صدقہ فطر کے احکام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صدقہ فطر کے احکام
مفتی عبدالشکورترمذی رحمۃ اللہ علیہ
[1] جو مسلمان اتنا مال دار ہوکہ اس پر زکوۃ واجب ہو یا اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال واسباب ہے جتنی قیمت پر زکوۃ واجب ہوتی ہے یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کا مال واسباب ہے تو اس پر عید الفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے۔ چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یاسوادگری کانہ ہو اور چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزراہو، اس صدقہ کو شریعت میں ’’صدقہ فطر ‘‘کہتے ہیں۔ (درمختار) البتہ اگر وہ قرض دار ہے تو قرضہ منہا (کم…ازناقل )کرکے دیکھاجائے، اگر اتنی قیمت کا اسباب بچ جائے جو اوپر مذکورہے تب تو صدقہ فطر واجب ہے ورنہ نہیں جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر ’’صدقہ فطر‘‘ واجب ہے اسی طرح اگر عورت کے پاس کچھ مال اس کی ملکیت میں ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو مثلا اس کے پاس زیورہو جو اس کے والد کی طرف سے اس کو دیا گیا یا خاوند نے زیور دے کر اس کو مالک بنا دیا تو عورت پر بھی اپنی طرف سے ’’صدقہ فطر‘‘ واجب ہے۔
[2] مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے۔
(درمختار وشامی]
[3] البتہ مردں پر جس طرح اپنی طر ف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے اسی طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ اگر اولاد مال دار ہو تو پھر باپ کے ذمہ اپنے مال میں سے دینا واجب نہیں بلکہ اولاد کے مال میں سے ادا کرے اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی دینا واجب نہیں۔ البتہ اگر کوئی بالغ لڑکا، لڑکی مجنون ہو تواس کی طرف سے اس کا والد صدقہ فطرادا کرے۔
(در مختار شامی]
[4]وقت وجوب صدقہ:۔
عید کی صبح صادق کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے تو اگر کوئی شخص فجر کا وقت آنے سے پہلے فوت ہو گیا ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اس کے مال میں سے نہ دیا جائے اسی طرح جو بچہ صبح صادق کے بعد پیدا ہوا ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں ہے۔(درمختار)یہی حکم ہے اس شخص کا جو صبح صادق سے پہلے فقیر ہو گیا کہ اس شخص پر صدقہ فطر واجب نہیں۔
(شامی]
[5]مستحب یہ ہے کہ عید کے دن نما زسے پہلے یہ صدقہ دیا جائے اور اگر عید کے دن نہ دیا جائے تو معاف نہیں ہوا۔ اب کسی دن اس کی قضا کرنی لازمی ہے اور اگر اس کورمضان المبارک میں ہی اداکردیا گیا تب بھی ادا ہوگیا۔
[6] جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی یہ صدقہ واجب ہے۔
(عالمگیری]
[7]صدقہ واجب کی مقدار: صدقہ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کاآٹا، ستو دیا جائے تو نصف صاع یعنی پونے دو سیر بلکہ احتیاطا دوسیر دے دینا چاہیے اگرگیہوں اور جَو کے علاوہ کوئی اور غلّہ دینا چاہے جیسے: چنا، چاول وغیرہ تو اتنا دے کہ اس کی قیمت نصف صاع گندم یا ایک صاع جوکے برابر ہوجائے اور اگر غلہ کی بجائے اس کی قیمت دی جائے تو سب سے افضل ہے۔
[در مختار ]
[8] ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دینا جائزہے۔
(درمختار]
[9]صدقہ کے مستحق:۔
صدقہ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں یعنی ایسے غریب لوگ جن کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس پر صدقہ فطر واجب ہوتاہو۔
[10] صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
(درمختار]
[11] جن لوگوں سے یہ پیداہواہے جیسے ماں باپ، دادا، دادی، نانا،نانی اور اس طرح اس کی اولاد ہے جیسے بیٹی، بیٹا، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی ان کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا، ایسے بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتا۔
( درمختار]
خالہ، خالو، ماموں ، مامی، ساس، سسر، خسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں ، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے۔
(شامی]
[12]حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت جعفررضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ یا حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد کو صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے۔
