میرے دا دا میرے استا د

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میرے دا دا میرے استا د
نمرہ ابوذر، پنجاب گرلز کالج سرگودھا
مجھے اپنے مضمو ن کے لئے الفا ظ نہیں مل رہے دما غ سا تھ نہیں دے رہا کہ کیسے اس اللہ کے ولی کے با رے میں لکھو ں اور کیا میں وہ سب لکھ سکو ں گی۔ جو میں لکھنا چا ہتی ہو ں ہو سکتا ہے کہ میں اپنے بڑے ابو کے با رے میں لکھتے ہو ئے ان کی عظمت اور وقا ر سے انصا ف نہ کر سکو ں جس کے لئے میں اللہ پا ک سے اور اپنے بڑے ابو کی رو ح سے ایڈوا نس میں معذرت خوا ہ ہو ں ۔
جب میں نے ہو ش سنبھالا تو خود کو قرآن پاک کی ایک درس گا ہ میں اپنے دادا ابو کی گو د میں پا یا۔ چو نکہ کہ ہما راگھر مسجد کے سا تھ تھا اور میرے دادا حضرت مو لا نا قاری محمد حنیف رحمتہ اللہ علیہ عرصہ 60 سا ل سے اِسی مسجد میں قرآن پا ک کی خدمت میں مصروف تھے۔ اس لئے جب بھی دادا ابو مسجد میں تشریف لے جا تے تو مجھے بھی سا تھ لے جا تے جس وقت میں نے بو لنا شرو ع کیا تو مجھے سکھا ئے گئے پہلے الفا ظ’’ لاالہ اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ‘‘تھے۔6سا ل کی عمر میں مجھے کلمہ، ایما ن کی صفا ت اور متعد دُعا ئیں بہترین تلفظ کی ادائیگی کے سا تھ یا د تھی۔جو لو گ بھی مجھ سے تلاوت سنتے تھے تلفظ کی ادائیگی کی وجہ سے حیرا ن ہو جاتے تھے۔
میرے دادا ابو کے شا گر دو ں میں بچوں کے علا وہ ہزارو ں بچیو ں کو قرآن کی تعلیم کے زیورسے آرا ستہ کرنا بھی شا مل ہے جب آپ قرآن پڑھاتے تھے تو تلفظ کی ادائیگی پر خا ص توجہ ہو تی تھی۔ اس وقت دادا ابو کے پا س تیسری نسل کے بچے قرآن پڑھ رہے تھے میں نے اپنی زندگی میں دادا ابوکی نما ز تودُور کی بات کبھی تہجدبھی قضا ہو تے نہیں دیکھی وہ را ت کو سو نے سے پہلے اپنے وظائف مکمل کر تے اور را ت کو 2بجے اُٹھ کر اپنے اعمال شرو ع کر تے اور تہجد کے لئے ایسے اُٹھتے کہ کسی کو کانو ں کا ن خبر نہ ہو تی پہلے تہجد پڑھتے پھر تلاوت قرآن پاک کرتے پھر بہت خوبصورت الفاظ کے موتی بکھیرتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں رو رو کر دُعا کرتے اللہ کی حمدو ثناء کے بعد ایصالِ ثوا ب ایسے کرتے کہ میں حیران رہ جاتی کہ اتنے نام کیسے یاد رہتے ہیں وہ الفاظ مجھے یاد ہوگئے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ میں وہ الفاظ درج کروں یا اللہ جوپڑھا اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اس کا ثواب جنابِ محمد الرسول اللہ ﷺ کی روح مقدس کو پہنچا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام تمام صحابہ شہدا صالحین تابعین تبع تابعین شہدائے اُحد و بدر، خاندانِ اہلبیت، اولیاء اللہ، تیرے نیک بندے اور ہر وہ انسان جو ایمان کا ذرہ لیے دنیا سے رخصت ہوا ہر مسلمان مرد عورت بچہ، بوڑھا، جوان۔ یااللہ سب کی روحوں پر اس کا ثواب پہنچا اور بالخصوص علمائے دیوبند مولانا اشرف علی تھانوی، حسین احمد مدنی، محمود الحسن، رشید احمد گنگوہی، امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا الیاس، مولانا یوسف، مولانا رائپوری، قاضی عبدالقادر اور کچھ تبلیغ کے میواتی حضرات تھے جن کے نام روازنہ لے کر دُعائیں کیا کرتے تھے۔ پھر حسبِ معمول فجر کی آذان سے قبل مسجد میں تشریف لے جاتے تھے آپ کے جانے سے قبل ہی بچیاں درس گاہ میں موجود ہوتی تھیں آپ ہر بچی کو قرآن پاک کے ساتھ ساتھ نماز۔ روزہ۔ ضروری مسائل اور تمام اہم مواقع کی دُعائیں یاد کرواتے تھے۔
