غم جاناں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
غم جاناں
قدرت اللہ شہاب
شاعر: کیا لکھ رہے ہو؟
افسانہ نگار: خاک
شاعر: بڑا دلچسپ موضوع ہے میں بھی کوشش کر رہا ہوں کہ اس زمین میں کچھ فکر سخن کروں۔
مصور: اپنا بھی یہی ارادہ ہے جب تک خا ک کا تصور نہ کیا جائے طبیعت کسی رنگ پرجمنے ہی
نہیں پاتی۔
شاعر: آئو مل کرخاک کی باتیں کریں۔
یا خس وخاشاک کی باتیں کریں
افسانہ نگار: تسلیمات!صاحبو آپ دونوں گدھے ہیں۔
شاعر: واللہ!خوب یاد دلایا۔ ابھی کل میں نے ’’نوائے خر‘‘ کے نام سے ایک شاندار نظم کہی
مصور: میراگلا شاہکار بھی اسی حسین وجمیل چوپائے پر ہو گا ، کیوب ازم کے نظریات کے
مطابق جو فنی صلاحتیں گدھے میں پائی جاتی ہیں وہ کسی دوسرے جاندار میں نہیں ہیں۔
افسانہ نگار: میرا خیال ہے کہ گدھے کے بعد آپ حضرات بندر پر طبع آزمائی فرمائیں گے۔
مصور: بے شک !سر ریلزم میں آرٹ کا کمال یہ ہے کہ ہر سکیچ کو اس کی مرکزی حقیقت کے
قریب ترین لایا جائے حضرت انسان کی مرکزی اصلیت کے نزدیک پہنچ کر بہت
واضح ہوجاتی ہے۔
شاعر:
سرسوں کے ہرے کھیت میں اٹھائے بندریا
بیلوں کو جتے دیکھ کر اترائے بندریا
مسکائے بندریا ، شرمائے بندریا
مصور: میں تو یہی رائے دوں گا کہ آپ اپنے فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی افسانوں میں
بندر کو اس کا مناسب منصب ضرور دیجئے۔
افسانہ نگار: نہ صاحب ! مجھے بخشئے میں ابھی اللہ کی نعمتوں سے اس درجہ محروم نہیں ہوا کہ بندرکی
طرف رجوع کروں۔
مصور: خیرآپ کی مرضی ! صحیح رائے دینا میرا فرض تھا۔ اگر آپ کو بندروں سے دلچسپی نہیں ، تو
مینڈک اور مرغ بھی بڑے شاداب موضوع ہیں۔
شاعر: مرغ پر اس خاکسار نے ایک مسدس کہا تھا۔ ٹیپ کا بند ملاحظہ فرمائیے۔
صبح دم خواب سے دنیا کو جگائیں تو ہم
نیند کے ماروں کو تکبیر سنائیں تو ہم
تیرے گھر بار کی رونق کو بڑھائیں تو ہم
تیرے دالان کو بِیٹوں سے سجائیں تو ہم
پھر بھی اٹھتے ہی چھری ہم پہ چلائی تو نے
حیف یہ رسم وفا خوب نبھائی تو نے
افسانہ نگار: صاحبو ! یہ بندر،گدھے ، مینڈک اور مرغ آپ کو مبارک ہوں مجھے ان حسین و جمیل
موضوعات سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
شاعر: غالبا آپ نے داستان طرازی کامشغلہ ترک کردیا ہے؟
افسانہ نگار: جی نہیں ! میں خدا کے فضل سے اب تک افسانے لکھتا ہوں اور خوب لکھتا ہوں۔
مصور: آگر آپ کو زندگی کے ان ٹھوس حقائق سے دلچسپی نہیں تو شاید آپ ’’الف لیلیٰ‘‘ کے
شہزادوں ، جنوں کے بادشاہ اور کوہ قاف کی پریوں کی کہانیاں لکھنے کے شوقین ہوں گے۔
افسانہ نگار: جی نہیں ! خدا میری جمیلہ کو سلامت رکھے اس کے ہوتے ہوئے مجھے جنوں کے بادشاہ
یا کوہ قاف کی پریوں کا سہارا لینے کی مطلقا حاجت نہیں۔
شاعر: ہائے کیانام لے لیاظالم نے!