(درمختار[
]13[ صدقہ فطر سے مسجد، مدرسہ، سکول، غسل خانہ، کنواں ، نلکا اور مسافر خانہ، پُل، سٹرک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی غریب کو اس کا مالک بنادیاجائے، پھر وہ اگر چاہے تو اپنی طرف سے کسی تعمیر یا کفن دفن وغیر ہ میں خرچ کردے تو جائز ہے۔
(درمختار[
]14[ جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دیناچاہیے اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہواکہ وہ غریب ہی ہے تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھو کہ دل کیاگواہی دیتاہے اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔
(شامی[
]15[ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں ، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں ، کیونکہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔
(درمختار[
جب آپ کو عقد نکاح یا ولیمہ کی دعوت دی جائے تو وہاں ضرور جائیں کیونکہ اس میں حاضری سنت ہے۔ جبکہ اس میں کوئی شرعی محرمات نہ ہو ں ،کیونکہ شریعت نے نکاح اور شادی کو عبادت میں شمار کیا ہے اس لیے مستحب یہ ہے کہ نکاح مسجد میں ہو جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح کی ہے اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’أعلنواالنکاح واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدُّف‘‘
[ابن ماجہ]
ترجمہ: نکاح کا اعلان کرو اور اس کو مسجد میں منعقد کرو اور اس نکاح پر دُف بجاؤ۔
اور اس کی تائید’’ اعلنواالنکاح ‘‘نکاح کا اعلان کرو والی حدیث سے بھی ہوتی ہے
[مسند احمد، مستدرک حاکم]
حدیث میں فصل ما بین الحلال والحرام الصوات والدف فی النکاح
ترجمہ: حلال اور حرام میں شہرت اور دف کا فرق ہے۔۔۔۔۔ والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے
[ترمذی، نسائی، ابن ماجہ]
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں عورتوں کو دف بجانے کی اجازت دی ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں اور بعض علماء کے نزدیک مردوں کو بھی اجازت ہے تا کہ شادی کی شہرت ہو اور اس کو اعلان ہو تاکہ اپنے اور غیروں سب کو معلوم ہو کہ شادی ہو ئی ہے۔
اس اعلان اور تشہیر میں شریعت کے اونچے مقاصد ہیں اور تو یہ کہ پاکیزہ اور حلال نکاح اور حرام اور خبیث جوڑ میں فرق کرنا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پہلے گزر چکا ہے۔
’’فصل ما بین الحلال والحرام والصوت والدف فی النکاح ‘‘
یعنی حلال اور حرام میں فرق کرنے والی چیز آواز اور دف ہے علماء نے فرمایا ہے کہ آواز سے مراد نکاح کا اعلان ہے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ ہے۔
آپ کا عقد نکاح کی مجلس میں شریک ہو نا اس مطلوب اعلان کو ثابت کرتا ہے اور نکاح میں گواہی پر قوت حاصل ہو تی ہے اور ایک مومن بھائی یا مومن بہن کے نیک عمل میں آپ شریک ہو تے ہیں۔ جس کے ذریعے ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نصف سے زیا دہ دین محفوظ کر لیا اب ان کو چاہیے کہ باقی نصف میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ نیز اس شرکت سے دولہا اور دولہن دونوں کی تکریم بھی ہے کہ ان کے عزیز واقارب اور ان کے نیک دوست ان کی اس خوشی میں شریک ہیں اور ان کی صلاح کامیابی، برکت اور توفیق کی دعائیں مانگتے ہیں اور ان کا تعلق مسلمانوں میں اسلامی اخوت کے حقوق میں سے ہے۔
جب آپ کو شادی پہ بلایا جائے تو دعوت کے قبول کرنے میں آپ کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ آپ ایک مبارک دعوت میں شریک ہو رہے ہیں اور ایک ایسی خوشی کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں جو شرعا مطلوب ہے اور اس میں شرکت کرنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور اس میں ان تمام آداب کا خیال رکھیں جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ آپ اس پاکیزہ تقریب کے لیے شریعت کے دائرہ میں رہ کر زیب وزینت اختیار کر سکتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم جب ایک دوسرے کی ملاقات کو جاتے تو ظاہری زینت اختیار کر کے جاتے
نیز جب آپ کوئی بات شروع کریں اور کسی بات میں حصہ لیں تو اس محفل اور خوشی کی مناسبت سے کریں ایسی بات نہ کریں جن سے حاضرین کو غم اور پریشانی ہو یا جس سے سامعین کی سمع خراشی ہو، مومن کو عقل مند اور ہو شیار ہو نا چاہیے مستحب یہ ہے کہ جب آپ زوجین کو مبارک باد دیں تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا سے مبارک باد دیں۔
