عظمت کے مینار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عظمت کے مینار
خدیجہ جمشید'گوجرانوالہ
ککڑیاں تو آپ نے کھائی ہوں گی؟ یقیناً آپ کہیں گی جی ہاں کئی مرتبہ! تو بھئی ککڑیاں آج ہی نہیں آج سے تیرہ سو سال پہلے بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی تھیں اور بچے تو انہیں بہت ہی زیادہ پسند کرتے تھے۔ ایسے ہی بچوں میں ایک چھوٹی سی بچی تھی جو عراق کے شہر کوفہ میں رہا کرتی تھی۔ ایک دن اس بچی نے گھر کے باہر تازہ تارہ ککڑیاں بکتی دیکھیں ، بچی کا بڑا جی چاہا کہ ککڑیاں کھائے لیکن پیسوں کے بغیر تو ککڑی والا اسے ککڑی نہ دیتا لیکن اس بے چاری کے پاس پیسے نہ تھے۔ وہ روتی ہوئی گھر آگئی اور امی سے ضد کرنے لگی کہ میں تو ککڑیاں ہی کھائوں گی۔ بچی کے والد صاحب ان دنوں مالی پریشانیوں سے دوچار تھے۔ ماں تو بڑی مشکل میں پڑگئی کہ پیسے کہاں سے لائیں ؟ ادھر بچی تھی کہ ضد کیے جارہی تھی، ماں نے منع کیا تو چیخ چیخ کر رونے لگی۔
بچی کے والد بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ان سے معصوم بچی کا رونا دیکھا نہ گیا، انہوں نے سوچا کہ کہیں سے مدد مانگ لی جائے، کوئی تھوڑی سی رقم دے دے تو گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان آجائے گا اور بچی کو ککڑیاں بھی مل جائیں گی۔ وہ اٹھے اور ایک بہت بڑے بزرگ کی مجلس کی طرف چل دیے، یہ مجلس’’ مجلس البرکۃ‘‘ یعنی برکتوں والی مجلس کہلاتی تھی۔ بچی کے والد مجلس میں تو آگئے لیکن بزرگ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے انہیں بہت شرم آئی۔ انہوں نے کبھی کسی سے مانگا نہ تھا، وہ مانگنا پسند بھی نہیں کرتے تھے اور بات ہے بھی صحیح! کسی سے مانگنا، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔ اللہ کے نیک بندے ضرورت پڑنے پر بھی کسی سے مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ بچی کے والد صاحب کا بھی یہی حال تھا، وہ بار بار کچھ کہنے کا ارادہ کرتے لیکن پھر رک جاتے، آخر وہ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
بزرگ انہیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے، وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص سخت ضرورت مند ہے لیکن غیرت والا آدمی ہے اس لیے کچھ کہتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔ بزرگ اپنی جگہ سے اٹھے اور مناسب فاصلہ رکھ کر بچی کے والد کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ جب وہ صاحب اپنے مکان میں چلے گئے تو بزرگ ان کا گھر دیکھ کر واپس آگئے۔رات ہوئی تو بزرگ اس بچی کے مکان پر پہنچے، خاصی دیر ہوچکی تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بزرگ نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، بچی کے ابو باہر نکلے، اندھیرے میں پہچان نہ سکے کہ کون آیا ہے، اتنی دیر میں بزرگ نے مکان کے دروازے پر ایک تھیلی رکھی اور یہ کہتے ہوئے فوراً واپس چلے گئے۔ ’’دیکھو تمہارے دروازے پر تھیلی پڑی ہوئی ہے، یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘بچی کے والد نے تھیلی اٹھالی لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون صاحب تھے جو یہ تھیلی دے کر چلے گئے۔ اندر جا کر تھیلی کھولی تو اندر پانچ سو درہم اور ایک پرچہ رکھا ہوا تھا، پرچہ پر لکھا تھا۔
’’ابو حنیفہ اس رقم کو لے کر آپ کے پاس آیا تھا یہ رقم حلال ذریعہ سے حاصل کی گئی ہے۔‘‘
کچھ سمجھیں آپ! کہ یہ ابو حنیفہ کون تھے؟ یہ مسلمانوں کے فقہ اور حدیث کے مشہور امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کو امام اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ امام اعظم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے شاگرد تھے، اور صحابہ کرام کی مبارک صحبت کی برکت سے آپ کے علم کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق بھی مثالی تھے۔دیکھیں کہ امام صاحب نے کتنے چپکے سے اس بچی کے والد کی مدد فرمائی۔ ایسا آپ نے اس لیے کیا کہ دوسرے اگر آپ کے نیک عمل کو دیکھتے تو واہ واہ کرنے لگتے، اس طرح آپ کی نیکی کا ثواب ضائع ہوجانے کا خطرہ تھا۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر نیک کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتا ہے تو اس کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے بلکہ اس شخص کو ریا کاری کا گناہ الگ ملتا ہے۔