ان کے غلام وقت کے امام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ان کے غلام وقت کے امام
سید وسیم الدین
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس دور میں پروان چڑھے اس وقت علم زیادہ تر موالی و اعاجم میں پایا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کائناتی حقیقت بن کر ثابت ہوئی کہ اولادِ فارس علم کی حامل ہوگی۔ امام بخاری، شیرازی اور طبرانی وغیرہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ: ’’اگر علم ثریا نامی ستارے تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کرکے رہیں گے۔‘‘
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ شاگرد جو محدثِ وقت بنے ان کے بارے میں چند اشارے اور جملے سپرد قلم کر رہا ہوں جس سے اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا مزید پتا لگایا جاسکتا ہے۔
امام یحییٰ بن سعید قطان رحمۃ اللہ علیہ:۔
فن رجال کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ فنِ رجال میں اول جس شخص نے لکھا وہ یحییٰ بن سعید القطان پھر ان کے بعد ان کے شاگردوں میں یحییٰ بن المدینی، علی بن المدینی، امام احمد بن حنبل، عمر و بن علی اور ابوخیثمہ نے اس فن میں گفتگو کی اور اْن کے بعد ان کے شاگردوں یعنی امام بخاری مسلم وغیرہ نے۔
حدیث میں ان کا یہ پایہ تھا کہ جب حلقۂ درس میں بیٹھتے تو امام احمد بن حنبل، علی ابن المدینی وغیرہ مؤدب کھڑے ہو کر ان سے حدیث کی تحقیق کرتے اور نمازِ عصر سے جو ان کے درس کا وقت تھا مغرب تک برابر کھڑے رہتے۔ راویوں کی تحقیق و تنقید میں یہ کمال پیدا کیا تھا کہ ائمہ حدیث عموماً کہا کرتے تھے کہ یحییٰ جس کو چھوڑ دیں گے ہم بھی اْس کو چھوڑ دیں گے۔ امام احمد بن حنبل کا مشہور قول ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ کا مثل نہیں دیکھا۔ اس فضل و کمال کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے حلقۂ درس میں اکثر شریک ہوتے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے۔ اس وقت تک تقلید معین کا رواج نہیں ہوا تھا تاہم اکثر مسائل میں وہ امام صاحب ہی کی تقلیدکرتے تھے۔ خود اُن کا قول ہے کہ ہم نے امام ابو حنیفہ کے اکثر اقوال اخذ کیے ہیں۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃالحفّاظ میں جہاں وکیع بن جراح کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ وکیع، امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے آپ 135ھ میں پیدا ہوئے اور 198ھ میں بمقام بصرہ وفات پائی۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ:۔
محدث نووی نے’’ تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں آپ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’وہ امام جس کی امامت و جلالت پر ہر باب میں عموماً اجماع کیا گیا ہے جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے جس کی محبت سے مغفرت کی اْمید کی جاسکتی ہے۔‘‘
حدیث میں جو آپ کا پایہ تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ محدثین اُن کو ’’ امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ ایک موقع پر ان کے شاگردوں میں سے ایک شخص نے ان سے خطاب کیا کہ اے عالم المشرق! امام سفیان ثوری جو مشہور محدث ہیں اس موقع پر موجود تھے بولے کہ ’’کیا غضب ہے عالم مشرق کہتے ہو وہ عالم المشرق والمغرب ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ عبداللہ بن مبارک کے زمانہ میں ان سے بڑھ کر کسی نے حدیث کی تحصیل میں کوشش نہیں۔
صحیح بخاری و مسلم میں ان کی روایات مروی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ فن روایت کے بڑے راویوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حدیث وفقہ میں ان کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ آپ ’’مرو‘‘ کے رہنے والے تھے 118ھ میں پیدا ہوئے اور 181ھ میں مقام ہیٔتمیں وفات پائی۔