اس کے علاوہ ہر بچی کو تعلیم الاسلام کے 6حصے اور بہشتی زیور خود پڑھاتے تھے۔ بچیوں کو آپس میں مقابلہ کی فضا پیدا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے سب بچیاں خُوب محنت کر کے اپنی تیاری کرتی تھیں ۔ تبلیغی جماعت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔
میرے دادا ابو حضرت رائپوری ؒ کے خدام میں تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سرگودھا میں تبلیغ کا کام شروع کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد تبلیغ کا پہلا گشت سرگودھا میں میرے دادا ابو نے کیا۔ میرے اُستاد میرے دادا کے خواتین میں بیانات کو بہت پسند کیا جا تا تھا آپ بہت آسان اور سادہ اور پیارے الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کو آسان کر کے سمجھا دیتے تھے۔ سرگودھا میں بچیوں کے اکثر مدارس کے سنگِ بنیاد اور طالبات سے بیانات فرمایا کرتے تھے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ میں آج جو یہ تحریر لکھ رہی ہوں یہ سرگودھا کی بہت سی لڑکیوں کے سامنے آئے گی۔ اِ س لیے بڑی اہم ذمہ داری اور مکمل اِعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہی ہوں کہ اُنہوں نے 70سال میں اپنی درسگاہ سے ذاتی طور پر ایک چھٹی بھی نہیں کی۔ آپ کبھی اپنی کسی بیٹی یا رشتہ دار کی طرف ساری زندگی میں رات بھی نہیں رہے۔ سال میں صرف دو مرتبہ عید کے دنوں میں دو دن کی چھٹیوں کے علاوہ کوئی چھٹی نہیں دیتے تھے۔ میرے دادا ابو کوبس ایک ہی فکر رہتی تھی کہ کل قیامت میں مجھ سے یہ سوال ہوگا کہ بچیاں پڑھنے آتیں تھیں اور تم درس گاہ میں موجود نہیں تھے تو میں کیا جواب دوں گا۔
آپ اپنی شدید تکلیف میں بھی درس گاہ میں ہر صورت پہنچتے تھے آپ اپنی شدید بیماری میں بھی اور زندگی کے آخری دنوں میں بھی وہیل چیئر پر 4آدمیوں کے سہارے مسجد اور درس گاہ میں پہنچ جاتے تھے۔ آپ کو اس بات کی بڑی فکر رہتی تھی۔ آپ فرماتے کہ بچیوں کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے اور کام بہت زیادہ۔ یہ بیچاری پہلے تعلیم میں مصروف رہتی ہیں پھر پڑھتے پڑھتے شادیاں ہوجاتی ہیں پھر اگر گھر داری نہ آتی ہوتو سسرال سے طعنے پڑتے ہیں ۔ اس لیے بچیوں کو جلد سے جلد تعلیم مکمل کر کے گھر داری پر توجہ دینی چاہیے۔
میں نے اپنی زندگی میں اپنے دادا ابو سے بڑا شفیق انسان کوئی نہیں دیکھا ہم جب رات کو سوتے تھے تو ہمیں دعائیں پڑھا کر سلاتے تھے اور صبح بڑی پیاری پیاری لوریاں سنا کر اُٹھاتے تھے۔ زندگی میں کبھی ہمیں نہیں ڈانتے تھے۔ اگر کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو بڑے پیارے سے سمجھاتے تھے۔ چار بیٹیاں اور بیوی اور ہزاروں شاگرد لڑکیوں کے باوجود اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میر ی تسلی نہیں ہوتی اگر میں کسی کے ہاتھ کے دُھلے کپڑے پہن لوں تو میری نماز میں لذّت نہیں رہتی۔ اپنے عمامہ، کپڑے، موزے ہر چیز کو بڑے سلیقے سے استعمال کرتے تھے طبیعت میں بڑی نفاست تھی۔ ہمیشہ سنت کے مطابق لباس استعمال کرتے تھے۔ اپنی زندگی میں ہزاروں شاگرد بچیوں کے نکاح بھی پڑھائے۔ جب بیماری کا شدید حملہ ہوا تو میرے پاپا نے کئی مرتبہ کہا کہ ابو آپ اب بہت ضُعف کا شکار ہوگئے ہیں آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے ساری عمر پڑھایا ہی ہے اب بس کریں آرام کیا کریں تو فرماتے بیٹا میری تو خواہش کہ جب میرا آخری وقت ہو اس وقت بھی میری زبان پر تلاوت قرآن ہو اور پھرایسا ہی ہوا۔میرے دادا ابو کا دل بہت بڑا تھا سارے زمانے کے غم اور ہزاروں شاگردوں کے دُکھ اپنے سینے میں دفن کر لیا کرتے تھے سارا دن گھر میں رش رہتا تھا کوئی لڑکی اپنی ساس کا گلہ کرنے آئی ہوتی اور کوئی عورت اپنی بہو کا۔ سرگودھا میں ہزاروں گھرانے ایسے تھے کہ ماں بھی شاگرد ساس بھی شاگر۔ بیٹی بھی شاگرد اور بہو بھی شاگرد۔ ہر انسان اُستاد جی کہہ کر پکارتا تھا اُستاد جی کے لقب سے مشہور تھے۔ ہر شاگرد کو صبر کی تلقین کرتے نماز روزہ کی تاکید کرتے۔
آخری ایام: ۔
شوگر کی وجہ سے پائوں میں چھالے بن گئے تھے جو بڑھتے چلے گئے ڈاکٹروں نے کہا کہ پائوں کاٹنا پڑے گا بڑے ابو کا ایک ہی ورد تھا کہ یا اللہ مجھے صحت عطا فرما اور مجھے پورے اعضاء کے ساتھ قبر میں اُتارنا۔ تکلیف بڑھتی چلی گئی آپ پر اللہ پاک نے اگلا جہاں کھول دیا تھا آنکھیں بند ہوتی اور عالم مدہوشی میں بار بار فرماتے گیٹ پر مولانا الیاس ؒ آئے ہیں ۔ اِ ن کو بٹھائو کبھی فرماتے حضرت جی کو اندر لے آئو۔ ایک بار چارپائی سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگے ہم نے روکا کے آرام فرمائیں تو کہنے لگے وہ دیکھو حضرت ابو بکر صدیق ؓ شریف لائے ہیں ۔ اِ ن کو بٹھائو۔ آخری دنوں میں لیٹے لیٹے نماز کی نیت باندھ لیتے اور شعور کے کام نہ کرنے کی وجہ سے بعض اوقات (50) پچاس رکعت نماز پڑھتے رہتے۔ یا پھر بچوں کو قرآن پڑھاتے رہتے کبھی تلفظ ٹھیک کرواتے کبھی کلمے یاد کرواتے۔ اسی طرح تکلیف بڑھتی چلی گئی۔ کافی عرصہ تقریباً(2)دو ماہ سے چلنے سے قاصر تھے پائوں کا زخم بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اپنی زندگی کا آخری جمعہ مؤرخہ 18فروری 15ربیع الاول کو صبح دس بجے آنکھیں کھولیں اور فرمایا مجھے غسل کروائو۔ میرے پاپا اور میرے کزن نے غُسل کروایا بڑے ابو نے غُسل کے بعد نئے کپڑے پہنے پھر کرسی پر بڑی مشکل سے بیٹھ کر سنتیں اور نوافل ادا کئے۔ پھر خوشبو لگائی، واسکٹ پہنی، پھر فرمانے لگے آج جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھنی ہے۔ ہم سب حیران ہوگئے کہ اتنی تکلیف میں کیسے لے کر جائیں گے۔ مگر اپنی ضد پر قائم رہے اور ان کی طلب کو دیکھتے ہوئے میرے پاپا 5آدمیوں کی مدد سے گاڑی میں بٹھا کر مسجد لے گئے۔ آپ نے اپنی زندگی کا آخری جمعہ مسجد میں جا کر پڑھا بقول میرے پاپا کے نمازیوں میں بڑی خوشی کی لہر دوڑ گئی تمام نمازیوں نے قطار در قطار مصافحہ کیا اس کے بعد ایک فوتگی والے گھر جا کر گاڑی میں ہی تعزیت کی۔ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی مگر گھر آنے کی بجائے فرمانے لگے کہ کسی جماعت کی نصرت کرنی ہے۔ سب لوگ حیران ہوگئے۔
بالآخر 30چک میں کسی جماعت کی نصرت کے لیے تشریف لے گئے وہاں سے 71چک ایک اور جماعت کی نصر ت کے لیے تشریف لے گئے اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی جماعتوں کی نصرت فرمائی۔ شام کو طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ 6آدمیوں نے گاڑی سے نکال کر گھر بیڈ پر لٹایا تو میرے تایا ابو نے کہا کہ ابو ساری عمر یہی کام کیا ہے اب تو آرام کرتے دیکھیں آپ کی طبیعت بہت خراب ہے تو فرمانے لگے کہ بیٹا حضرت جی فرمایا کرتے تھے تبلیغ کاکام کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرناہے۔ اپنی وفات سے چند دن قبل فرمایا کہ بیٹا میں نے یہاں زندگی کے 70سال ایسے گزارے ہیں کہ میری طرف سے کسی چڑیا کے بچے کا دل بھی دُکھی نہ ہوا ور میں نے کیسے زندگی گزاری ہے اس کا فیصلہ میرا جنازہ کرے گا اور پھر اہل سرگودھا نے اور سرگودھا کی زمین و آسمان نے وہ غمناک منظر دیکھا کہ جمعرات 24فروری کو صبح سے ہی قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کرنی شروع کی۔ ’’ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رؤف باالعباد ‘‘
اور 8بجے صبح پوچھا عصر کا وقت ہوگیاہے میں نے کہا کہ نہیں بڑے ابو ابھی تو 8بجے ہیں ، پھر 10بجے دریافت فرمایا، عصر کا وقت ہوگیاہے میں نے کہا کہ ابھی نہیں ہوا بالآخر تلاوت کرتے رہے دن گزرتا رہا بس پھر کیا تھا کہ
وہ وقت آپہنچا جب آسمان علم کا وہ روشن ستارہ جو ایک عرصہ تک زمین کے سینے پر قرآن کے پھول نچھاور کرتا تھا غروب ہو گیااور عصر کے وقت شام 4:30بجے اپنے پیارے اللہ کی بارگاہ میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ بس پھر کیا تھاہر طرف کہرام بپا ہوگیا، پورا سرگودھا غمگین ہوگیا سارا میاں خان روڈ اور ملحقہ مارکٹیں بند ہوگئی لوگ جوق در جوق غم میں ڈوبے ہوئے آہ بکا کرتے ہوئے دیوانہ وار ہمارے گھر کی طرف دوڑ ے ہمیں مجمع کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔دادا ابو ہزاروں شاگرد آناً فاناً جمع ہوگئے۔رات سے ہی صبح جنازے کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئیں ۔ تبلیغی مرکز کے اکابرین بھی تشریف لے آئے باہمی مشاورت سے 25فروری بروز جمعۃ المبارک صبح دس بجے کا وقت نمازِ جنازہ کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہ ایک بڑا روح پرور منظر تھا ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو غسل آپ کے شاگر عنصر خان اور شیراز خان اور میرے والد نے خود دیا اور غسل میں معاونت کے لیے مولانا شاہد محمود خطیب فاروق اعظم ؓمسجد اور قاری محمد اکرم سراجی نے بھی اس سعادت میں حصہ لیا۔