’’بارک اللہ لک وبارک علیک وجمع بینکما بخیر ‘‘
[ابو داؤد، ترمذی،ابن ماجہ ]
ترجمہ: یعنی اللہ تجھے برکت دے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع فرمائے۔ان الفاظ سے مبارک باد نہ دیں جن سے بعض لوگ دیتے ہیں کہ آپ میں اتفاق ہو آپ کے بیٹے ہوں۔ کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی مبارک باد ہے اور اس سے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعا سِکھا کر اس سے مستغنی کر دیا ہے نیز یہ بھی مسنون دعا ہے:
’’بارک اللہ لکم وبارک علیکم ‘‘
[نسائی،ابن ماجہ]
یعنی اللہ آپ کو برکت دے اور آپ پر برکت نازل فرمائے۔
ام المومنین امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں جب میری شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ئی تو میری ماں آئیں اور مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا اور وہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں انہوں نے کہا۔
’’علی الخیر والبرکۃ وعلی الخیر طائر ‘‘
یعنی خیر وبرکت ہو اور خوش بختی اور خوش نصیبی ہو
یہ چند اسلامی آداب ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔ اور عمل کے لیے بہترین میدان آپ کا گھر ہے اور آپ کی شخصیت اور آپ کے بھائی بہن کی شخصیت ہے۔ لہذا اپنے اور ان کے درمیان عمل میں سستی نہ کریں تاکہ گھر والوں کو اور والدین کو آپ سے تکلیف نہ ہو کیونکہ وہ سب سے زیادہ آپ کی نیکی اور نرمی کے حقدار ہیں۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ کون شخص میرے حسن معاشرت کا زیادہ حق دار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امک ثم امک ثم امک ثم ابوک ثم ادناک ادناک ‘‘ فرمایا: تیری ماں پھر فرمایا تیری ماں پھر فرمایا تیری ماں پھر تیرا باپ پھر درجہ بدرجہ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اسلامی اداب کی رعایت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین]
خاوند کا دوسروں کی نظروں میں وقار بڑھائیں :۔
کبھی کبھی جھگڑے کا سبب یہ بنتا ہے کہ خاوند برا ہو تا ہے مگر اس کی بیوی اس کی برائی کے ڈھنڈورے پیٹنا شروع کر دیتی ہے میکے بھی فون کر کے اپنی امی کو بتا رہی ہے کہ کس مصیبت میں آپ نے مجھے ڈال دیا۔ سہیلیوں کو بھی فون کر کے بتا رہی ہے کہ میں تو مصیبت میں پڑ گئی بچوں کے سامنے بھی باپ کی برائی کر رہی ہے اس کے منہ کے سامنے بھی اس کی برائی کرتی ہے جب آپ نے اس کی برائی کا اتنا ڈھندورا پیٹنا شروع کر دیا تو آپ اس کی نظر میں کہاں سے اچھی رہیں ؟ آپ نے بھی تو ثابت کر دیا کہ برائی میں اس نے کوئی کمی نہیں چھوڑی، یاد رکھیں ! ہمیشہ اپنے خاوند کی دوسروں کے سامنے معزر بنائیں۔ خاوند آپ کا دل دکھائے آپ کو پریشان کر دے مگر پھر بھی آپ کی عادت یہ ہو آپ کا خلق یہ ہو نا چاہیے کہ دوسروں کے سامنے اس کا اچھا تذکرہ کریں اس طرح بات کریں کہ دوسروں کی نظر میں خاوند کی عزت اور مقام بڑھ جائے، یہ گھر آباد کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے
خاوند کو فیصلہ کن پوزیشن پہ نہ لے جائیں :۔
ایک اور غلطی جو عام طور پر جھگڑے کا سبب بنتی ہے کہ بیوی کبھی کبھی خاوند کو ایسی پوزیشن پہ لاکر کھڑا کر دیتی ہے کہ جہا ں اسے ایک کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور دوسرے کو رکھنا پڑتا ہے۔ کبھی بھی اپنے خاوند کو ایسی پوزیشن پر لا کر کھڑا مت کریں کہ یا وہ آپ کو رکھے یا اپنی ماں کو رکھے یا آپ کو رکھے یا اپنی بہن کو رکھے کیوں آپ نے اس کو اس پوزیشن پر لا کھڑا کیا اب وہ جس طرف بھی قدم بڑھا ئے گا فساد ہی فساد ہے تو ایسی صورتحال پر بات کو نہ لائیں ہمیشہ خاوند کی ذمہ داریوں کا خیال کریں اگر وہ ایک ہی بیٹا ہے تو اپنی ماں کو کہاں بیچ نکا لے گا؟ آپ کو اس کی ماں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مجاہدہ کر نا پڑے گا۔ ہا ں ! جب آپ اور آپ کے میاں باہم مل جائیں گے تو پھر بوڑھی ساس آپ لوگوں کو پریشان نہیں کر سکے گی۔
غیر مرد سے تنہائی میں بات نہ کریں :۔
