبب بن گئی تھی، چنانچہ بہت سے زاہد لوگ رہبانیت کو قرب الہی کا ذریعہ اور شیطان کے مکر سے(جس میں عورت سر فہرست تھی) دوری کا وسیلہ جانتے تھے۔
حضرت موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کتابوں کی تعلیم کے مطابق لڑکی باپ کی میراث سے خارج ہو جاتی ہے اگر اس کا کوئی بھائی موجود ہے۔
میراث کے بارے میں حکم صریح ہے کہ جب تک اولاد ذکور رہے گی لڑکی اس سے محروم رہے گی اور جس لڑکی کومیراث ملے گی اسے کسی دوسرے قبیلہ میں شادی کی اجازت نہ ہوگی اور نہ اسے کسی قبیلہ کی طرف میراث منتقل کرنے کی اجازت ہوگی، یہ حکم کتب تورات میں متعدد جگہوں پر ہے۔
اب ہم ان بلاد مقدسہ کی طرف رخ کرتے ہیں جہاں قرآن کریم کی دعوت شروع ہوئی تھی یعنی ’’جزیرۃ العرب‘‘ مگر آپ کو وہاں بھی اس کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہاں عورتوں کے ساتھ انصاف اور اکرام کا کوئی الگ معاملہ تھا بلکہ ’’جزیرۃ العرب‘‘ کے بعض اطراف میں عورتوں سے بد معاملگی ساری دنیا سے زیادہ تھی اور بعض اطراف میں اس لیے اس سے اچھا معاملہ کیا جاتا تھا اور اس کی شوہر کے یہاں عزت تھی کہ وہ کسی با رعب رئیس کی لڑکی یا کسی محبوب بیٹے کی ماں اور باپ شوہر، بھائی اور بیٹے اپنی ملکیت یا حمایت میں داخل اشیاء کی طرف اس کی حفاظت کرتے تھے کیونکہ یہ آدمی کے لیے عیب تھا کہ اس حرم کی بے حرمتی کی جائے جس طرح یہ عیب تھا کہ اس کی حمایت یافتہ یا کسی ممنوعہ چیز پر دست درازی کی جائے جس میں اس کے گھوڑے، جانور، کنواں اور چراگاہ شامل تھی وہ مال مویشی کے ساتھ میراث میں منتقل ہوتی تھی۔ آدمی شرم کے مارے اپنی بیٹی کو بچپن ہی میں زندہ درگور کر دیتا تھا اور اس پر خرچ کو بوجھ سمجھتا تھا اور جو اسے زندہ رکھتے اور بچپن میں جاں بخشی کر دیتے ان کی نظر میں ان کی حیثیت میراث کی تھی جو باپ سے بیٹوں کو منتقل ہوتی تھی اور قرض یا سود کی ادائیگی میں اسے بیچا اور رہن رکھا جا سکتا تھا، وہ اس انجام سے اسی وقت بچ سکتی تھی جب وہ کسی معزز قبیلہ کی فرد ہوتی جس کی حمایت و قربت کو وقعت حاصل ہوتی تھی۔‘‘
[المراۃ فی القرآن، للاستاذ عباس محمود العقاد]
بدھ مت:۔
بدھ مت میں عورتوں کے بارے میں خیالات کا ایک نمونہ مذہب واخلاق کی انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار نے ایک بدھ مفکر کے قول سے پیش کیا ہے کہ
’’پانی کے اندر مچھلی کی ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے اس کے پاس چوروں کی طرح متعدد حربے ہیں اور سچ کا اس کے پاس گزر نہیں ۔‘‘
(Encyclopeda of Relighion & Fthics, Vol 5.p271 Newyork.1912)
ہندودھرم:۔
مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار عورتوں کے بارے میں ہندو خیالات کے بارے میں لکھتا ہے:’’برہمن ازم میں شادی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ہر شخص کوشادی کرنا چاہیے لیکن منو کے قوانین کے رو سے شوہر بیوی کا سرتاج ہے اسے اپنے شوہرکا ناراض کرنے کا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے حتی کہ وہ اگر دوسری عورتوں سے تعلقات رکھے یا مرجائے تب بھی کسی دوسرے مرد کا نام اپنی زبان پر نہ لائے اگر وہ دوبارہ نکاح کرتی ہے تو سورگ سے محروم رہے گی جس میں اس کا پہلا شوہر رہتا ہے بیوی کے غیر وفادار ہونے کی صورت میں اسے انتہائی کڑی سزا دی جانی چاہیے عورت کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتی وہ ترکہ نہیں پا سکتی شوہرکے مرنے پر اپنے سب سے بڑے بیٹے کے تحت زندگی گزارنی ہوگی شوہر اپنی بیوی کو لاٹھی سے بھی پیٹ سکتا ہے۔‘‘
