اہم اسلامی آداب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اہم اسلامی آداب
شیخ ابوالفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ
ادب 30:۔
مجلس کے اداب میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کا ہم مجلس آپ کو کوئی ایسی خبر سنا رہا ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ آپ کو معلوم نہیں حالانکہ آپ کو معلوم ہے تو آپ یہ کہہ کر شرمندہ مت کریں کہ مجھے تو یہ بات معلوم ہے اور نہ ہی اس کی بات میں دخل اندازی کریں جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبھی ایک نوجوان مجھے کوئی حدیث سناتا ہے تو میں اسے خوب غور سے سنتا ہوں گویا کہ میں اسے جانتا نہیں حالانکہ اس کی پیدائش سے پہلے میں اس حدیث کو سن چکا ہو تا ہوں۔
خالد بن صفوان تیمی جو خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز اور خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہم نشین تھے فرماتے ہیں جب آپ کسی محدث کو دیکھیں جو ایسی حدیث بیان کر رہا ہے جو آپ سن چکے ہوں یا ایسی خبر سنا رہا ہے جو آپ کو معلوم ہو تو آپ اس میں شریک نہ ہو ں ،یعنی حاضرین پر یہ ظاہر نہ کریں کہ آپ اسے جانتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا آپ کی خفت کا باعث اور ادب کے خلاف ہے۔
جلیل القدر امام عبد اللہ بن وہب قریشی مصری جو امام مالک اور امام لیث بن سعد اور امام ثوری وغیرہ کے صحبت یافتہ ہیں فرماتے ہیں بعض دفعہ میں کسی شخص سے ایسی حدیث سنتا ہوں جو میں نے اس وقت سے سنی ہو تی ہے جب کہ اس کے ماں باپ آپس میں ملے بھی نہ تھے یعنی اس کی ولادت وجود سے پہلے تو میں اسے اس توجہ اور غور سے سنتا ہوں جیسے میں نے پہلے اسے نہیں سنا تھا۔
حضرت ابراہیم بن جنید فرماتے ہیں ایک حکیم عقلمند نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا جیسے تم گفتگو کرنے کے آداب سیکھتے ہو ایسے ہی گفتگو سننے کے آداب بھی سیکھو اور گفتگو سننے کے آداب یہ ہیں کہ آپ گفتگو کرنے والے کو پہلی پوری بات کرنے دیں اور پوری توجہ اور یکسوئی سے اس کی بات سنیں اور اگر اس کی گفتگو میں آپ کو کچھ معلوم ہے تو آپ اس کا اظہار نہ کریں۔
اس مناسبت سے حافظ خطیب بغدادی نے اس مقام پر ایک شعر کہا ہے۔
ولا تشارک فی الحدیث اھلہ
وان عرفت فرعہ واصلہ
یعنی جو شخص گفتگو کر رہا ہے اس میں تم شریک مت ہو اگرچہ آپ کو اس کی اصل اور تفصیل معلوم ہو۔
ادب31:۔
مجلس کے اداب میں یہ بھی ہے کہ جب گفتگو کرنے والے کی گفتگو میں آپ کو کوئی اشکال ہو تو آپ اس کے اظہار کے لیے کوئی جلدی نہ کریں بلکہ صبر کریں اور متکلم کو اپنی بات پوری کرنے دیں جب وہ اپنی بات مکمل کر لے تو اب آپ نہایت ادب واحترام نرمی اور عمدہ تمہید کے ساتھ اس سے سوال کریں لیکن گفتگو کے درمیان ہرگز اس کی بات کو نہ کاٹیں کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور اس سے دلوں میں ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ،ہاں اگر مجلس تعلیم تدریس کی ہے تو اس کی شان دوسری ہے لیکن اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ جب استاد جملہ پورا کر لے یا کسی معنی اور مسئلہ کی شرح پوری کر لے تب سوال کریں اور اس میں بھی علمی مناقشہ میں ادب اور سمجھداری ملحوظ رہنی چاہیے خلیفہ مامون الرشید کا قول ہے
’’العلم علی المناقشہ ،اثبت منہ علی المتابعۃ‘‘
یعنی وہ علم جو مناقشہ کے بعد حاصل ہو تا ہے وہ زیا دہ پائیدار ہو تا ہے اس علم سے جو صرف سننے سے حاصل ہو تا ہے۔
مشہور عالم ادیب مورخ خلیفہ ابو جعفر منصور ،مہدی ،ہادی اور رشید کے ہم مجلس ہیثم بن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’حکماء کا قول ہے برے اخلاق میں سے یہ بھی ہے کہ دوسرے کی گفتگو میں اپنی گفتگو چھیڑ دینا اور دوسرے کی بات کا ٹتے ہوئے دوران گفتگو اعتراض کرنا۔ ‘‘
ادب 32:۔
مجلس کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے ہم مجلس سے سوال پوچھا جائے تو آپ جواب دینے میں پہل نہ کریں بلکہ جن سے پوچھا گیا ہے ان کو جواب دینے کا موقع دیں اور جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے آپ خاموش رہیں اس سے آپ کا ادب ،آپ کی شخصیت اور آپ کا مقام بلند ہو گا۔ جلیل القدر تابعی مجاہد بن جبر نے فرمایا کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’خبردار! اگر کسی سے پوچھا جا ئے تو تم اس طرح جواب دینے لگو گے کہ جیسے تمہیں مال غنیمت یا کوئی تحفہ مل گیا۔پس اگر تم نے ایسا کیا ،یعنی جواب دیا توتم نے جواب دینے والے کی تحقیر کی اور سائل کو بوجھل کیا اور بے وقوفوں کی اپنی بے وقوفی اور بے ادبی پر مطلع کیا۔ ‘‘
مشہور محدث فقیہ حنبلی ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں امام ابو عمر زاھدحافظ علامہ لغوی محمد بن عبد الوحد بغدادی (جو ثعلب کے لقب سے مشہور ہیں )کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان سے ایک مسئلہ پو چھا گیا تو میں نے جلدی کی اور سائل کو جواب دے دیا تو ابو عمر زاھد میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندہ کر دیا کیا تم چھپی ہو ئی فضولیات کو جانتے ہو یعنی تم فضولی ہو؟
ادب33:۔
ایک مختصر سی نصیحت اپنی پیاری مسلمان بہن کو کرنا چاہتا ہوں جب آپ اپنے گھر والوں سے یا بعض سہیلوں سے ملاقات کا ارادہ کریں تو اس کے لیے مناسب دن اور مناسب وقت کا خیال رکھیں۔ ابتدا اور انتہا دونوں اعتبار سے کیونکہ بعض اوقات ایسے ہو تے ہیں جن میں ملاقات اچھی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں ملاقات مناسب نہیں ہوتی۔ چاہے وہ رشتہ داریا دوست ہی کیوں نہ ہو ں۔
ملاقات میں آپ کی حالت ایک عمدہ پسندیدہ سائے کی ہونی چاہیے جس سے نہ دوسرے پر بوجھ پڑے اور نہ وہ تنگ ہوں نہ فضول باتیں ہوں اور نہ لمبی رام کہانیاں ہو ں بلکہ یہ ملاقات صلہ رحمی کے لیے ہو اور دوستی اور رشتہ داری کی تازگی کے لئے ہو۔
ملاقات جب مختصر اور محبت بھری ہو تو وہ پسندیدہ شمار ہو تی ہے اور جب طویل اور تنگ کرنے والی ہو تو بھاری سمجھی جاتی ہے جس میں گپ بازی ہو تی ہے اور اچھی باتوں کے علاوہ بے کار گفتگو تک بات جا پہنچتی ہے۔ جلیل القدر تابعی حضرت محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب مجلس لمبی ہو جائے تو شیطان کا اس میں حصہ ہو تا ہے۔
آپ کی گفتگو ملاقات کے وقت ساری کی ساری یا زیادہ تر ایسی ہو نی چاہیے جس میں فائدہ اور نفع ہو اور وہ غیبت ،چغلی،اور بے ہودگی سے دور ہو اور ایک مسلمان عقلمند خاتون کا خیال کرتے ہوئے ملاقات اور گفتگو کرے۔
ادب 34:۔
جب آپ ایسی جگہ جائیں جہاں کچھ لوگ سوئے ہوئے ہوں دن ہو یا رات۔ تو ان کا خیال کیجئے اور اپنی حرکت اور آواز میں نرمی اختیار کریں اور اس جگہ میں داخل ہونے یا نکلنے کے وقت ایسا شور نہ مچائیں جس سے ان پر گراں گزرے بلکہ نہایت نرمی اور لطف کا مظاہرہ کریں کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تو سن چکے ہیں :’’من یحرم الرفق یحرم الخیر کلہ‘‘یعنی جو نرمی سے محروم ہوا وہ ہر ایک خیر کے کام سے محروم ہوا۔
جلیل القدر صحابی مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کے حصے کا دودھ رکھ دیتے تھے جب آپ رات کو تشریف لاتے تو اتنی آوز سے سلام فرماتے کہ جاگنے والا سن لیتا اور سوتا ہوا نہ جاگتا۔
(مسلم ،ترمذی]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو ایسی آواز سے قرآن پڑھتے کہ جاگنے والا لطف اندوز ہو تا اور سونے والا نہ جاگتا۔