اس موقع پر گھر کے باہر آپ کے شاگردوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا ہر شخص بضد تھا کہ ہم نے بھی غسل میں حصہ لینا ہے پھر مشاورت کے بعد طے کیا گیا کہ غسل کے بعد میت کو رکھ دیا جائے اور تمام لوگ ایک ایک گلاس جسم مبارک پر بہائیں ۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو کہرام برپا ہوگیا۔ اس وقت آپ کی ہزاروں شاگرد بچیاں اور بیٹیاں تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھیں ۔ چارپائی کے ساتھ بانس باندھے گئے تھے پھر بھی بہت سامجمع کاندھا دینے سے محروم رہا۔ ٹریفک ہر سڑک پر جام تھی بے انتہا رش تھا رش ہی کی وجہ سے نماز جنازہ 1:30گھنٹہ تاخیر سے ادا کی گئی۔ اہل سرگودھا کے مطابق یہ سرگودھا کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ روزنامہ اسلام اور میڈیا کے مطابق جنازہ میں 60ہزار افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی امامت کی سعادت حضرت مولانا مفتی طیب سلیم نے حاصل کی۔
آج موسم بڑا خوشگوار تھا آسمان نے بھی اس موقع پر اپنا حصہ خوب ڈالا اور خوب آنسو برسائے۔ میں آج بہت دکھی ہوں اور بہت غمگین ہوں مگر الحمدللہ س بات پر دل مطمئن ہے میرے بڑے ابو کا دنیا سے سفر رخصت بہت شاندار تھا، مسجد کی چٹائی پر گمنامی کی زندگی گزارنے والا فقیر شخص کس شاہانہ طریقہ سے رخصت ہوا یہ سب قرآن پاک کی خدمت کا اعجاز تھا۔ الحمد للہ اللہ پا ک نے مجھ سمیت میرے تمام کزنز کو خوب خدمت کا موقع دیا ہم نے ان کی بیماری کے ایام میں خوب دعائیں سمیٹیں ۔ آج ہر چیز بڑے ابو کی دعائوں سے مومودہے بس ایک ان کا وجود نہیں ہے۔ جس کی کمی ہمیشہ محسوس کرتی رہوں گی۔انہی کی دعائوں سے الحمد للہ میں آج پنجاب کالج میں F.S.C کی طالبہ ہوں اور اُمید کرتی ہوں دنیا کی اس گھمن گھیریون میں ان کی دعائیں میری اور میری خاندان کی رہنمائی کرتی رہیں گی ان کی زندگی پر کئی کتابیں لکھ سکتی ہوں مگر وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے۔
اس موقع پر میں اپنی بہنوں اور بھائیوں سے درد دل کے ساتھ ایک گزارش کرنا چاہوں گی کہ خدا کے لیے جس گھر میں بڑے بزرگ موجود ہوں وہ ان کی خدمت آج کرلیں یہ موقع کل نہیں ملے گا۔ان کے وجود کو غنیمت سمجھیں آسمان سے اُترنے والے بہت سے مصائب ان بزرگوں کی وجہ سے رکے رہتے ہیں ۔ ان کی دعائیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک بڑی قبول ہوتی ہیں جو لوگ اپنے بزرگوں کی خدمت نہیں کرتے، اللہ پاک ان کو جانوروں کی خدمت پر لگا دیتے ہیں اور بڑے بزرگوں کی خدمت میں جو لذت اور اثر ہے خدا کی قسم وہ دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں ہے۔میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نہایت عاجزی کے ساتھ دعا گوہوں کہ اللہ رب العزت میرے بڑے ابو کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے۔
میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے جو دعائیں کرتے تھے ان کو درجہ قبولیت عطا فرمائے اور ان کی دعائیں زندگی کے اندھیروں میں ہمارے لیے روشنی بن کر راہنمائی کرتی رہیں ۔ آج میرے گھر میں سب کچھ ہے ایک پیار کرنے والی شخصیت اور مبارک وجود نہیں ہے جس کی کمی پورے خاندان کو ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اِس شہر میں سب کچھ ہے فقط اِ ک تیری کمی ہے