(Encyclopeda of Relighion & Fthics, Vol 5.p271 Newyork.1912)
یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ میں (Ray Strachey)ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے:’’رگ وید میں (جس میں انسان کے جد امجدکی حکایات بھی ہیں ) عورتوں کو پست اور حقیر مقام دیا گیا ہے بعد میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ روحانی طور پر ناقابل اعتبار بلکہ تقریبا بے روح ہے اور موت کے بعد مردوں کی نیکیوں کے بغیر اسے بقا حاصل نہیں ہو سکتی اس کی ساری امیدوں کو ختم کرنے والے مذہب کے ساتھ رسم ورواج کی بیڑیوں نے(جو رفتہ رفتہ پیدا ہوتی گئیں ) یہ ناممکن کر دیا کہ عورت کسی نمایاں شخصیت کو جنم دے سکے عورتوں کو جنم دینے والے منو نے انہیں اپنے گھر، بستر، زیور کی محبت، بری خواہشیں ، غصہ، بے ایمانی اور برے اطوار عطا کئے۔
عورتیں اتنی بری ہیں جتنا کہ جھوٹ یہ ایک مسلم حقیقت تھی عورت کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں غلط راستہ پر ڈالے اسی لیے عقل مند عورتوں کی محبت میں بے فکر ہوکر نہیں بیٹھتے۔
بچپن کی شادی کی رسم بیوائوں سے نفرت ستی اور پردہ ایک ایسے سماج کے حسب حال ہیں کہ جس میں عورتوں کی اہمیت بچے جننے والی مخلوق سے زائد نہیں شاید نوزائیدہ لڑکیوں کی موت ایک ایسی دنیا میں ان کے لیے رحمت ہے جس میں اسے مشکوک برائی کا سر چشمہ، دھوکہ باز، سورگ (جنت) کے راستہ کا روڑا اور نرک (دوزخ )کا دروازہ سمجھا جاتا ہے
(Universal History Of the Worl Ed,J.A Hamerton Vol.1,P78 London)
چین:۔
مسٹر اسٹریچی چین میں عورتوں کی حیثیت کے بارے میں لکھتاہے:’’ مشرق بعید یعنی چین میں حالات اس سے بہتر نہیں تھے چھوٹی لڑکیوں کے کاٹھ مارنے کی رسم کا مقصد یہ تھا انہیں بے بس اور نازک رکھا جائے یہ رسم اگرچہ اعلیٰ اور مال دار طبقات میں رائج تھی لیکن اس سے آسمانی حکومت کے دور میں عورتوں کی حالت پر روشنی پڑتی ہے۔‘‘
[یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ مرتبہ ہمیر ٹن لندن]
انگلستان:۔
مذکورہ بالا مقالہ نگار انگلستان میں عورتوں کے مقام کے بارے میں تحریر کرتا ہے:
’’وہاں اسے ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم رکھا گیا تھا تعلیم کے دروازے اس پر بند تھے صرف چھوٹے درجہ کی مزدوری کے علاوہ وہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی اور شادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبر دار ہونا پڑتا تھا۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرون وسطیٰ سے انیسویں صدی تک عورتوں کو جو درجہ دیا گیا تھا اس سے کسی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔
[یونیورسل ہسٹری آف دری ورلڈ مرتبہ ہمیرٹن لندن]
اسلامی تعلیمات:۔
