اہل سنت والجماعت کی نشانیاں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اہل سنت والجماعت کی نشانیاں
مولانا عابد جمشید
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے مرض الوفات میں اپنے شاگردوں اور متعلقین کو جو نصیحتیں کیں اور جن عقائد و نظریات پر کاربند رہنے کی وصیت کی ان میں ایک اہم وصیت مرنے کے بعد کی زندگی اورثواب و عذاب قبر کے عقیدہ کے بارے میں ہے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا ہے انسان جو کچھ اس دنیا میں عمل کرے گا آخرت میں اس کا بدلا پائے گا اگر اس دنیا میں نیک عمل کرے گا تو اچھی جزا ملے گی اور اگر نافرمانی کی زندگی گزاری تو سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ عذاب قبر ہر عذاب کے مستحق شخص کو ہو گا اور منکر نکیر کے سوال جواب سوال جواب جو قبر میں پوچھیں جائیں گے یہ حق ہے اور اسی کے مطابق اللہ کے پاس معاملہ ہو گا کیونکہ ان باتوں کا احادیث میں اس کثرت سے ذکر کیا گیا ہے کہ گویا متواتر کے حکم میں ہیں۔
جنت اور دوزخ:۔
جنت اور جہنم حق ہے اور یہ دونوں اللہ کی ایسی مخلوق ہیں کہ انسان کی طرح ان پر فناء نہیں ہے جنت اور اہل جنت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: ’’اعدت للمتقین‘‘ جنت متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور جہنم اور اہل جہنم کے بارے میں فرمایا:’’ اعدت للکافرین‘‘ جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔تو یہ بات ثابت ہوئی کہ جنت اور جہنم کو اللہ نے اپنے بندوں کو جزا یا سزا دینے کے لیے بنایا ہے۔
میزان کی حقیقت: اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں۔
ونضع الموازین القسط لیوم القیامہ
اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ساتھ اعما ل کو تولیں گے۔ اسی طرح قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جا نا حق ہے۔ اور قیامت کے دن اعمال ناموں کا لوگوں کے سامنے پڑھا جانا حق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرما یا۔
ونخرج لہ یوم القیامۃ کتابا یلقاہ منشورا اقرأ کتابک کفٰی بنفسک الیوم علیک حسیباo
قیامت کے دن ان کے نامے اعمال کو کھلی کتاب کی صورت میں ان کے سامنے پھیلا دیں گے (اور انہیں کہا جا ئے گا ) اپنے نامہ اعمال پڑھو جو تمہارے محاسبہ کے لیے بہت کا فی ہے۔
عذاب قبر اور ایک حقیقت:۔
عذاب قبر اور مرنے کے بعد کی جزاء سزا کے بارے میں ایک حقیقت کو جاننا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس دنیا میں انسان ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہو تا ہے اور چونکہ اس دنیا کی ہر چیز فانی ہے لیکن جنت یا دوزخ میں چونکہ جزا ملنے کا آخری اور حتمی مرحلہ ہے لہذا انسان کی روح کے ساتھ اس کا وجود بھی متصل ہو گا اور دونوں پر فنا نہیں ہو گی بلکہ جزا اور سزا دونوں کو اکٹھے ملے گی اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : لا تزر وازرۃ وزراُخری ایک کی سزا دوسرے کو نہ دے جائے گی۔ اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد یا تو اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو انعام ملیں گے یا سزا بھگتنا پڑے گی۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جا تا ہے اور اس کو دفنانے کے بعد دفنانے والے دفنا کر واپس ہو تے ہیں تو مردہ واپس ہونے والے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز کو بھی سنتا ہے۔ اور اس کے پاس دو فرشتے آجا تے ہیں اس کو اٹھا کر بیٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اس آدمی کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟ (اور ان کا اشارہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو تا ہے۔) اگر تو وہ مومن ہے تو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے سچے بندے اور رسول ہیں۔ اس کے بعد اس سے کہا جا تا ہے کہ اپنا جہنم کا ٹھکا نہ دیکھ لو(یعنی اگر تم سوال جواب نہ دے سکتے تو یہ تمہارا ٹھکانا ہوتا) اور اب اللہ تعالی نے اس کو جنت میں بدل دیا ہے اور اس کو یہ سب کچھ دکھا دیا جا تا ہے۔
اعمال کا تولا جا نا:۔
اعمال کے تولے جانے کو اگرچہ عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس کیفی چیز کو تولا کیسے جائے گا لیکن آج کے دور کے جدید سائنسی انکشافات نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے ماننے سے اب کوئی چیز مانع نہیں اور سب سے بڑی بات اللہ کا فرمان ہے۔
’’فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون ‘‘
جن کے نامہ اعمال میں عملوں کا وزن زیادہ ہو گا وہ کامیاب ہو جائے گا اور دوسرے مقام پر ارشاد فرما یا۔
’’واما من خفت موازینہ فامہ ھاویۃ‘‘
جن کے اعمال کا وزن تھوڑا ہو گا تو ان لوگوں کا ٹھکا نہ ’’ھاویہ‘‘ ہے۔نامہ اعما ل تولے جانے کے بعد دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : امامن اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ھآؤم اقرء وا کتٰبیہ جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعما ل دیا جا ئے گا وہ لوگوں کو خوشی خوشی یہ کہتا پھرے گا یہ لو میری کتاب اس کو پڑھ کر دیکھو اور جس کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور بڑی حسرت سے کہتا پھرے گا: یا لیتنی لم اوتَ کتابیہ ائے کاش مجھے نامہ اعمال دیا ہی نہ جاتا۔ اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ
اللھم اعطنی کتابی بیمینی وحاسبنی حسابا یسیرا۔
اللھم لا تعطنی کتابی بشمالی ولا من وراء ظہری۔