امام اعظم ابو حنیفہ ایک نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
امام اعظم ابو حنیفہ ایک نظر میں
مولانا عابد جمشید
نام: نعمان بن ثابت کنیت: ابو حنیفہ لقب: امام اعظم
ولادت: امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 80ھ کو کوفہ میں ہوئی۔
تحصیل علم کی طرف توجہ اور تعلیم و تربیت:۔
امام اعظم کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مذاہب وادیان کی دنیا دیکھی غور و فکر کرنے سے ان سب کی حقیقت آپ پر آشکارا ہوگئی آغاز شباب سے ہی آپ نے مناظرہ بازوں سے معرکہ آرائی شروع کر دی اور اپنی فطرت مستقیم کے حسب ہدایت اہل بدعت و ضلالت کے مقابلے میں اتر آئے مگر اس کے باوجود آپ تجارتی مشاغل میں منہمک تھے۔ بعض علماء نے آپ میں عقل و علم و ذکاوت کے آثار دیکھے اور چاہا کہ یہ بہترین صلاحیتیں تجارت کی ہی نظر نہ ہو جائیں انہوں نے آپ کو نصیحت کی کہ بازاروں میں آمدورفت کے علاوہ علماء کی طرف عنان توجہ ہونی چاہیے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک بار شعبی کے ہاں سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا آنا جانا کہاں ہے تو میں نے عرض کیا ’’میں بازار آتا ہوں ‘‘ آپ نے فرمایا کہ میری مراد بازار نہیں بلکہ علماء کے ہاں آنے جانے سے ہے۔ میں نے کہا کہ میری آمدو رفت علماء کے ہاں بہت کم ہے انہوں نے کہا کہ یہ غفلت نہ کیجیے علم کا درس اور مطالعہ اور علماء کی صحبت آپ کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ میں آپ میں حرکت وبیداری کے آثار دیکھتا ہوں۔ میرے دل میں بات اتر گئی اور میں نے بازار کی آمد ورفت چھوڑ کر علم حاصل کرنا شروع کر دیا اللہ تعالیٰ نے ان کی بات سے مجھے فائدہ پہنچایا۔
علم و کلام جدل و مناظرہ میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد علم فقہ آپ کی جولان گاہ اور فکر و نظر بنا۔ آپ کوفہ میں پروان چڑھے اور وہیں رہ کر زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور مناظرہ میں گزارا کتب تواریخ میں آپکے والد کے بارے میں کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں کہ وہ متمول تاجر اور بہت اچھے مسلمان تھے اکثر سیرت نگاروں نے کھا ہے کہ آپ کے دادا کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ثابت کی اولاد کے لیے دعا کی امام اعظم کی تربیت ایک خاص اسلامی گھرانے میں ہوئی۔
امام اعظم اور حماد بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہما: ۔
آغاز فقہ اور حضرت حماد کے حلقہ تلمذ میں آنے کے وقت آپ کی عمر کا صحیح صحیح تعین تو مشکل ہے البتہ امام صاحب کے آغاز تعلیم و تدریس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ امام حماد کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے دامن سے وابستہ رہے اور اس کی مدت تقریبا اٹھارہ سال بنتی ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ:۔
امام ابوحفص نے آپ کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے اور دوسروں نے آپ کے اساتذہ کی تعداد صرف تابعین رضی اللہ عنہم میں چار ہزار بتائی ہے تو غیر تابعین کی تعداد کا کون خیال کر سکتا ہے۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں حضرت امام حماد ،امام زید بن علی زین العابدین ، حضرت امام جعفر صادق ،حضرت عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی،امام شعبی، عکرمہ تلمیذ ابن عباس، نافع تلمیذ ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین۔
