ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
سلطان احمد مرزا کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی محمود مرزا نے جو کہ حصار بدخشاں اور قندز کا حاکم تھا سمر قند کا ایک اقتدار بھی سنبھال لیا قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ شکست تیمور کے واحد وارث امیر تیمور کے پوتے ابو سعید مرزا کی طاقت سے خائف ہو کر مغلستان کے خاقان اعظم یونس خان نے اپنی تین بیٹیاں اس کے تینوں بیٹوں احمد مرزا ، محمود مرزا، اور عمر شیخ مرزا کے عقد میں دے دی تھیں۔ سلطان ابو سعید مرزا کے قتل کے بعد سلطنت تیموریہ تین حصوں میں منقسم ہو گئی: سمرقند اوربخارا؛ احمد مرزا۔ حصار، بدخشاں اور قندز محمود مرزاجبکہ وادی فرغانہ عمر شیخ مرزا کے حصے میں آئی۔ وادی فرغانہ پر احمد مرزا اور محمود مرزا نے عمر شیخ کا حق طوہاً وکرہاً قبول تو کر لیا مگر خاقان اعظم سے مل کر آئے دن وہ اس کی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ تینوں اشخاص یعنی احمد مرزا محمود مرزا اور خاقان اعظم اندرونی طور پر فردا فردا وادی جنت نظیر پر اپنا قبضہ چاہتے تھے۔ اگرچہ بظاہر تینوں اشخاص ایک دوسرے کے حامی وناصر بنے ہوئے تھے مگر باطن میں ان کی الگ الگ ترجیحات تھیں۔ یعنی ہر شخص بلا شرکت غیر وادی فرغانہ پر دندان آز تیز کئے ہوئے تھا۔ سلطان احمداور عمر شیخ مرزا ملک عدم کو سدھار چکے تھے۔ محمود مرزا سمرقند پہ تو قابض ہو چکا تھا اب اس کی نظریں وادی فرغانہ پر لگی ہو ئی تھیں۔ ننھا سا بابر ان کی نظروں میں نہیں سما رہا تھا۔ سلطان احمد مرزا کی طرح اس نے بھی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں ادھر باہر بزعم خویش سمر قند کو اپنے زیر نگیں لا نا چاہتا تھا یعنی اس مصرعے کا مصداق کہ۔
دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہو ئی
سلطان مرزا محمود کو پورا پورا ادراک ہو چکا تھا کہ غیبی طاقتیں بابر کی پشت پناہی کر رہی تھیں۔ انہی طاقتوں کے بل بوتے سلطان احمد مرزا اور خاقان اعظم محمود خان کو منہ کی کھانا پڑی۔ بنا بریں اس نے بابر کی طاقت کو زیر کرنے کی بجائے محلاتی سازشیوں کے ذریعے مات دینے کی منصوبہ بندی کی وہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہتا تھا سب سے پہلے اس نے سمر قند پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے اپنے بیٹے مسعود مرزا کی شادی سلطان احمد مرزا مرحوم کی بیٹی سے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگر چہ یہ شادی ایک معمول کی بات تھی مگر سلطان مرزا محمود نے اس شادی کے پس پردہ ایک بہت بڑی سازش تیار کر رکھی تھی۔ سلطان محمود مرزا کو اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مضبوط مہرے کی ضرورت تھی جو اسے حسن یعقوب کی صورت میں میسر آگیا تھا۔ نانی اماں نے سچ ہی تو کہا تھا کہ بابر نے حسن یعقوب کو وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔ حسن یعقوب ایک نہایت ہی سازشی اور لالچی انسان تھا وہ اپنی مطلب برابری کے لیے بابر کو داؤ پہ لگا سکتا تھا۔ اس نے بابر کی نگاہوں میں اپنا مقام ومرتبہ بلند کر نے کے لیے گزشتہ جنگ میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا جس پر بابر نے خوش ہو کر اسے وزارت عظمیٰ کے منصب کے علاوہ اندزحاں کے انتظامی امور کا بھی سر براہ بنا دیا تھا ناپختہ ذہین بابر کی یہ بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔
بابر نے اگرچہ نانی اماں کی نصیحتوں پر کان نہ دھرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر نانی اماں ابھی تک بابر کی ذہنی تربیت اور اس کی رہنمائی سے دستبردار نہیں ہوئیں تھیں وہ نہایت کائیاں عورت تھیں خاقان اعظم یونس خان کی زوجیت میں رہ کر اس نے امور جہانگیری اور جہانداری میں خوب دسترس حاصل کر لی تھی۔ وہ بادشاہوں کے ساتھ رچائی جانے والی محلاتی سازشوں کا پورا پورا ادراک رکھتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ بابر ابھی کمسن ہے اسے اس کی رہنمائی اور تحفظ کی بے انتہا ضرورت ہے خدا نہ کرے اگر اس کا ایک بھی پاؤں غلط پڑگیا تو پھر اس کے سر پر منڈلانے والے بڑے بڑے خونخوار گدھ اس کا ماس نوچ کھائیں گے اور یہ بات اسے منظور نہیں تھی۔ بنا بریں اس نے اپنی آنکھیں ہر وقت کھلیں رکھیں ہوئی تھیں وہ اس بات سے بھی خوب واقف تھی کہ محلاتی سازشیں کس طرح پروان چڑھتی ہیں۔ حسن یعقوب اس کی نگاہوں میں خار سا کھٹکتا تھا اس نے اپنے معتمد؛ جاسوس سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا رکھے تھے جواس کی ایک ایک پل کی حرکات کی خبر نانی اماں تک پہنچاتے تھے۔
ادھر سلطان محمود بھی دور کی کوڑی لایا اوراس نے اپنے مصاحبین میں سے ایک صاحب ڈھونڈ نکالا جو حسن یعقوب کا قریبی رشتہ دار بھی تھا اور اس سے بڑی قربت بھی رکھتا تھا اس کا نام عبد القدوس بیگ تھا سلطان احمد مرزا جانتا تھا کہ عبد القدوس بیگ حسن یعقوب کو شیشے میں اتارتا اس سے مزید مراسم استوار کرے اور اسے اپنے ڈھب پہ آکر وادی فرغانہ پر اس کے قبضہ کے رستہ ہموار کرے
حسن اتفاق دیکھئے کہ حسن یعقوب پکے ہوئے پھل کی طرح سلطان مرزا محمود کی جھولی میں گرنے کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ بابر کے چھوٹے بھائی جہانگیر مرزا کو آتشی کے اہم قلعے پر حکمران بنانا اسی نامراد سازشی ذہن کی اختراع تھی۔ وہ ابھی تک بابر کی تاج پوشی والے دن کی خفت نہیں بھولا تھا وہ بابر کی نگاہوں میں بہت اچھا بن کر اپنے دیرینہ مقاصد پورے کر نا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا اس کے ذہن میں سازشوں لا وا پک رہا تھا۔ اس نے حسن تدبیر سے جہاں جہانگیر مرزا کو آتشی کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا تھا اس نے وہاں اپنے تیئں اندزحان کے انتظامی امور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا وادی فرغانہ کے اقتدار پر آہستہ آہستہ اس کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی وہ موقع محل دیکھ کر بابر پر بھر پور وار کرنا چاہتا تھا۔ نانی اماں اس خبیث النفس انسان کی خباثتوں سے خوب واقف تھی جب کہ وہ خود کو بزعم خویش سمجھدار سمجھنے والا بابر بھی غنچہ کھا گیا تھا۔
جس وقت سلطان محمود مرزا سمر قند میں بیٹھ کر بابر کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُن رہا تھا عین اس وقت حسن یعقوب بھی اپنی سازش کے ڈانڈے اس سے ملانے کے لیے بے تاب ہوا جا رہا تھا اس سے پہلے کہ سلطان محمود مرزا اپنے معتمد خاص عبد القدوس بیگ کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اندازحان بھیجتا اسے حسن یعقوب کی طرف سے ایک خط موصول ہوا اس کا مفہوم کچھ یوں تھا۔
