ماں ہوتو ایسی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماں ہوتو ایسی
جویریہ قیصر 'جھنگ
مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ سیدہ خیر النساء بہتر صاحبہ رحمہااللہ
جن کو بچپن ہی میں مذہب سے خوب لگاؤ تھا اپنے بڑے بھائی سیدعبیداللہ بن سید عبدالحئی سے قرآن کریم حفظ کیا اور پھر رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن سنانے کا مشغلہ رہا اور آپ قرآن کریم بڑے لطف لے لے کر پڑھا کرتی تھیں جنہوں نے بچپن ہی میں فارسی اردو لکھنا پڑھنا سیکھی اور بچپن ہی میں مالابد منہ ،راہ نجات از شاہ رفیع الدین اور ان کا ترجمہ پڑھ لیا۔ تعبیر الرؤیا اور مجربات دیربی کا مطالعہ کر لیا آپ کی تربیت انتہائی صوفی منش ماحول میں ہوئی۔
سیدہ کی شادی مولانا عبد الحئی (ناظم ندوۃالعلمائ) سے ہوئی جبکہ آپ کا رشتہ آپ کے چچا کے گھر میں ہو نا تھا لیکن خیر النساء نے مفلس مولوی سے نکاح کو محض اس کی دینداری اور تقوی کی بناء پر ترجیح دی تو خدائے ذوالجلال والاکرام نے اپنے انعامات کی بارش فرما دی۔
خیر النساء کی فراست اور صبر: شادی کے ابتدائی ایام بڑے تنگی میں گزرے ان کی والدہ گھر سے کچھ نہ کچھ بھیج دیتی جو کہ خود دار اور صابرہ خاتون خیر النساء کو کچھ خلاف وضع لگنے لگا اگر کوئی کھر سے آپ کو ملنے آتا تو ہانڈی چوہلے پر چڑھا کر اس میں پانی ڈال دیتیں تو آنے والے کو یہ محسوس ہو تا کہ گھر میں ہانڈی پک رہی ہے۔
خوشحالی کا دور:۔
مولا نا عبد الحی رحمہ اللہ اچھے حکیم بھی تھے خیر النساء نے مطب کھولنے کا مشورہ دیا چنانچہ مطب کھول دیا گیا اور اللہ نے اس میں ایسی برکت رکھی کہ مہمانوں کے لیے دسترخوان بچھ گیا سیدہ خودلکھتی ہیں کہ یہ گھر میرے لیے جنت اور یہ خدمت میرے لیے رحمت تھی گویا کہ میں سایہ رحمت میں آ گئی نہ کوئی فکر نہ کوئی غم ہر گھڑی شکر میں گزارنے لگی۔
کس زباں سے کروں میں شکر ادا
ترے انعام و لطف بے حد کا
تو نے مجھ کو کیا بنی آدم
اشرف الخلق اکرام العالم
تعلق بیعت:۔
یوں تو سیدہ اپنی زندگی کے ماہ سال تقوی ، دینداری کی بہاروں میں گزارتی تھیں کیونکہ جب آنکھ کھولی تو گھر میں تقوی کی ریل پیل دیکھی زندگی بھر صبر اور شکر کا نمونہ بنی رہیں اور بیعت کا تعلق بانی جماعت دعوت تبلیغ حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ سے ان کی وفات تک رہا آپ کے بعد محترمہ کا تعلق حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئیں۔
زہد عبادت خشیت الٰہی:۔
مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت سے اپنی والد ماجدہ کو تہجد کا پابند پایا۔ تہجد میں خوف خدا سے اس قدر روتیں کہ آنسوؤں سے جائے نماز تر ہو جاتی ،کبھی بھی اپنے لیے یا اولاد کے لیے دنیا کی خواہش نہ کی ،نہ دعا کی، صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت ،دینی خوبیاں ملنے اور دین کی خدمت کی توفیق کے بارے میں دعا کرتیں۔ تہجد کے بعد فرض نماز تک لا الہ الااللہ کا ذکر کرتیں کبھی آندھی ،سخت بارش اور بادلوں کی گھن گرج دیکھتیں تو گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتی اور کونے میں جا کر دعاؤں میں مشغول ہو جاتیں کیونکہ سنت نبوی سے یہی منقول ہے آپ سنت کا خوب اہتمام فرماتیں۔ جمعہ کے دن ’’سورۃ کہف ‘‘پڑھنے کا معمول تھا۔
سیدہ النساء بہتر صاحبہ اپنی تحریرات اور مناجات کی روشنی میں ایک بہترین واعظہ اور ہندی عورتوں کی بہترین تربیت کرنے والی بن کے ابھریں ، انہوں نے اپنی کتابوں میں عورتوں کو تعمیر معاشرہ، تشکیل خاندان اور ادب وآداب کے بارے میں رہنمائی کی۔ اپنی ایک کتاب میں عورت کے مصنف ہو نے پر یوں لکھتی ہیں :’’ خاتون جب قلم اٹھاتی ہے تو اس طرح نقش قائم کرتی ہے اور اجتماع وعلم النفس کی حقیقتوں اور معاشرے کی تصویروں کو سادہ رواں جملوں میں اس طرح پیش کرتی ہے کہ وہ زندہ اور متحرک معلوم ہونے لگتی ہیں انہوں نے خواتین کو علم حاصل کرنے کی رغبت دلائی اور تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ اسی طرح بچیوں کو روک ٹوک نہ کرنے کے نقصانات اور ان کی ہر خواہش پوری کرنے اور نصیحت نہ کرنے اور زمانے کے نشیب وفراز سے عدم آگاہی کو خواتین کی نوجوان نسل کی تباہی کاذمہ دار قرار دیا۔ اسی طرح ازدواجی زندگی کے اہم پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں شوہر اور دیگر سسرال والوں کے ساتھ سلوک اور برتاؤ کے بارے میں دوٹوک واضح الفاظ میں ہدایات دیں۔