ایک اور چیز جو جھگڑے کا سبب بنتی ہے وہ ہے کسی غیر مرد کے ساتھ تنہائی میں بات کر نا یا فون پر بات کرنا یہ عورت کی اتنی بڑی غلطی ہو تی ہے کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ بربادی ہو تا ہے۔ یاد رکھیں ! مرد عورت کی ہر کوتاہی کو برداشت کر سکتا ہے اس کے کردار کی برائی کو کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا، تو غیر مرد کے ساتھ گفتگو کرنے سے ایسے گھبرائیں جیسے بچہ شیر کو دیکھ کر یا بلی کو دیکھ کر گھبرا یا کرتا ہے۔ اس معاملے میں اپنے کردار کو بے داغ رکھیں جب مرد کے دل میں یہ بات ہو تی ہے کہ میری بیوی پاک دامن ہے تو پھر وہ کڑوی کسیلی آرام سے برداشت کر جا تا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں ہے کہ کتنی خوبصورت لڑکیوں کو طلاقیں ہو جاتیں ہیں اس کا سبب یہی مصیبت بنتی ہے۔کسی کا فون آرہا ہے۔ کسی کا میسج آرہا ہے، کسی سے بات ہو رہی ہے، جب خاوند کو اس چیز کا پتہ چلا تو بس یہ چیز خاوند اور بیوی کر درمیان فاصلے پیدا ہو نے کا سبب بن جاتی ہے۔
خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلیں :۔
اس لئے خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی کام بھی نہ کیا کریں حدیث پاک میں آتا ہے:’’جو بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلتی ہے جب تک لوٹ کر نہیں آتی اللہ کے فرشتے اس عورت کے اوپر لعنت برساتے ہیں۔ ‘‘اور ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے: ’’عورت کا خاوند اگر کسی جائز بات پر ناراض ہو اور عورت اس کی پرواہ نہیں کرتی اس کا خیال ہی نہیں کرتی جب تک مرد ناراض ہے اللہ تعالی اس عورت کی نماز کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ ‘‘حدیث پاک میں غلام کے بارے میں بھی یہی آیا ہے کہ اگر کوئی غلام اپنے گھر سے بھاگ جائے تو جب تک اپنے مالک کے پاس واپس نہ لوٹے اللہ اس کی نمازوں کو قبول نہیں فرماتے۔ حقیقت حال کو سمجھ کر دینی زندگی گزاریں گی تو ان شاء اللہ یہ جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے یہ باتیں تو وہ تھیں جو عام طور پر عورتوں سے کوتاہیاں ہو جاتیں ہیں جن پر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہو تے ہیں بلا اجازت کام کر نا یا بلا اجازت گھر سے جانا یہ بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے۔
ایک صحابیہ کی بے مثال فرمانبرداری:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں ایک میاں بیوی اوپر کی منزل میں رہتے تھے اور نیچے کی منزل میں بیوی کے ماں باپ رہتے تھے خاوند کہیں سفر پہ گیا اور اس نے بیوی کو کہہ دیاکہ تمہارے پاس ضرورت کی ہر چیز ہے تم نے نیچے نہیں اترنا۔ چنانچہ یہ کہہ کر خاوند چلا گیا اللہ کی شان دیکھیں کہ والد صاحب بیمار ہو گئے وہ صحابیہ عورت سمجھتی تھی کہ خاوند کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے اب یہ نہیں کہ اس نے سنا کہ والد بیمار ہے اور نیچے آگئی،نہیں۔ اس نے اپنے خاوند کی بات کی قدر کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ میرے خاوند نے مجھے گھر سے نکلتے ہو ئے منع کر دیا تھا تو اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا اب مجھے نیچے جا نا چاہیے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ نہیں ! آپ کے خاوند نے چونکہ آپ کو منع کر دیا اس لیے آپ نیچے نہ آئیں۔ ‘‘
اب ذرا غور کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی فرما رہے ہیں کہ آپ خاوند کی اجازت کے بغیر نیچے مت آؤ چنانچہ وہ نیچے نہیں آئیں اللہ کی شان کہ اس کے والد کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی حتی کہ والد کی وفات ہو گئی جب والد کی وفات ہو ئی تو اس صحابیہ نے پھر پیغام بھجوایا کہ اے اللہ کے نبی! کیا میں اپنے باپ کا آخری مرتبہ چہرہ دیکھ سکتی ہو ں میرے والد دنیا سے چلے گئے میرے لیے کتنا بڑا صدمہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چونکہ تمہارے خاوند نے تمہیں روک دیا تھا اس لیے تم اوپر ہی رہو اور اپنے والد کا چہرہ دیکھنے کے لیے نیچے آنا ضروری نہیں وہ صحابیہ اوپر ہی رہی سوچیے اس کے دل پر کیا گزری ہو گی کتنا صدمہ اس کے دل پر ہوا ہو گا اس کے والد کا جنازہ پڑھا یا گیا اس کو دفن کر دیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیٹی کی طرف پیغام پہنچایا کہ اللہ رب العزت نے تمہارے اپنے خاوند کا لحاظ رکھنے کی وجہ سے تمہارے باپ کے سب گناہوں کو معاف فرما دیا تو معلوم ہوا آپ اپنے گھر میں جو کام بھی کریں خاوند سے اجازت لیں۔