آپ گذشتہ تعلیمات کا مقابلہ اسلام کے اس نئے اور منفرد کردار سے کیجیے جو اس نے عورتوں کے وقار واعتبار کی بحالی، انسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے، ظالم قوانین، غیرمنصفانہ رسم ورواج اور مردوں کی خود پرستی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلہ میں انجام دیا ہے۔ قرآن مجید پر ایک سرسری نظر بھی عورت کے بارے میں جاہلی نقطہ نظر اور قرآن واسلامی زاویہ نگاہ کے کھلے فرق کو سمجھنے کے لیے کافی ہے جس سے انفرادی سلوک اور اجتماعی قوانین متعلق ہوتے ہیں ۔
وہ قرآنی آیات جو نصٖف نوع انسانی اور جنس لطیف کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ عورت کے اندر اس لیے اعتماد پیدا کرتی ہیں کہ ان کے بموجب معاشرہ میں اور خدا کے نزدیک اس کا متعین مقام ہے اور وہ دین وعلم، خدمت اسلام، خیر وتقویٰ میں تعاون اور صالح معاشرہ کی تعمیر میں پوری طرح حصہ لے سکتی ہے۔ قرآنی آیات قبول اعمال، نجات و سعادت اورآخرت کی کامیابی کے بیان میں ہمیشہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکرکرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ ومن یعمل من الصالحات من ذکر او انثی وھو مؤمن فاولٓئک یدخلون الجنۃ ولا یظلمون نقیرا
(النساء 124]
اور جوکوئی نیکیوں پر عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان ہو تو ایسے (سب) لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔
دوسری جگہ ارشادہوتا ہے۔
’’فاستجاب لھم ربھم انی لااضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض
(آل عمران195]
ان کی دعا کو ان کے پروردگار نے قبول کر لیا۔ اس لیے کہ میں تم میں کسی عمل کرنے والے کے(خواہ) مرد ہو یا عورت عمل کے ضائع نہیں ہونے دیتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو۔
اسی طرح وہ حیات طیبہ کے مواقع و وسائل عطاکرنے کے موقع پر بھی مردوں کے ساتھ عورتوں کو یاد رکھتا ہے بلکہ اس کے لیے ضمانت دیتا ہے اور اس کا وعدہ کرتا ہے حیات طیبہ ایک جامع اوردور رس معافی پر مشتمل کلمہ ہے جو مثالی اور کامیاب زندگی کا مفہوم اور عزت اطمینان کے غیر محدود معانی رکھتاہے۔
من عمل صالحاً من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون۔
(النحل98]
نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انہیں ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ضرور اجر دیں گے۔
صفات حسنہ، اعمال صالحہ اور دین کے اہم شعبوں کے ذکر کے وقت قرآن مجید صرف مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر اور یہ اشارہ ہی نہیں کرتا کہ اعمال صالحہ اور صفات کریمہ میں ذکور واناث کا کوئی فرق نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ ایک ایک صفت کو الگ بیان کرتا ہے اور جب مردوں کی اس صفت کا ذکر کرتا ہے تو اسی صفت سے عورتوں کو بھی موصوف کرتا اور ان کا مستقل ذکر کرتا ہے اگرچہ اس کے لیے طویل پیرایہ بیان ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔
اس کی حکمت یہ ہے کہ ان صفات میں قوت وصلاحیت رکھنے والے مردوں کو عورتوں پر قیاس کرنے پر وہ انسانی ذہن آمادہ نہیں ہوتے جنہوں نے غیر اسلامی مذاہب وفلسفہ اور قدیم معاشرت وآداب کے سایہ میں تربیت پائی ہے ایسے ذہنوں نے ہمیشہ مردوں اور عورتوں میں تفریق کی ہے اور انہیں بہت سے فضائل میں مردوں کے ساتھ شرکت سے بھی مستثنی کر رکھا ہے چہ جائیکہ ان کی مزاحمت وسبقت کو گوارا کریں ۔
ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات والقانتین والقانتات والصادقین والصادقات والصابرین والصابرات والخاشعین والخاشعات والمتصدقین والمتصدقات والصائمین والصائمات والحافظین فروجھم والحافظات والذاکرین اللہ کثیرا والذاکرات اعد اللہ لھم مغفرۃ واجراًعظیما۔
(الاحزاب:35]
ترجمہ: بے شک اسلام والے اور اسلام والیاں اور ایمان والے اورایمان والیاں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اورصادق مرد اور صادق عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور خشوع والے اور خشوع والیاں اور صدقہ کرنے والے اور صدقہ کرنے والیاں اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے و الے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرعظیم تیارکر رکھا ہے۔
قرآن مجید صرف طاعات وعبادات ہی کے سلسلہ میں ان کا ذکر نہیں کرتا بلکہ باصلاحیت مردوں علماء اور اولوالعزم افراد دینی واخلاقی احتساب اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے والوں کے ساتھ بھی ان کا ذکرکرتا ہے اور مومنین ومومنات کو ایک متحدہ اور خیر وتقویٰ پر تعاون کرنے والی جماعت کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔
والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون با لمعروف وینھون عن المنکر ویقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوٰۃ ویطیعون اللہ ورسولہ اولٓئک سیر حمھم اللہ ان اللہ عزیز حکیم۔
(التوبہ 81]
ایمان والے اور ایمان والیاں ایک دوسرے کے رفیق ہیں نیک باتوں کا آپس میں حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوۃ دیتے رہتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان پر ضرور رحمت کرے گا، بے شک اللہ بڑے اختیار والاہے اور بڑی حکمت والا ہے۔
شرف انسانی کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کا ذریعہ اور کامل معیار جنس ونسل اور رنگ وخون سے قطع نظر صرف تقویٰ کو قرار دیتا ہے۔
یاایھاالناس اناخلقناکم من ذکر وانثٰی وجعلنٰکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر
(الحجرات:13]
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے زیادہ پرہیز گار اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔
یہ سب باتیں عورتوں میں ہمت، خود داری اور خود اعتمادی پیدا کرنے اور جدید نفسیات کی اصطلاح میں انہیں احساس کمتری سے دور رکھنے کے لیے بہت کافی ہیں ۔
ان ہی تعلیمات کے نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے عصر حاضر تک مشاہیر خواتین اسلام میں معلمات اور تربیت کرنے والی، جہاد اور تیمار داری کرنے والی، ادیب ومصنف، حافظ قرآن، حدیث کی راوی، عابد و زاہد اور معاشرہ میں صاحب حیثیت و وجاہت خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے جن سے علمی استفادہ کیا گیا اور جن سے تربیت حاصل کی گئی اور جومعیاری مثالی شخصیت کی حامل تھیں ۔
حقوق جو اسلام نے مسلمان عورت کو دئیے ہیں ان میں چند یہ ہیں :۔
٭ ملکیت ومیراث کاحق ٭ خرید و فروخت کاحق
٭ درس تدریس اور دین کی تبلیغ
اور ان کے علاوہ حقوق تفصیلات فقہی کتابوں میں موجود ہے۔
مغربی فضلاء اور اہل انصاف کی شہادت واعتراف:۔
متعدد انصاف پسند مغربی فضلاء اور معاشرتی وتمدنی تاریخ کے ماہرین نے ان قرآنی اور شرعی تعلیمات کی برتری کا اعتراف کیا ہے جو عورتوں کے احترام اور ان کے لیے حقوق پر مشتمل ہے۔
ہم یہاں دو تین شہادتوں پر اکتفا کرتے ہیں ان میں سے ایک شہادت ایک مغربی فاضلہ کی ہے جو ہندوستان میں ایک تربیتی و اصلاحی تحریک کی قائد اور جنوبی ہند کے ایک ثقافتی ادارے(تھیاسوفیکل سوسائٹی) کی صدر رہی ہیں انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھی حصہ لیا تھا کسی خاتون کی شہادت اس لیے بھی اہم اور قیمتی ہوتی ہے کہ وہ عورت کے معاملہ میں حساس ہوتی ہے اوراس کی طرف سے دفاع میں دل چسپی رکھتی ہے، مسز اینی بسنت (MRS.ANNIE BESANT)کہتی ہیں ۔
آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو مذہب اسلام پر اس لیے تنقید کرتے کہ یہ محدود تعدد ازدواج کوجائز قراردیتا ہے لیکن آپ کومیری وہ تنقید نہیں بتائی جاتی جو میں نے لندن کے ایک ہال میں تقریر کرتے ہوئے کی تھی۔ میں نے سامعین سے کہا تھا کہ یک زوجگی کے ساتھ وسیع پیمانہ پر زنان بازاری کی موجودگی ’’نفاق‘‘ ہے اور محدود تعدد ازواج سے زیادہ ذلت آمیز ہے قدرتی طور پر اس قسم کے بیانات کا لوگ برا مانتے ہیں لیکن اسے بتلانا ضروری ہے کیونکہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانہ تک انگلینڈ میں اپنائے جا رہے تھے، یہ سب سے منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتا تھا جائیداد وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا یک زوجگی اور تعدد ازواج کے الفاظ نے لوگوں کو مسحورکردیا ہے اور وہ مغرب میں عورتوں کی ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لی پھینک دیتے ہیں کہ اس سے ان کا دل بھر جاتا ہے اور پھر وہ ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔
The Life & TEaching Of MUHAMMAD By Annie Besant Madras 1932.p.3))
مسٹر (N.L.CULSEN)لکھتے ہیں :۔
بلاشبہ عورتوں کی حیثیت کے معاملہ میں خاص طور پرشادی شدہ عورتوں کے معاملہ میں قرآنی قوانین افضلیت کا مقام رکھتے ہیں نکاح اور طلاق کے قوانین کثیر تعداد میں ہیں ۔ جن کا عمومی عورتوں کی حیثیت میں بہتری لانا ہے اور وہ عربوں کے قوانین میں انقلاب انگیز تبدیلی کے مظہر ہیں اسے قانونی شخصیت عطا کی گئی جو اسے پہلے حاصل نہیں تھی طلاق کے قوانین میں قرآن نے سب سے بڑی تبدیلی جوکی ہے و ہ عدت کو اس میں شامل کرنا ہے۔
(A History Of Islam Law(Eninburg.1971)P.14
مذہب واخلاق کی انسائیکلوپیڈیا کامقالہ نگار لکھتاہے:۔
پیغمبر اسلام نے یقیناً عورت کا درجہ اس سے زیادہ بلند کیاجو اسے قدیم عرب میں حاصل تھا خاص طور پر عورت متوفی شوہر کے ترکہ کا جانور نہیں رہی بلکہ خود ترکہ پانے کی حق دارہوگئی اور ایک آزاد فرد کی طرح اسے دوبارہ شادی پر مجبور نہیں کیاجا سکتا تھا۔ طلاق کی حالت میں شوہر پر یہ واجب ہوگیا کہ وہ اسے وہ سب چیزیں دے دے جو اسے شادی کے وقت ملی تھیں ۔
