رمضان اور رحمت رحمٰن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رمضان اور رحمت رحمٰن
مولانا محمد بلال جھنگوی
ہر چیز کا ایک موسم اور سیزن ہو تا ہے جس میں انسان دام کم اور چیز زیادہ وصول کرتا ہے جس طرح گندم اگر سیزن کے موقع پر لی جائے تو پیسہ کم لگتا ہے اور گندم زیادہ وصول ہوتی بہ نسبت اس موقع کے جس میں سیزن نہیں ہوا کرتا۔ اس طرح نیک کام تو انسان کرتا رہتا ہے اور کرنے بھی چاہیے لیکن تمام مہینوں میں ایک مہینہ ایسا ہے جس میں انسان نیک کام اگر تھوڑا سا بھی کر لے تو اس کو اجر کئی گنا ملتا ہے جس طرح کہ رمضان المبارک کا مہینہ یہ نہایت رحمت اور برکت والا مہینہ ہے اس کے اندر اللہ رب العزت نے انسانوں پر خصوصی کرم فرمایا اور اس مہینہ کی عبادت کا ثواب بھی عام مہینوں کی عبادت سے زیادہ عنایت فرمایا اس مہینہ میں کوئی نفل پڑھے تو ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر کر دیا جا تا ہے اور اس کی ایک رات کا ثواب ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیا چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:’’ لیلۃ القدر خیرمن الف شھر‘‘کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اس مہینہ کی ہر رات میں اللہ تعالی اپنی خصوصی رحمت سے جہنمیوں کو رہائی نصیب فرماتے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ رمضان المبار ک کی ہر دن او ر ہر رات میں اللہ تعالی یہاں سے (یعنی جہنم کے ) قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کے لیے ہر دن اور رات میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ ‘‘بعض روایات کے مطابق افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے اللہ رب العزت اس وقت ہم کو دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ]
دن کی عبادت روزہ:۔
اس رحمت والے مہینے میں ربِ رحمن نے ہم پر دو خاص عبادتیں مقرر فرمائی ہیں ایک دن کا روزہ اور دوسری رات کی تراویح۔ روزے کے متعلق تو رحمۃ اللعالمین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے اور کہیں یہ ارشاد فرمایا کہ روزے دار کے لیے دریا کی مچھلیاں دعا کرتیں ہیں اور افطار کر وقت تک کرتی رہتیں ہیں ان کے لیے جنت کو سجایا جاتا ہے اور کہیں گناہوں کی معافی کا یوں اعلان فرمایا۔
’’من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘
کہ جس آدمی نے ایمان اور ثواب کی نیت سے روزے رکھے اللہ تعالی اس کے پہلے والے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔
ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا اور ایک مقام پر تو یوں ارشاد فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں۔ تو ذرا سوچیں اگر روزہ کے بدلے ہمیں اللہ تعالی مل جائیں تو کیا یہ سودا سستا نہیں ہے؟
کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا اس نے ایک دن اپنے تمام وزیروں کو اکھٹا کیا اور کہا کہ یہ سب اشرفیاں دینار تمہارے لیے ہیں اور یہ جواہر اور موتی بھی تم ان سب کو اٹھا لو ان سب کو پھینک کر وہ چل دیا لیکن اس کا ایک وزیر اس کے پیچھے چل پڑا اس نے اشرفیوں دنانیرموتیوں اور جواہر کی طرف توجہ ہی نہ دی وہ بادشاہ کے پیچھے چلتا رہا بادشاہ نے دیکھا تو سوال کیا آپ میرے پیچھے کیوں آئے ہیں کیا آپ کو ان موتیوں کی اور جواہرات کی ضرورت نہیں تھی؟تو اس وقت وزیر نے جواب دیا اور کہا بادشاہ سلامت جن کو جواہر چاہیے تھے وہ لے رہے ہیں لیکن مجھے تو بس آپ چاہیے کیونکہ جس کو آپ مل گئے اس کو جواہر بھی مل گئے اور موتی بھی لہذا مجھے آپ کی رفاقت ہی پسند اور مطلوب ہے۔ تو بالکل اس طرح ہر آدمی عبادت اللہ کی رضاء کے لیے اس کی رحمت کے حصول کے لیے کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مجھے اللہ کی معرفت حاصل ہو جا ئے یعنی کہ مجھے اللہ مل جائے تو اگر روزے کے ذریعے اللہ اپنی معرفت عنایت فرما دیں تو ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن یہ اس وقت ہو گا جب ہم روزے میں زبان، کان، ہا تھ اور دیگر اعضاء جسمانیہ کی حفا ظت بھی کریں گئے کیونکہ روزہ ڈھال بھی ہے حدیث شریف میں آتا ہے رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الصیام جنۃ ما لم یخرقھا‘‘ کہ روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ دے۔
[ابن ماجہ]
ڈھا ل ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنے دشمن سے حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزے کے ذریعے سے بھی انسان اپنے دشمن شیطان سے حفاظت کرتا ہے۔ ایک روایت میں یوں بھی راشاد فرمایا کہ روزہ ڈھا ل ہے اللہ کے عذاب سے اور دوسر ے مقام پر یوں ارشاد فرمایا کہ روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ تو ارشاد فرمائیں اے اللہ کے رسول روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جھوٹ اور غیبت سے۔ اور یہ بیماری جہاں مردوں میں ہے اس سے زیادہ کہیں خواتین میں موجود ہے جوں ہی دو اکھٹی بیٹھیں گئی کسی نہ کسی کی خیر نہیں ہے اللہ ہمیں غیبت کرنے اور جھوٹ بولنے سے محفوظ فرمائے۔
اگر ہم نے روزے کی حالت میں بھی غیبت اور جھوٹ نہ چھوڑا تو ہم سارا دن روزہ تو رکھیں گی لیکن ہمیں اس کا ثواب نہیں ہو گا کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں بھوکا رہنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سواء کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘
رات کی عبادت تراویح:۔
دوسری جو رمضان المبارک میں ایک خاص عبادت ہے وہ ہے رات کی تراویح کہ جس کے متعلق رحمۃ اللعالمین پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جس آدمی نے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام (یعنی رات کی تراویح )کیا اللہ تعالی اس کے پہلے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔‘‘
یہ نماز تراویح خاص رمضان المبار ک کی عبادت ہے اور اس میں گناہوں کی معافی کا اعلان ہے اگر ذرا غور فرمائیں ! تو اس کے علاوہ ہمیں کیا چاہیے کیا مغفرت سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے؟ مگر افسوس کہ ہمیں اس کی بھی قدر نہیں اور اس عظیم الشان سنت کے ادا کرنے میں اس قدر لاپرواہی کی جاتی ہے کہ اللہ معاف فرمائے۔ نماز تراویح کی بیس رکعات یہ سنت موکدہ ہیں اور عورتیں اس سے بھی محروم رہتی ہیں حالانکہ مردوں کی طرح ان پر بھی تراویح پڑھنا سنت موکدہ ہے
ایک روایت میں آتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جا ئے۔ ‘‘رمضان المبارک کی ان بابرکت راتوں میں ایک رات ایسی بھی ہے جس کو اللہ رب العزت نے ہزار مہینوں سے بہتر فرمایا ہے۔
لیلۃ القدر کی فضیلت:۔
رمضان المبارک کی تمام راتوں سے بابرکت اور خیر کی رات ہے جس کو ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے اگر حساب لگایا جائے تو ہزار مہینوں کے تراسی سال چار ماہ بنتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جا ئے کہ جو شخص اس ایک رات کو عبادت میں گزار دے تو گویا اس نے تراسی سال چار ماہ سے زیادہ کا زمانہ عبادت میں گزارا۔ در منثور میں ہے کہ اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر اللہ تعالی نے میری امت کو عطا فرمائی ہے پہلی امتوں میں نہیں ہے۔
روزہ اور تراویح کی طرح اس رات میں عبادت کرنے والے کے بھی اللہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے )کھڑا ہواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے توکیا دعا مانگوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللھم انک عفوا تحب العفو فاعف عنی‘‘ اے اللہ تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو پس معاف فرما دے مجھے بھی۔
اعتکاف کی فضیلت:۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ایک خاص عبادت اعتکاف کی بھی ہے حدیث شریف میں اس کی فضلیت بھی آئی ہے عورت کے لیے گھر کی وہ جگہ ہے جس کو اس نے نماز پڑھنے کے لیے متعین کیا ہے اور اگر گھر میں عورت نے کوئی جگہ نماز کے لیے متعین نہیں کی تو کسی کونے کو متعین کر کے اس میں بیٹھ جائیں عورتوں کے لیے تو یہ کام بہت آسان ہے لیکن پھر بھی اس سے محروم رہتی ہیں آخر کیوں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ معتکف (اعتکاف کرنے والا/کرنے والی) گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتیں ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے ٍمطلب یہ ہے کہ اعتکاف میں آدمی گناہوں سے بھی محفوظ رہتا ہے اور وہ نیک کام جو باہر رہ کر کرسکتا تھا اب نہیں کر سکتا مثلا
مریض کی عیادت، نماز جنازہ وغیرہ اس کا ثواب بھی اس کو اعتکاف کے دوران ملتا رہے گا۔ یہ اللہ تعالی کی اپنے بندے پر کس قدر رحمت ہے کہ اس کو صرف نیت پر ہی ان کاموں کا ثواب جن کو وہ اعتکاف کے دوران نہیں کر سکتا پوراپورا عنایت فرما رہے ہیں دراصل اللہ کی رحمت تو بندے کی بخشش کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ بنا دیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کے درمیان مسافت سے زیادہ ہے۔
رمضان اور عباد ت اولیاء رحمن:۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق ہے کہ آپ مضان المبار ک میں 61 قرآن پاک ختم فرمایا کرتے تھے ایک دن میں اور ایک رات میں اور ایک تراویح میں۔
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی ریاضت اور مجاہدے کی یہ حالت تھی کہ دیکھنے والوں کو رحم آتا اور ترس کھایا کرتے تھے چنانچہ پیرانہ سالی میں جب آپ کی عمر ستر سال سے بھی زیادہ تھی آپ کا معمول یہ تھا کہ دن بھر روزہ اور بعد از نماز مغرب نماز اوابین ادا فرماتے تھے جس میں تقریبا دو پارے تلاوت فرماتے تھے اس کے بعد مکان میں کھانا کھانے تشریف لے جاتے اور تھوڑی دیر وہیں قیام فرماتے تو اس کے دوران بھی کئی پارے تلاوت فرما لیتے پھر اس کے بعد تراویح ادا فرماتے پھر تھوڑا سا آرم فرمانے کے بعد تقریبا ًاڑھائی گھنٹے تہجد میں مشغول رہتے تھے پھر نماز فجر کے بعد آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تک ذکر اور وظائف میں مشغول رہتے تھے نمازوں میں اور ان کے بعد کے اوقات میں نصف قرآن مجید پڑھنا آپ کا یومیہ معمول تھا۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے قرآن مجید سنتے رہتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری رحمہ اللہ کا رمضان المبار ک تو دن رات تلاوت قرآن مجید میں ہی گزرتا تھا۔ رمضان میں ملاقات اور ڈاک وغیرہ بھی بند فرما دیتے تھے۔ اللہ تعالی ہمیں ان اولیاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین]