چند اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چند اہم اسلامی آداب
الشیخ عبدالفتاح ابوغدۃ رحمۃ اللہ علیہ
ادب28:۔
جب آپ اپنے بھائی، رشتہ دار،یاجاننے والے کے پاس اس کی مصیبت میں تعزیت لیے جائیں تو مستحب یہ ہے کہ اپنے میت بھائی کے لیے دعا بھی کریں ، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسلمۃ کے لیے دعا فرمائی تھی، اور ان کے گھر والوں سے تعزیت فرمائی۔ آپ نے فرمایا۔
اللھم اغفرلابی سلمۃ وارفع درجتہ فی المہدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین ای کن لہ خلیفۃ فی ذریتہ الباقین من اسرتہ، واغفرلنا ولہ یارب العالمین، وافسخ لہ فی قبرہ، ونورلہ فیہ
[مسلم]
ترجمہ: اے اللہ ابوسلمہ کی مغفرت فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما، پیچھے رہ جانے والوں اور باقی ماندہ لوگوں کے لیے اس کا خلیفہ بن جا، ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اے رب العالمین اس کی قبر کو کشادہ اور روشن کردے۔(اس کوامام مسلم نے روایت کیا]
جس شخص سے آپ تعزیت کررہے ہیں اس سے آپ کی گفتگو ایسی ہوکہ جس سے اس کی مصیبت کاغم ہلکاہو، وہ اس طرح کہ آپ اس کے سامنے مصیبت پر اجراوراس پر صبر کرنے پر اجروثواب کاذکرکریں ،اوریہ کہ دنیافانی اورختم ہونے والی اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ اس سلسلہ میں اس سے متعلق بعض آیات کریمہ اوراحادیث شریفہ ذکرکی جائیں نیز سلف صالحین کے اقوال پیش کئے جائیں مثلا اللہ کایہ فرمان۔
وبشرالصابرین الذین اذااصابتہم مصیبۃ قالوا انااللہ واناالیہ راجعون اولئک علیھم صلوات من ربہم ورحمۃ واولئک ہم المہتدون۔
(البقرہ:155،156،157]
ترجمہ: اورآپ ایسے صابرین کوبشارت دیجئے( جن کی عادت یہ ہے)کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم (مع مال واولاد حقیقتا)اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اورہم سب(دنیا سے)اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور سب پر اشتراک عام رحمت بھی ہوگی، اور وہی لوگ ہیں جن کی حقیقت حال تک رسائی ہوگی۔
اس طرح اللہ کایہ فرمان۔
کل نفس ذائقۃ الموت وانما تو فون اجورکم یوم القیامۃ، فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز، وماالحیوٰۃ الدنیا الامتاع الغرور۔
[آل عمران:185]
ترجمہ: ہرجان کوموت کامزہ چکھنا ہے اورتم کو پوری پاداش تمہاری قیامت ہی کے روز ملے گی تو جوشخص دوزخ سے بچالیاگیا، اور جنت میں داخل کیاگیا سو پورا کامیاب وہ ہوا اور دنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں مگر دھوکے کاسوداہے۔اور اللہ کایہ فرمان۔
کل من علیھا فان ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلا ل والاکرام۔
[رحمن:26،72]
ترجمہ: جتنے روئے زمین پر موجود ہیں سب فناہوجائیں گے اور آپ کے پروردگار کی ذات جو عظمت اور احسان والی ہے باقی رہ جائے گی اور جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد۔
اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرامنہا۔
ترجمہ: اے اللہ میری مصیبت میں مجھے اجرعطافرمااور اس سے مجھے بہتر بدل عطافرما
[صحیح مسلم]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول:ان للہ مااخذ ولہ مااعطی، وکل شئی عندہ باجل مسمی
ترجمہ: اللہ ہی کے لیے ہے جو اس نے لیا اور اسی کاہے جواس نے دیا اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک وقت مقررہے۔
(صحیح بخاری ومسلم]
اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول جوآپ نے اپنے صاحبزادے ابراہم کو الوداع کرتے وقت فرمایاجب ان کی وفات ہوئی
ان العین تدمع، والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا، وانا یفراقک یٰابراہیم لمحزونون۔
ترجمہ: آنکھیں پر نم ہیں دل غمگین ہے اور ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے رب کو راضی کرنے والی ہے اور اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں ۔
(بخاری ومسلم]
نیزیہ بھی مناسب ہے کہ مصیبت والے کے سامنے اس کاغم ہلکا کرنے کے لیے اقوال ذکرکریں مثلاً: حضرت عمررضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے ہرروز کہاجاتاہے کہ فلاں شخص وفات پاگیا فلاں دنیا سے چلا گیا اور ایک دن ایسا بھی ضرورآنے والاہے کہ اس دن کہاجائے گا عمر بھی وفات پا گئے اور خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کایہ قول سنائیں کہ:جس شخص کے درمیان اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان کوئی باپ زندہ نہیں وہ بھی موت میں ڈوبنے والاہے۔
جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کاقول:۔
اے آدم! کے بیٹے توں تو چند دنوں کامجموعہ ہے جب ایک دن گزر جاتاہے تو تیرا ایک حصہ چلاجاتاہے۔نیز انہیں کایہ قول کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے جنت کے لیے جنت سے کم کسی چیز میں راحت نہیں رکھی۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے شاگر مالک بن دینار کا قول اہل تقویٰ کی خوشی کادن تو قیامت کا دن ہوگا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے۔
وانا لنفرح بالایام نقطعھا
وکل یوم مضی یدنی من الاجل
یعنی ہم خوش ہوتے ہیں کہ دن گزررہے ہیں لیکن ہر دن جو گزرتا جاتاہے وہ ہمیں موت کے قریب کررہاہے۔ تعزیت کے کے سلسلہ میں بہت ہی عمدہ شعر کہاگیاہے۔