اس کے علاوہ اعلی طبقہ کی خواتین علوم اور شاعری سے دلچسپی لینے لگیں اور کچھ نے استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا طبقہ عوام کی عورتیں اپنے گھر کی ملکہ کی حیثیت سے اپنے خاوندوں کی خوشی اورغم میں شریک ہونے لگیں ماں کی عزت کی جانے لگی۔
[انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایبتھکس ص271(نیویارک1912ئ]
پیدائش نواور انقلاب عظیم:۔
قرآنی آیات اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں عورتوں کے مقام کے بارے میں یہ نیا نقطہ نظر گویا انسانی دنیا میں نوع نسواں کی نئی پیدائش کا حکم رکھتا تھا کیونکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ قدیم زمانہ میں اس میں اور پالتوحیوان یا کسی بے جان چیز میں فرق نہ تھا وہ زندہ دفن کردی جاتی تھی، رہن رکھی جاتی یا کسی محل کی گڑیا سمجھی جاتی تھی اس صورت حال میں یہ انقلابی تعلیمات تمدن اور اخلاق، خانگی اور ازدواجی زندگی میں ایک مبارک اتفاق کی حیثیت میں سامنے آئیں جن کا کم وبیش سبھی ملکوں اور معاشروں نے استقبال کیا خاص طورپر ان ملکوں نے جہاں اسلام فاتحانہ داخل ہوا یا اسے حکومت وانتظام کا موقع ملا۔ یا جہان وہ ایک اصلاحی دعوت اور عملی نمونہ کے طور پر پہنچا۔ اسلام کے اس انسانی تحفہ کی قدر وقیمت ان ملکوں میں بالکل ظاہر ہے جہاں بیوائیں اپنے آپ کو اپنے متوفی شوہروں کی چتا میں جلا ڈالتی تھی اور نہ معاشرہ ان کو شوہروں کے بعد زندہ رہنے کا حق دیتا تھا اور نہ وہ خود کو اس کا حقدار سمجھتی تھیں ۔
مسلمان بادشاہوں نے اپنے وقت میں بعض ہندوستانی رسم ورواج اور خاص طور پر ’’ستی‘‘ کی رسم کی اس طرح اصلاح کی کہ دینی عقائد اور ہندوستانی روایت کو نہ نقصان پہنچے اور نہ ان کی بے حرمتی ہو اس سلسلہ میں مشہور فرانسیسی سیاح اور طبیب ڈاکٹر برنیر جس نے شاہ جہان کے زمانہ میں ہندوستا ن کی سیاحت کی تھی لکھتا ہے۔
آج کل پہلے کی نسبت ’’ستی‘‘ کی تعداد کم ہوگئی ہے کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانروا ہیں اس وحشیانہ رسم کے نیست ونابود کرنے میں حتی المقدور کوشش کرتے ہیں اور اگرچہ اس کے امتناع کے واسطے کوئی قانون مقررکیا ہوا نہیں ہے کیونکہ ان کی پالیسی(تدبیر مملکت)کا یہ ایک جزو ہے کہ ہندوئوں کی خصوصیات میں جن کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے دست اندازی کرنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ ان کی مذہبی رسوم کے بجا لانے میں ان کوآزادی دیتے ہیں تاہم ’’ستی‘‘ کی رسم کو بعض اینچ نیچ طریقوں سے روکتے ہیں یہاں تک کہ کوئی عورت بغیر اجازت اپنے صوبہ کے حاکم کے ’’ستی‘‘ نہیں ہوسکتی اور صوبہ دار ہرگز اجازت نہیں دیتا جب تک کہ قطعی طور پر اس کو یقین نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنے ارادہ سے ہرگز باز نہیں آئے گی صوبہ دار بیوہ کو بحث مباحثہ سے سمجھاتا ہے اور بہت سے وعدے وعید کراتاہے اور اگر اس کی فہمائش اور تدبیریں کارگر نہیں ہوتیں تو کبھی ایسا بھی کرتا ہے کہ اپنی محل سرا میں بھیج دیتا ہے تاکہ بیگمات بھی اس کو اپنے طور پر سمجھائیں ۔
مگر باوجود ان سب امور کے ستی کی تعداد اب بھی بہت ہے خصوصا ان راجائوں کے علاقوں اور عملداریوں میں جہاں کوئی مسلمان صوبہ دار متعین نہیں ہے۔
(سفر نامہ ڈاکٹر برنیر ]