کاغذی روپیہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کاغذی روپیہ
پطرس بخاری
خواجہ علی احمد شہر کے بڑے سود اگر تھے لا کھوں کا روبار چلتا تھا، لو گوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، بچہ بچہ ان کی دیا نتداری سے واقف تھا اور ہر شخص جا نتا تھا کہ خواجہ علی احمد کے سچے اور بات کے پکے تھے۔
ایک دن انہوں نے اپنے آدمی کو جوتے والے کی دکان سے جو تا خرید نے بھیجا۔ جوتے کی قیمت بیس روپے تھی لیکن بجائے اس کے خواجہ علی احمد اپنے نوکر کو بیس روپے دے کر بھیجے انہوں نے نو کر کے ہاتھ کریم خاں جو تے والے کے نام یہ رقعہ لکھ بھیجا۔
میاں کریم خاں ! مہربانی کر کے ہمارے آدمی کو بیس روپے کا ایک جوتا دے دو ‘ہمارا یہ رقعہ اپنے پاس سنبھال کر رکھ چھوڑو۔ جب تمہارا دل چاہے یہ رقعہ آکے ہم کو یا ہمارے منشی کو دکھا دینا اور بیس روپے لے جا نا۔ یہ رقعہ اگر تم کسی اور شخص کو دینا چا ہو تو بے شک دے دو۔ جو ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو بیس روپے دے دیں گے۔ خواجہ علی احمد
دکاندار نے جب رقعے کے نیچے خواجہ علی احمد کے دستخط دیکھے تو اسے اطمینان ہوا ‘جا نتا تھا کہ خواجہ صاحب مکر نے والے آدمی نہیں اور پھر لا کھوں کے آدمی ہیں ۔ روپے نہیں بھیجے تو نہ سہی یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ جب چاہوں گا رقعہ جا کر دے دوں گا اور روپیہ لے لوں گا۔ چنانچہ اس نے بغیر تامل کے جوتا بھیج دیا۔
تھوڑی دیر بعد کریم خاں دکاندار کے پاس عبداللہ حلوائی آیا اور کہنے لگا: ’’میاں کریم خاں ! میرے تمہاری طرف پچیس روپے نکلتے ہیں ادا کر دو تو تمہاری بہت مہربانی ہو گی۔
کریم خاں نے کہا: ابھی لو۔ یہ پانچ تو نقد لے لو۔ باقی بیس رو پے مجھے خواجہ علی احمد سے لینے ہیں یہ دیکھو ان کا رقعہ ذرا ٹھر جا ؤ ‘تو میں جا کے ان سے بیس روپے لے آؤں ۔ عبداللہ بھی خواجہ علی احمد کو اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ شہر بھر میں خواجہ کی سا خت قائم تھی کہنے لگے۔ تم یہ رقعہ مجھے ہی دے دو میں بیس رو پے لے آوں گا کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ رقعہ لا ئے اس کو بیس روپے دے دیے جا ئیں گے۔ کریم خاں نے کہا: یو نہی سہی۔ چنانچہ عبد اللہ حلوائی نے بیس روپے کے بدلے وہ رقعہ قبول کر لیا۔
کئی دنوں تک یہ رقعہ یو نہی ایک سے دو سرے کے ہا تھ میں پہنچ کر شہر میں گھومتا رہا خواجہ علی احمد پر لو گوں کو اس قدر اعتبا ر تھا کہ ہر ایک اس رقعہ کو بیس رو پے کی بجائے لینا قبول کر لیتا کیو نکہ ہر شخص جا نتا تھا کہ جب چا ہوں گا اسے خواجہ صاحب کے منشی کے پا س لے جا ؤں گا اور وہاں سے بیس رو پے وصول کر لوں گا۔ ہو تے ہو تے یہ رقعہ ایک ایسے شخص کے پا س پہنچ گیا جس کا بھائی کسی دو سرے شہر میں رہتا تھا یہ شخص اپنے بھائی کو منی آڈر کے ذریعے بیس روپے بھیجنا چا ہتاتھا۔ ڈاک خانے والوں نے اس رقعہ کو بیس رو پے لینے کے عوض قبول نہ کیا۔چنانچہ وہ شخص سیدھا علی احمد کی کو ٹھی پر پہنچا۔ رقعہ منشی کو دیا منشی نے بیس روپے کھن کھن گن دئیے اس نے رو پے جا کر ڈاک خانے کو دئیے اور انہوں نے آگے اس کے بھا ئی کو بیج دئیے اس مثال سے یہ ظاہر ہوا کہ محض ایک کاغذ کا پرزہ کتنی مدت تک رو پے کا کام دیتا رہا۔ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کا غذ کے نیچے ایک ایسے شخص کے دستخط تھے جس کی دو لت کا سب کو علم تھا سب جا نتے تھے کہ یہ شخص جب چا ہے بیس رو پے ادا کر سکتا ہے اور قول کا اتنا پختہ ہے کہ کبھی ادا کر نے سے انکا ر نہیں کرے گا۔