دنیا سے بے رغبتی:۔
دنیا کی بے ثباتی ،دنیا کی حقارت اور دنیا سے بے تعلقی اور اس کو کمتر اور حقیر وذلیل سمجھنا ان کا ایسا حال تھا کہ جس میں تصنع کا بالکل دخل ہی نہ تھا۔ دوسری طرف دنیا برتنے کا وہ سلیقہ اور دنیاوی معاملات میں ایسی دقیق اندازی تربیت اور معاشرے کے شعبے میں ایسی باریک بینی اورامور خانہ میں ایسی ذہانت اگر کوئی ان پہلوؤں کو دیکھے تو سوچے کہ ایسا آدمی دعا،مناجات اور عبادت و تلاوت کے لیے وقت اور دماغ کہاں سے لاتا ہے؟
دنیا سے بزبان شعری خطاب:۔
گھبرا نہ ہم سے دنیا تجھ میں نہ ہم رہیں گے
اپنا وطن عدم ہے جا کر وہی بسیں گے
شیوا تیرا دغا ہے،شیوا تیرا جفا ہے
تو سخت بے وفا ہے، ہم صاف ہی کہیں گے
آتا ہے جو یہاں وہ رہتا ہے تجھ سے نالاں
اک روز ہم بھی تجھ سے منہ پھیر کر چلیں گے
تو ہم سے گر خفا ہو پروا نہیں ہے ہم کو
مالک ہو ہم سے راضی جس کے یہاں رہیں گے
بھیجا تھا اس نے ہم کو تیرے یہاں یہ کہہ کر
جب ظلم ہو گا تجھ پر انصاف ہم کریں گے
انصاف کیا ہو بہترؔ یہ ظلم کی ہے بانی
جو کچھ ستم کرے گی سب کچھ ہم وہ سہیں گے
خدا پر بھروسہ اور یقین:۔
خیر النساء کو اللہ پر کتنا تعجب انگیزبھروسہ تھا اس کا اندازہ ان کے ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے
جو مانگا ہے جو مانگیں گے خدا سے ہم وہی لیں گے
مچل جائیں گے روئیں گے کہیں گے ہم بھی یہی لیں گے
نہیں گو ہم کسی قابل مگرتیری عنایت ہے
جو تیری شان کے لائق ہے ہم تجھ سے وہی لیں گے
کیا تو نے طلب ہم کو اٹھیں گے ہم نہ اس در سے
نہ جائیں گے نہ جائیں گے ابھی لیں گے وہی لیں گے
ارے بہترؔ نہ گھبرا جو مانگے گی وہ پائے گی
کہے گی جب تو یہ رو کر ہم اس دم یہی لیں گے
ارض حجاز سے واپسی پر دعا:۔
اے خدا پھر اسی دربار میں لانا مجھ کو
اپنے دربار کا سائل ہی بنانا مجھ کو
پھر تیرے خانہ کعبہ کا کروں آکے طواف
پھر مزے لطف ومحبت کے چکھانا مجھ کو
روضہ پاک پہ کروں ہر دم جا کے سلام
اور ملے ارض مقدس میں ٹھکانا مجھ کو
زندگی میرے خدایا ترے در پہ گزرے
ساتھ ایماں کے دنیا سے اٹھانا مجھ کو
ہند میں رہ کر نہیں خدایا راحت مجھ کو
اب طیبہ ہی میں مل جائے ٹھکانا مجھ کو
قلب ہے میرا ضعیف اور سفر ہے مشکل
تو اگر چاہے تو مشکل نہیں آنا مجھ کو
سیدہ خیر النساء کے آخری لمحات:۔
آپ کی آخری عمر میں بینائی ختم ہو گئی تھی پیروں میں طاقت بھی نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی نوافل تلاوت ذکر وغیر ہ اس کی راہ میں روکاوٹ نہیں تھے بلکہ اور زیادہ اہتمام کرنے لگ گئیں تھیں بالکل آخر میں چند دن جو مجبوراً دوائیوں کے زیر اثر سوتے گزرے ان کے سوا کوئی لمحہ اللہ اور اس کے رسول کی یاد سے غافل نہیں گزرا آخری دنوں میں اپنے یہ اشعار پڑھتی تھیں۔
جینے کی تمنا ہے نہ مرنے کا غم مجھ کو
ہے فکر تو یہ بس تجھے بھولوں نہ کسی دم
چپ ہو نہ زباں میری تیری حمد ثناء میں
فرق آنے نہ پائے وہ تسلیم رضا میں
جب تک رہوں زندہ تری الفت کا بھروں دم
بھولوں نہ تجھے میں مجھے رکھ یاد تو ہر دم
آخری دن طبعیت میں بڑا سکون تھا فجر کی نماز پڑھی اور جب چاشت کا وقت آیا تو تیمم کر کے نماز ادا کی اورظہر کی نماز پڑھ کر تین گھنٹے تک ذکر کرتی رہیں۔ تقریبا ًپونے چھ بجے ذکر کی آواز معدوم ہوئی تو کسی نے اٹھ کر دیکھا تو جان جان آفریں کے سپرد کر چکیں تھیں۔ آپ چھ جمادی الثانی 31اگست 1968کو 93سال کی عمر پاکر خالق حقیقی سے جا ملیں۔