امام یحییٰ بن زکریا ابی مائدہ رحمۃ اللہ علیہ:۔
آپ معروف محدث تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں صرف ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو حافظ الحدیث کہلاتے تھے۔ چنانچہ یحییٰ کو بھی انہی لوگوں میں داخل کیا ہے اور ان کے طبقہ میں سب سے پہلے انہی کا نام لکھا ہے۔ علی بن المدینی جو امام بخاری کے مشہور استاد ہیں ، کہا کرتے تھے کہ یحییٰ کے زمانے میں یحییٰ پر علم کا خاتمہ ہوگیا۔
صحاح ستہ میں ان کی روایت سے بہت سی حدیثیں ہیں وہ محدث و فقیہ دونوں تھے اور ان دونوں فنون میں بہت بڑا کمال رکھتے تھے۔ آپ امام ابو حنیفہ کے اجل تلامذہ میں سے تھے اور مدت تک ان کے ساتھ رہے آپ تدوین فقہ میں امام ابو حنیفہ کے معاون تھے۔ امام طحاوی نے لکھا ہے کہ وہ تیس برس تک شریک رہے۔ آپ کا وصال 183ھ میں 63 برس کی عمر میں مدائن کے مقام پر ہوا۔
امام وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ:۔
آپ فن حدیث کے امام شمار کیے جاتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو ان کی شاگردی پر فخر تھا چنانچہ جب وہ اُن کی روایت سے کوئی حدیث بیان کرتے تو اِن لفظوں سے شروع کرتے تھے:’’یہ حدیث مجھ سے اس شخص نے روایت کی کہ تیری آنکھوں نے اُن کا مثل نہ دیکھا ہوگا۔‘‘
یحییٰ بن معین جو فنِ رجال کے امام ہیں ان کا قول تھا کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کو وکیع پر ترجیح دوں۔ اکثر ائمہ حدیث نے ان کی شان میں اِس قسم کے الفاظ لکھے ہیں :’’بخاری و مسلم میں اکثر ان کی روایت سے حدیثیں مذکور ہیں۔ فنِ حدیث و رجال کے متعلق ان کی روایتیں نہایت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ آپ کا وصال 197ھ میں ہوا۔‘‘
امام داودطائی رحمۃ اللہ علیہ:۔
صوفیا آپ کو بڑا مرشد کامل مانتے ہیں۔ تذکرۃالاولیاء میں ان کے مقاماتِ عالیہ مذکور ہیں۔ فقہاء اور خصوصاً فقہائے حنفیہ ان کے تفقہ اور اجتہاد کے قائل میں۔ محارب بن دثار جو معروف محدث تھے کہا کرتے تھے کہ داوٗد اگر پچھلے زمانہ میں ہوتے تو خدا قرآن مجید میں ان کا قصہ بیان کرتا۔ آپ نے ابتداء میں فقہ و حدیث کی تحصیل کی۔ پھر علم کلام میں کمال پیدا کیا اور بحث و مناظرہ میں مشغول ہوئے۔ تاہم تحصیل علم کا مشغلہ جاری رکھا۔ امام محمد کا بیان ہے کہ میں داود سے اکثر مسئلے پوچھنے جاتا۔ اگر کوئی ضروری مسئلہ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ کہتے کہ بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں۔
آپ کا شمار امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کے مشہور شاگردوں میں ہوتا ہے۔خطیب بغدادی ، ابن خلکان علامہ ذہبی اور دیگر مؤرخین نے جہاں ان کے حالات لکھے ہیں وہاں امام ابوحنیفہ کی شاگردی کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا ہے۔ تدوین فقہ میں بھی آپ امام ابو حنیفہ کے شریک تھے اور اس مجلس کے معزز رکن بھی تھے۔آپ کا وصال 160ھ میں ہوا۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دیگر معروف شاگردوں میں قاضی امام ابو یوسف،امام محمد ،امام زفر،امام اسد بن عمر، عافیہ الازدی، قاسم بن معن، علی بن مسر، حبان، بھی خاصے مقبول و معروف ہوئے۔دین اسلام کی نشونما اور تدوین فقہ کے لیے امام اعظم ابو حنیفہ کی خدمات عالیہ اظہر من الشمس ہیں۔ آپ کے شاگردوں اور تلامذہ نے بھی اس ضمن میں چراغ سے چراغ روشن کیا ہے اور ایمان کی حرارت اور روشنی کو اجاگر کرنے میں آپ کے شاگردوں اور تلامذہ کی خدمات صدقہ جاریہ سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اِسلام کے مسلمان حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی علمی، دینی، فقہی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشرہ میں دین متین کی سرفرازی کے لیے کمر بستہ ہوجائیں تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے میں بامراد ہوسکیں۔