اگر ایسے ہی رقعی کے نیچے ہم یا تم دستخط کر دیتے تو کو ئی بھی اسے روپے کے بدلے قبول نہ کر تا اور تو ہمیں جا نتا ہی کون ہے اور جو جانتا بھی ہے وہ کہے گا۔ ان کا کیا پتہ آدمی نیک اور شریف اور دیانتدا ر سہی لیکن خدا جا نے ان کے پاس بیس روپے ہیں بھی کہ نہیں کیا معلوم ہم مانگنے جا ئیں اور وہاں کو ڑی بھی نہ ہو۔ خواجہ علی احمد گو یا کہ ایک قسم کا نوٹ تھا۔ سر کا ری نوٹ بھی بالکل یہی چیز ہوتے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ ان کے نیچے سرکار کی طرف سے سرکا ری خزانے کے ایک افسر کے دستخط ہو تے ہیں ۔ اگر تم دس رو پے کے نوٹ کو لے کر دیکھوتو اس پر اوپر حکومت پا کستا ن اور اس کے نیچے لکھا ہو تا ہے کہ میں اقرار کرتا ہو ں کہ عند المطالبہ حامل ہذا کو دس رو پے سر کا ری خزانہ کرا چی سے ادا کرو ں گا۔ اس عبارت کے نیچے سرکا ری افسر کے دستخط ہو تے ہیں ۔ خواجہ احمد علی کو تو صرف ایک شہر کے لو گ جا نتے تھے۔ حکومت پا کستا ن کو تو ملک کا ہر آدمی جا نتا ہے بلکہ ہر ملکوں میں بھی اس کی ساخت قائم ہے اس لئے سرکا ری نوٹ کو ہر شخص کو بلا تا مل قبول کر لیتا ہے اور قبول کیوں نہ کرے لو گ جانتے ہیں کہ جب چا ہیں خزانے میں جا کے اس روپیہ کو بھنا سکتے ہیں ۔
خواجہ علی احمد کے رقعہ اور سرکا ری نوٹ میں ایک فرق اور بھی ہے خواجہ علی احمد کا رقعہ تو ڈاک خانے والوں نے قبول نہ کیا تھا لیکن سرکاری نوٹ انہیں ضرور ہی قبول کر نا پڑتا ہے۔ سر کا ری نوٹوں کو قانونی طور پر ملک کا سکہ قرار دیا گیا ہے اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان کو روپے کے بدلے لینے سے انکا ر کر دے۔ اگر تمہیں کسی شخص نے دس چاندی کے روپے قرض دئیے تھے اور اب تم اس کو یہ قرض اتارنے کے لئے دس روپے کا نوٹ دیتے ہو تو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ میں تو چاندی کے روپے ہی لوں گا۔ اسے دس کا نوٹ ضرور لینا پڑے گا۔
روپیہ ایسا ہو نا چاہیے کہ اسے آسانی کے ساتھ پاس رکھا جا سکے چاندی کے سکوں میں یہ خوبی ایک حد تک پائی جا تی ہے تا ہم چا ندی کے سکے وزنی ہو تے ہیں اسی روپے کا وزن سیر بھی ہو جا تا ہے تو جہاں پانچ چھ سو رو پے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جا نے ہو وہا ں اچھی خاصی دقت پیش آتی ہے۔ نوٹوں سے یہ دقت رفع ہو جا تی ے ہزاروں روپے کے نوٹ ایک جیب میں آسانی سے ڈالے جا سکتے ہیں ۔ نوٹوں کے جا ری کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
باوجود ان سب باتوں کے جس شخص کے پاس بہت سا روپیہ ہو۔ اس کے لئے یہ مشکل ہے کہ بہت سے نوٹ کچھ رو پے چونیاں ، دونیاں ،یہ سب کچھ اپنے پا س رکھے۔ ایک تو سنبھالنے کی تکلیف، دوسرا چوری کا خطرہ اسلئے بہتر یہی ہو تا ہے کہ وہ اپنا روپیہ بنک میں رکھوا دے۔ بینک میں روپیہ امانت کے طور پر رہتا ہے، روپے کا مالک جب چاہے اسے نکلوا سکتا ہے یا جب چاہے جس کو چاہے اپنے حصہ کا روپیہ دلوا سکتا ہے۔ کسی اور کو اپنے حصہ کا رو پیہ دلوا نے کہ ترکیب یہ ہے کہ اس کو چیک لکھ کر دے دیا جا ئے۔
ہم یہاں جیک کے معنوں کو واضح طور پر بیان کر ناچا ہتے ہیں ۔ فرض کرو عبد اللہ نے بینک میں بہت سا روپیہ جمع کر رکھا ہے کریم خان اس سے دس روپیے مانگنے آتا ہے عبد اللہ بجائے اس کے کہ کریم خان کو دس روپے نقد دے وہ اس دس روپے کا چیک لکھ دیتا ہے۔ چیک گو یا ایک قسم کا رقعہ ہے جو عبد اللہ کریم خان کی معرفت اپنے بینک کو بھیج رہا ہے۔چیک پر مفصل ذیل الفا ظ لکھے ہو تے ہیں ۔