تلامذہ:۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام زفر بن ہذیل رحمۃ اللہ علیہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ امام وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ امام داؤد بن نصیر رحمۃ اللہ علیہ۔
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اللہ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات:۔
امام اعظم نے متعدد صحابہ کرام سے ملاقات کی جن میں چند کے نام یہ ہیں : حضرت سیدنا انس بن مالک، حضرت عبداللہ ابن اوفی، حضرت سہل بن سعد، حضرت سیدناابو طفیل، حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہم۔
حضرات محدثین کے نزدیک جو شخص صحابی سے ملاقات کرے اگرچہ ساتھ نہ رہے وہ تابعی کہلاتا ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امام اعظم ان معززین تابعین میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’ والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعد لہم جنت تجری تحتھا النھار خلدین فیھا ابداoاور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے-
امام اعظم اور امام باقر کا مکالمہ:۔
امام محمد باقر بن زین العابدین زید ابن علی کے بھائی تھے اما م باقر بہت بڑے عالم دین تھے امام ابوحنیفہ کی ان سے ملاقات اسوقت ہوئی جب ان کی فقہ و رائے کا نیا نیا چرچا ہوا تھا۔ ملاقات کا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں پیش آیا۔ امام باقر نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’آپ نے تو میرے نانا کے دین کو اور ان کی حدیث کو قیاس سے بدل دیا ہے۔ُُ امام اعظم نے کہا: ’’معاذاللہ جناب باقر بولے آپ نے ایسا ہی کیا ہے امام اعظم نے فرمایا آپ تشریف رکھیے تا کہ میں بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاؤں کیونکہ میری نظر میں آپ اسی طرح لائق احترام ہیں جیسے آپ کے نانا صحابہ کی نظر میں۔ جناب باقر تشریف فرما ہوئے امام اعظم بھی ادباًآپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام اعظم نے فرمایا: میں آپ سے باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ان کا جواب مرحمت فرمائیں۔
پہلا سوال:۔
امام ابو حنیفہ: مرد کمزور ہوتا ہے یا عورت؟
امام باقر: عورت۔
امام ابو حنیفہ: وراثت میں عورت کیا حصہ ملتا ہے؟
امام باقر: مرد کو دو اور عورت کو ایک۔
امام ابو حنیفہ: آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں ان کے دین کو بدل دیتا تو قیاس کے مطابق مرد کو ایک حصہ دیتا اور عورت کو دو کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے لیکن میں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔
دوسرا سوال:۔
امام ابو حنیفہ: نماز بہتر ہے یا کہ روزہ؟
امام باقر: نماز
امام ابو حنیفہ: یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں اس کو قیاس سے بدل دیتا تو تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ حیض سے پاک ہو کر روزہ کی بجائے وہ فوت شدہ نمازیں ادا کرے -
تیسرا سوال:
امام ابوحنیفہ: پیشاب زیادہ نجس ہے یا کہ نطفہ؟
امام باقر: پیشاب۔
امام ابو حنیفہ: اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو فتویٰ دیتا کہ پیشاب سے غسل کرے اور نطفہ سے وضو۔ لیکن معاذاللہ بھلا میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں ؟