مصور: زندگی کے خوابیدہ تار جھنجھوڑ ڈالے اس نام نے۔
شاعر: ہائے کیا بات ہے جمیلہ۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کی رنگ برنگ چوڑیوں کی کھنک سے
شعریت کے طوفان ابلتے تھے۔
مصور: اس کے جسم کی اقلیدسی خطوط اوران کی گھنیری بھوئوں کی سیاہ جھالریں میرے
شاہکاروں کی معراج تھیں۔
شاعر: اس کی لانبی لابنی کمر تک بل کھاتی ہوئی زلف کا تصور میری شاعری کی جان تھا۔
مصور: میں نے ان کی آنکھوں میں کاجل کی تحریر ابھارنے کی خاطر اپنے فن کو کمال تک پہنچا دیا
شاعر: لیکن ہائے ! جب جمیلہ نے اپنی زلف دوتاکٹا کر بوبد ہئیر رکھ لیے ہیں میری شاعری
مر گئی ہے۔
مصور: اب وہ اپنی جھالر دار بھویں استرے سے مونڈکر ان کی جگہ سرمے کی تنی ہوئی لکیر کھنچتی
ہے میرے شاعر میرا فن برباد ہوگیا۔
شاعر: میرے پیارے افسانہ نویس ! تم اس لنڈ منڈ جمیلہ پر جتنی کہانیاں چاہو لکھتے رہو اب اس
میں میرے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔
افسانہ نگار: تم دونوں بڑے کورذوق عاشق ہو، جس نکتے پر آ کر تمہارا فن مرگیا ہے وہاں سے
میرے آرٹ کی ابتداء ہوتی ہے اگر تم کو جمیلہ کی رعنائیوں کو ایک نظر دیکھنا ہے تو آئو
میرے ساتھ چلو ! میں تمہیں طلسم ہوشربا کے نظارے دکھائوں گا۔
شاعر: کہاں چلوگے؟
افسانہ نگار: بوٹ کلب۔
مصور: نہیں مجھے وہاں جاکر ابکائیاں آتی ہیں ، میں نے کئی مہینے وہاں کی خا ک چھانی ہے اور
جب کبھی وہاں جاتا ہوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ قصاب کی دکان پر لٹکی ہوئی گوشت کی
ننگی رانوں کی تصویرکشی کروں۔
افسانہ نگار: اگر تمہیں کچے گوشت سے اس قدر نفرت ہے تو کوئی بات نہیں ، میں تمہیں میٹرو پول
کی رقص گاہ میں لے چلوں گا۔ وہاں جمیلہ کے لچکیلے بدن کو رنگیں غباروں کی طرح
رقصاں دیکھ کر تمہارا دل شاداور روح منور ہو جائے گی۔
شاعر: میرے دوست خداکے لیے مجھے وہاں کی یاد نہ دلائو ! وجدان کی تلاش میں وہاں کئی کئی
راتیں جاگا ہوں لیکن ہر بار وہاں جا کرمیری شاعری کا جوہر خاک ہو جاتا ہے جب
میں جمیلہ کو ہنسی خوشی ہر دوست اور ہر دشمن کے ساتھ باری باری دوش بدوش بازو بہ بازو
سینہ بہ سینہ رقص کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میری شاعری میں رقیب روسیاہ کا لطیف
تخیل فنا ہوجاتا ہے۔
مصور: اب وہ میرے اسٹوڈیومیں ماڈل بننے بھی نہیں آتی بلکہ فوٹوگرافروں کے پیچھے پیچھے
بھاگتی ہے تاکہ اس کی تصویریں اخباروں کے پچھلے صفحات پر شائع ہوں۔
شاعر: اس کے فلیٹ میں بجلی کی گھنٹی لگی ہوئی ہے اور مجھے بھی دربان کی جھڑکیاں سہنے اور اس کی
منت سماجت کرنے کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔
مصور: میرے نزدیک جمیلہ کا وجود نیست ونابود ہوچکا ہے اور میں اس کی یاد میں اپنے آرٹ کو
نئی نئی شاہراہوں پر چلا رہا ہوں۔ جب مجھے جمیلہ کی خوبصورت اور سڈول ٹانگوں
کاخیال آتا ہے تو رنگوں کی آمیزش سے چونے اور سیمنٹ کے مضبوط ستون بناتا ہوں
جب مجھے اس کے حسین چہرے کی یاد ستاتی ہے تو میں ایکسرے کے فوٹو کی طرح
ہڈیوں کے ڈھانچے کی تخلیق کرتاہوں۔
افسانہ نگار:صاحبو ! مجھے تم دونوں کی حالت پر رحم آتا ہے میرے ساتھ آئو میں تمہیں جمیلہ کی ایک
بالکل نئی اور اچھوتی جھلک دکھائوں گا۔
شاعر: میں خوب جانتا ہوں کہ اب تم ہمیں کسی ریفیوجی کالونی چلنے کی دعوت دوگے۔
مصور: میں وہاں ہرگز نہ جائوں گا ! میرے ڈبوں کے سارے رنگ ختم ہوگئے ہیں لیکن
ہندوستان سے آنے والے ریفیوجیوں کی تعداد میں کمی نہیں ہونے پاتی۔ میرا آرٹ
اس رفتار کا ساتھ دینے سے بالکل قاصرہے میں اپنی شکست تسلیم کرتا ہوں۔
شاعر: میں نے بھی اس کوچے کی ہیرا پھیری کی ہے اور کئی بار اسی تانک جھانک میں پٹا بھی
ہوں۔ ناصاحب! اب وہاں جانے سے میری توبہ بھی بھلی۔
افسانہ نگار: تم بڑے بزدل انسان ہو۔ میری طرف دیکھو! کتنی بار میں نے خود جوتے کھائے ہیں
لیکن میں ابھی تک رفیوجیوں پر افسانے لکھنے سے باز نہیں آیا۔
شاعر: تمہارا کیاہے!!! تم تو بے حیا ہو! ہر روز جوتے کھاتے اور پھر کپڑے جھاڑ کرافسانہ لکھنے بیٹھ جاتے ہو لیکن شاعر کا دل بڑا نازک ہوتا ہے میرے یار ذرا سی ٹھیس لگنے سے یہ آبگینہ ٹوٹ جاتا ہے تم شوق سے جاکرجوتے کھائو اور افسانے لکھو میں یہاں بیٹھ کر اونٹ گاڑی پر اپنی نظم مکمل کروں گا اور میرا دوست مصور لنگورکی لہراتی ہوئی بانکی زلف دوتا۔۔توبہ معاف کیجئے گا۔ لنگورکی لہراتی ہوئی بانکی دم کی نقاشی کرے گا۔ آہا ہا سبحان اللہ کیا غضب کے شعر ہیں عرض کیاہے
اونٹ پھر آیا دلِ راز ! نہیں اونٹ نہیں
یہ تو گاڑی ہے کہیں اور چلی جائے گی!
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا پائوڈر کا غبار
پھڑپھڑانے لگے شانوں پہ تراشیدہ بال