’’سلطان مرزا کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام اختلاف بالا ئے طاق رکھ کر اپنے یتیم بھتیجے بابر کو اپنی پناہ میں لے لے اور فرغانہ کا نظم ونسق اپنے ہاتھوں میں لے کر اہل فرغانہ کو بیرونی دشمنوں سے تحفظ فراہم کرے میں بھی حسب توفیق اس کے اس نیک کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار ہوں انہیں اس نیک کام میں زیادہ دیر نہیں کر نی چاہیے شہزادہ جہانگیر مرزا بھی میرا ہمنوا ہے وہ آتشی کے قلعہ میں اپنے شفیق چچا کا انتظا ر کر رہا ہے۔ ‘‘
سلطان محمود کے نام حسن یعقوب کا یہ خط واضح اس بات کا اشارہ تھا کہ اسے فرغانہ پر حملہ آور ہو نے کے لیے زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد وادی فرغانہ اس کی جھولی میں ہو گی بابر میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ سلطان مرزا کے سامنے تاب ومقاومت لا سکے اس پر مستزاد یہ کہ حسن یعقوب بذات خود بھی اور شہزادہ جہانگیر مرزا بھی اس کی معاونت پر کمر بستہ ہیں سلطان محمود مرزا پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھا تھا کہ حسن یعقوب کے خط نے اس پر جلتی کاکام کیا اب عبد القدوس بیگ کی اندزحان کی طرف روانگی لازم قرار پائی تھی کیونکہ عبد القدوس بیگ کو وہاں اپنے حصہ کاکام مکمل کر نا تھا۔ بنا بریں سلطان محمود مرزا نے اپنے شاہی ایلچی کو بیش بہاتحائف کے ساتھ اندازحان روانہ کیا۔
عبد القدوس بیگ کی انداز حان کی طرف روانگی کے لیے بہانہ یہ تراشا گیا کہ تیمور خاندان کے رسم و رواج کے مطابق شاہی ایلچی فرغانہ کے سلطان کو مسعود مرزا کی شادی خانہ آبادی میں شرکت کی دعوت دے۔ کیونکہ مسعود مرزا کے ساتھ شاہ فرغانہ کا دوسرا رشتہ تھا وہ سلطان محمود مرزا کی طرف سے اس کا چچازاد بھائی تھا وہاں وہ اس کا خالہ زاد بھی تھا۔ تیموری خاندان میں عہد قدیم سے ایک رسم چلی آرہی تھی وہ یہ کہ جب شاہی خاندان کی طرف سے شادی کے دعوت نامے جاری کئے جاتے تھے تو دعوت ناموں کے ساتھ تحفے میں سونے کے ساتھ تیار کر دہ پستے اوربادام کی ایک معقول مقدار بھی بھیجی جاتی اسی رسم کے پیش نظر بابر کی طرف بھیجے جانے والے دعوت نامے کے ساتھ سونے سے بطور خاص تیار کردہ پستے اور بادام کی ایک کثیر مقدار بھی بھیجی گئی۔ دراصل سلطان محمود مرزا بابر کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ اس کی نگاہوں میں بابر کی کتنی قدرومنزلت ہے۔
سلطان محمود مرزا نے عبد القدوس کو یہ ہدایت کی کہ وہ اندزحان میں رہنے کے لئے حسن یعقوب کے گھر کا انتخاب کرے کیونکہ وہ اس کا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس طرح اہل اندز حان اس کے حسن یعقوب کے ہاں رہنے پر معترض نہیں ہوں گے اور نہ ہی ان کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہو گا۔ اس طرح وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے سازشی منصوبے کے تاروپود سلجھا اور سنوار سکے گا
عبدا لقدوس بیگ اپنے آقا کی ہدایت کے مطابق اندزحان میں داخل ہوا تو وہ سیدھا حسن یعقوب کے گھر پہنچا۔ دوسرے دن حسن یعقوب کی معیت میں دربار بابری میں حاضر ہوکر سلطان محمود مرزا کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ اور متعلقہ تحائف اس کے حضور پیش کیے۔ اپنے چچا کی طرف سے غیر متوقع طور پر شادی میں شرکت کا دعوت نامہ اور تحائف پاکر بابر کو یک گونہ مسرت حاصل ہوئی اسے اس بات کی خوشی ہوئی تھی کہ اس کے چچا نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ (جاری ہے ]