جناب باقر اٹھے اور اٹھ کر بغل گیر ہو گئے چہرہ کا بوسہ لیا اور آپ کی تکریم بجا لائے-
امام صاحب کی ذہانت:۔
ایک دفعہ بنی ہاشم خاندان کے ایک سردار کا بیٹا وفات پاگیا۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو اس وقت سفیان ثوری، ابن شبرمہ،مندل ،حبان،قاضی ابن ابی لیلی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے فقہاء العصر لوگ بھی اس میں شریک تھے۔ جاتے جاتے درمیان راستے میں لوگوں نے دیکھا کہ متوفی لڑکے کی ماں بھی دیوانہ وار چلی آرہی ہے اور وہ بھی بغیر پردہ کے۔ ہاشمی خانداں کی عورت اور اس حال میں ؟ یہ کچھ اچھا تاثر نہ تھا۔ اس کے شوہر یعنی لڑکے کے والد کو جب اس بات کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوا اور فی الفور اپنی بیوی سے کہا کہ یہاں سے واپس چلی جا۔ مگر بیوی نے انکار کیا شوہر نے علی الاعلان کہا کہ اگر تو واپس چلی نہ گئی تو تجھے طلاق۔ بیوی نے بھی قسم کھائی کہ جب تک اس کے بیٹے کا جنازہ نہ پڑھایاگیا ہو تو وہ واپس نہیں جائے گی۔
اب ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی، شوہر اور بیوی دونوں کے لیے مشکلات !جنازے میں مذکورہ بالا بڑے بڑے علماء و فضلاء سب حیران وپریشان کھڑے تھے کہ اچانک سب کی نظر امام اعظم پر پڑی۔ سب نے امام صاحب سے اس گھمبیر مسئلہ کو حل کرنے کی درخواست کی۔ امام صاحب نے دونوں میاں بیوی کو بلا کر کہا کہ سب لوگ یہیں کھڑے صف بندی کریں اور جنازہ گاہ سے بھی لوگوں کو وہیں اسی جگہ بلالیا۔ شوہر سے کہاگیا کہ آگے بڑھو اور جنازہ پڑھائو۔ جب شوہر نے جنازہ پڑھایا تو امام صاحب نے عورت سے کہا کہ اب تم واپس چلی جائو کیونکہ اب تیرے بیٹے کا جنازہ پڑھایا گیا ہے اور واپس جاتے ہوئے تم قسم سے آزاد ہو یعنی آپ کی شرط پوری ہوئی۔
دوسری جانب شوہر سے کہا کہ آپ کی بیوی اسی جگہ سے واپس چلی گئی یوں آپ کی طرف سے طلاق بھی نہ ہوئی اور آپ بھی بچ گئے۔ گویا طلاق اور قسم دونوں واقع نہ ہوئے۔اس بات پر وہاں موجود تمام علماء و فضلاء اور عوام نے امام صاحب کو بہت خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے اتنا گھمبیر مسئلہ پلک جھپکتے میں حل کیا۔
امام اعظم کے تدریس و افتاء کی ابتدا:۔
جب کوفہ کے رئیس العلماء اور آپ کے استاد گرامی حضرت حماد کا وصال ہوگیا اور مسند تدریس خالی ہو گئی تو لوگوں کو ضرورت کا احساس ہوا کہ آپ کی جگہ کوئی رونق افروز ہو کر تشنگان علم کو سیراب کرے۔ لوگو ں نے پہلے حضرت حماد کے صاحبزادے کو بٹھایا لیکن آنے جانے والوں کو تشفی نہ ہوئی کیو نکہ زیادہ تر ان کی توجہ فن نحو وعلم کلام پر مرکوز تھی پھر موسیٰ بن کثیر بیٹھے لیکن وہ بڑے بڑوں کو ملا کرتے تھے اس لئے لوگوں نے ان کو پسند نہ کیا۔ اس کے بعد باتفاق رائے امام اعظم منتخب ہوئے آپ نے بھی سب کی بات تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ علم مر جائے پھر تشنگان علم آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے اور آپ کا وسیع ترین علم و حسن اخلاق اور تحمل دیکھ کر لوگوں نے اوروں کو چھوڑ دیا اور وہ سب انہی کے ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا حلقہ درس تمام درس گاہوں سے وسیع ہو گیااور لوگو ں کے قلوب آپ کی طرف مائل ہو گئے اور امراء آپ کی تعظیم و تکریم کرتے خلفاء ان کو یاد کرتے اس لئے کہ جو مسند تدریس امام حماد کی وفات کے بعد سونی ہو گئی تھی اس کو ہمارے امام اعظم نے زینت بخشی۔ آپ پورے اٹھارہ سال امام حماد کی صحبت میں رہے اس طرح کل تلمذ کی مدت اٹھارہ سال بنتی ہے امام حماد کی وفات کے بعد آپ چالیس سال کے تھے آغاز شاگردی میں بائیس سال کے ہوں گے اور چالیس سال تک اخذ واستفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد باستقلال مسند تدریس پر فائز ہوئے۔