انانعزک الا انا علی ثقۃ
من الحیاۃ ولکن سنۃ الدین
فماالمعذی بباق بعد میتتہ
ولامعزی وان عاشا الی حین
یعنی ہم آپ کی تعزیت کرتے ہیں اس لیے نہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کایقین بلکہ اس لیے تعزیت کرتے ہیں کہ یہ دین اسلام کی سنت ہے۔ میت کے بعد نہ تو جس کی تعزیت کی جاتی ہے وہ باقی رہے گا اور نہ تعزیت کرنے والا اگرچہ وہ لمبی عمر تک زندہ رہے۔اسی مناسبت سے کہنے والے نے کیاخوب کہاہے۔
نموت ونحیا کل یوم ولیلۃ
ولابد من یوم نموت ولانحیا
یعنی ہم ہرروز مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں (یعنی سوکراٹھتے ہیں )اور ایک دن ضرور آنے والاہے کہ ہم مریں گے اور زندہ نہ ہوں گے اورایک شاعر نے زندگی اور غفلت کی سچی تصویر کھینچتے ہوئے کہاہے۔
وانالفی الدنیا کرکب سفینۃ نظن وقوفا والزمان بنا یجری
دنیا میں ہماری مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے سوا،ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ کھڑی ہے اور زمانہ کی کشتی ہمیں لے کر چل رہی ہوتی ہے۔مجھے ان آیات احادیث اور بزرگوں کے اقوال … جن کا تعزیت میں ذکر کرنا مناسب ہوتاہے…کے ذکر کرنے کی اس لیے حاجت محسوس ہوئی کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ مصیبت زدہ شخص کی مجلس تعزیت میں غیرمتعلقہ موضوعات چھیڑ دیتے ہیں جن کا اس مصیبت زدہ غمگین شخص کی حالت سے کوئی جوڑ نہیں ہوتا اور جو ایک غمگین پر گراں گزرتے ہیں او ریہ ذوق سلیم اور اسلامی آداب کے خلاف ہے۔
ادب 29:۔
مجلس کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنے مہمان یا جس سے بھی گفتگو کر رہے ہوں تو آپ کی آواز نہایت نرم اور پست ہونی چاہیے، اور ضرورت کے مطابق اپنی آواز کو بلند کریں کیونکہ ضروت سے زائدآواز بلند کرنا گفتگو کرنے والے کو زیب نہیں دیتا۔ اور وہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں مخاطب کو پوری عزت نہیں ہے۔یہ وہ ادب ہے جس کاخیال رکھنا اپنے دوست ہم منصب جسے آپ جانتے ہیں ، یا نہیں جانتے آپ سے چھوٹا ہے یاآپ سے بڑاہے سب کے لیے ہے اور اس ادب کا خیال رکھنا اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتاہے جب آپ اپنے والدین یا والدین جیسے یا جوآپ کے نزدیک قابل تعظیم اور قابل احترام ہوں ، ان سے گفتگو کررہے ہیں ، اس سلسلہ کی چند آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں :قرآن کریم نے حضرت لقمان حکیم کی نصیحت جوانہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائی ہے ذکرکی ہے واغضض من صوتک یعنی جب لوگوں سے بات کرو تو اپنی آواز کو پست کرو اور اسے اونچا مت کرو، کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز بلند کرنا ناپسند یدہ اور براعمل ہے۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔
یاایھاالذین امنو لاترفعواصواتکم فوق صوت النبی و لاتجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون o ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقویٰ لھم مغفرۃ واجر عظیم۔
[الحجرات:2،3]
ترجمہ: اے ایمان والو تم اپنی آوازیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند مت کیاکرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کربولاکرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولاکرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال بربادہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ان لوگوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
توحضرت عمر رضی اللہ آیت کے اترنے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات عرض کرتے تو اس طرح بات کرتے جیسے کوئی سرگوشی کرنے والابات کرتاہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات دہرانے کے لیے ارشاد فرماتے۔ الغرض حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اتنی آوازپست کرتے کہ آپ کوسمجھنے کے لیے ان سے پوچھناپڑتا۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام 197/4میں جلیل القدر فقیہ اور تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے بارے میں عبداللہ بن عون رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ امام محمد بن سیرین جب اپنی والدہ محترمہ کے پاس ہوتے تو دیکھنے والا جو ان کو جانتا نہ ہو تایہ سمجھتاکہ وہ بیمار ہیں کیونکہ والدین کے سامنے وہ اپنی آواز بہت پست کرتے تھے نیز حافظ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ213/6میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے شاگرد ایک بڑے امام عبداللہ بن عون رحمہ اللہ بصرہ کے بارے میں لکھاہے کہ ایک بار ان کی والدہ محترم نے ان کو بلایا تو جواب میں ان کی آواز والدہ کی آواز سے زیادہ اونچی ہوگئی تووہ بہت گھبرائے کہ یہ ان سے گناہ ہوگیاہے اس لیے فورادوغلام آزاد کر دیے۔کوفہ کے مشہور قاری عاصم بن بہدلہ ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا تو ایک شخص ان کی مجلس میں بلند آواز سے بولنے لگا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا ایسا مت کرو ایک شخص کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ گفتگو کے وقت اتنی بلند آواز کرے، جتنی اس کا بھائی یا ہم مجلس سن سکے۔
[تہذیب تاریخ دمشق لابن عساکر لعبد القادر بدران: 123/7]