بنائے مذہب حنفی:۔
امام صاحب سے منقول ہے کہ میں کتاب اللہ سے مسئلہ لیتا ہوں اور اگر اس میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اگر قرآن سنت دونوں سے نہ ملے تو اقوال صحابہ سے اخذ کرتا ہوں اور ان کے اقوال سے باہر نہیں جاتا۔ حضرت فضیل بن عیاض،ابن مبارک،مزنی اور ابن حزم نے کہا ہے کہ امام اعظم کتاب اللہ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اقوال صحابہ اور اجماع امت سے مسئلہ اخذ کرتے اگر ان میں سے نہ ملتے تو قیاس کرتے اور ان کے قیاس دقیق ہوا کرتے اور یہی وجہ ہے کہ امام مزنی کے بھانجے علامہ طحاوی مذہب شافعی چھوڑ کر حنفی ہو گئے۔
امام صاحب نے ایک فقہی کمیٹی تشکیل دی جس میں اس وقت کے نامور اور باصلاحیت چالیس فقہاء شامل تھے، جو بھی مسئلہ درپیش ہوتا اس فقہی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتاجو اس پر مکمل بحث و تمحیص کے بعد اس کا حل نکالتے۔ اس لحاظ سے یہ شرف صرف فقہ حنفی کو حاصل ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے۔
تصانیف امام اعظم:۔
٭…الفقہ الاکبر
٭… العالم والمتعلم
٭…کتاب السیر
٭…کتاب الاوسط
٭…الفقہ الابسط
٭…کتاب علیٰ رد القدریہ،
٭… رسالۃ الامام ابی عثمان التیمی فی الارجاء
٭…کتاب الرائے
٭…کتاب اختلاف صحابہ
٭…کتاب الجامع وغیرہم
وفات:۔
بنی امیہ کے خاتمے کے بعد سفاح اور پھر منصور نے اپنی حکومت جمانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ مظالم ڈھائے جو تاریخ کے خونی اوراق میں سرفہرست ہیں اور جس میں امام اعظم کو بھی قید کیا گیا اور قید بھی آپ کی عظمت اور اثر کو کم نہ کرسکی بلکہ آپ کی عظمت اور بڑھ گئی اور لوگ جیل خانہ میں جا کر ان سے فیض حاصل کرتے۔ امام محمد آخری وقت تک آپ سے تعلیم حاصل کرتے رہے جب حضرت امام اعظم کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو خالق بے نیاز کی بارگاہ میں سجدہ کیا اور سجدہ میں ہی آپ کی روح پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بعد وصال غیبی آوازیں :۔
صدقہ مغابری سے منقول ہے کہ جب لوگ امام اعظم کو دفن کر چکے تو تین رات ندائے غیبی سنی گئی کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ
ذھب الفقیہ فلا فقہ لکم فاتقواللہ وکونوا خلفا
مات نعمان فمن الذی یحیی اللیل اذا ما سجفا
فقیہ جاتا رہا اب تمہارے لیے فقہ نہیں ہے تو اللہ سے ڈرو اور ان کے خلف بنوامام ابوحنیفہ انتقال کر گئے تو کون ہے اس رتبہ کا جو شب کو عبادت کرتا ہو جب رات تاریک ہو جائے۔
اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کااظہار کیا۔
امام ابن جریح مکہ میں تھے۔ سن کر فرمایا: ’’بہت بڑا عالم جاتا رہا‘‘
امام شعبہ نے کہا: ’’کوفہ میں اندھیرا ہوگیا‘‘
عبداللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہا: ’’افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا۔‘‘اللہ تعالی امام اعظم کو ہماری جانب سے اور پوری امت کی جانب سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہمیں صحیح معنوں میں ان کا جانشین بننے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