ہم خرماوہم ثواب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہم خرماوہم ثواب
مولانامحمد کلیم اللہ
اصول یہ ہے کہ’’ عقل؛ شریعت کے تابع ہونی چاہیے … شریعت؛ عقل کے تابع نہیں۔ ‘‘ اس اصول کومان لینے سے ہمارے کئی ایک مسائل حل ہوجاتے ہیں، دین اسلام کی تمام وہ باتیں جنہیں شریعت میں بجالانے کاحکم ہے اور وہ تمام باتیں جن سے شریعت مطہرہ ہمیں روک دیتی ہے اس میں عقل کو دخل انداز کرنا جہاں ناانصافی کی بات ہے وہاں حماقت کی بات بھی ہے کیونکہ حکیم اورخبیر ذات کاحکم ہوکرنے کاتو کرلینا ہی ضروری ہے اور اگر وہی ذات کہے کہ فلاں کام کے قریب مت جائو !فلاں کام چھوڑدو! تو اسے چھوڑ دینا ضروری ہے۔
دین اسلام میں بعض ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں شریعت کاحکم ہے کہ اس کو فلاں طریقے پرادا کیاجائے اس لیے ہم اس کو ویسے ہی ادا کرتے ہیں ویسے ہی مانتے ہیں، انہیں مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ’’مرد اورعورت کے طریقہ ادائے نما زمیں فرق کا ہے‘‘ یعنی مرد کے نمازاداکرنے کاطریقہ عورت کے نماز ادا کرنے سے مختلف ہے اس پر امت کا عمل بھی چلا آ رہا ہے، لیکن باہمی انتشارکابیج بونے والوں نے اس میں بھی ایک شوشہ اورنکالاہے کہ مرد اور عورت کے (طریقہ ادائیگی)نماز میں کوئی فرق نہیں، سازش یہ تھی کہ ہماری اہل السنت والجماعت سے وابستہ مائوں اور بہنوں کے اذہان میں شکوک وشبہات کے جھکڑ چلادے جائیں، پہلے اہل اسلام اس بات پر فکر مند ہوتے تھے کہ فلاں خاتون نماز کی پابند کیوں نہیں بن رہی؟ اب یہ فکر ہوکہ نامعلوم میری نماز… جس طریقے پر اداکررہی ہوں … ہوتی بھی ہے یانہیں ؟
چنانچہ یہ کھیل بھی کھیلا گیا اور اس بات کو مشہور کیاجانے لگا کہ مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔ اس بات کے پیش نظراستاد محترم متکلم اسلام مولانامحمد الیاس گھمن مدیر اعلیٰ بنات اھل السنت نے باحوالہ مدلل ایک وال چارٹ مرتب کیاہے جس کو پڑھنے کے بعدمیری مائیں اور بہنیں اس بات کا یقین کرلیں گی کہ خود پر حدیث کا لیبل لگانے والے آخر کیوں اس حقیقت کاانکار کر کے فریب دے رہے ہیں وال چارٹ کامکمل متن ذیل میں دیا جا رہاہے۔
ہم اپنے گھروں اور ویٹنگ رومز میں جہاں نامحرم خواتین اور مردوں کی تصاویر جانوروں اورپھول کلیوں کی تصاویر لگاتے ہیں اگر اس کی جگہ ان خوبصورت پوسٹرز کولگائیں، تو فائدہ ہی فائدہ اور یہ کہ مسئلہ بھی سمجھ آئے اور ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے اسے کہتے ہیں ’’ہم خرماوہم ثواب۔‘‘
مرد و عورت ہاتھ کہاں تک اٹھائیں
دلیل نمبر1:
عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍ lُ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہa: یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ!اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
[المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497]
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر lفرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہaنے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنے سینے کے برابر ہاتھ اٹھائے۔‘‘
مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
دلیل نمبر2:
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَالَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ a فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّا رَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ۔
[سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود ]
ترجمہ: حضرت سالم البرادe (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاریl کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ aکی نماز کے بارے میں بتائیں ؟
تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔
دلیل نمبر3:
غیر مقلد عالم ابو محمد عبد الحق ہاشمی نے رکوع‘ سجود‘ قعود میں مرد و عورت کے فرق پر ایک رسالہ بنام: ’’نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود.‘‘ تصنیف کیا۔
اس میں ابن حزم ظاہری اور جمہور علماء کے موقف کو نقل کر کے فرماتے ہیں۔
’’عِنْدِیْ بِالْاِخْتِیَارِ قَوْلُ مَنْ قَالَ:اِنَّ الْمَرْأۃَ لَاَ تُجَافِیْ فِی الرُّکُوْعِ… لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا‘‘
[ص52]
ترجمہ: میرے نزدیک ان لوگوں کا مذہب راجح ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عورت رکوع میں اعضاء کو کشادہ نہ کرے۔۔۔ ۔ کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے۔
مرد و عورت کے طریقہ سجدہ میں فرق
دلیل نمبر4:
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ lُ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ a قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ۔
[السنن الکبری للبیہقی ج 2ص115]
ترجمہ: حضرت ابو حمید l سے روایت ہے کہ رسول اللہ a جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے۔
دلیل نمبر5:
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَo قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِa: وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔
[الکامل لابن عدی ج 2ص631]
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرo کہتے ہیں کہ رسول اللہ a نے فرمایا:’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے۔‘‘
دلیل نمبر6:
عَنْ مُجَاھِدٍeُ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا]
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی)e اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
دلیل نمبر7:
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ lُ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہa یَسْجُدُ۔
[سنن ابی داود ج 1ص137، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود]
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق(تابعی) e فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب l نے ہمیں رسول اللہ a کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ lنے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
دلیل نمبر8:
عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا۔
[مصنف عبد الرزاق ج 3ص137]
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ(تابعی) e فرماتے ہیں : ’’جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔‘‘
دلیل نمبر9:
عَنْ مَیْمُوْنَۃَmاَنَّ النَّبِیّa اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ۔
(سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود]
ترجمہ: حضرت میمونہm بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم a جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا
مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
دلیل نمبر10:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَر o… وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
[الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد]
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر o نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔ ‘‘
دلیل نمبر11:
عَنْ عَائِشَۃَm قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہa یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
[الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول]
ترجمہ: حضرت عائشہ o فرماتی ہیں کہ رسول اللہ aاپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
دلیل نمبر12:
عَنِ ابْنِ عُمَرَo اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہ a قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
[جامع المسانید ج 1ص400]
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرoسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ a کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں ؟ آپoنے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں ‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے؟
دلیل نمبر13:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَlُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہa:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃl بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہa نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
دلیل نمبر14:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَo عَنِ النَّبِیa قَالَ:صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
[التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 ]
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرo بیان کرتے ہیں کہ نبی a نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
دلیل نمبر15:
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیَّ o اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیa فَقَالَتْ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔
[الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا]
ترجمہ:حضرت ابو حمید الساعدی lکی بیوی ام حمیدmنبی اکرم aکی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ a کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔ آپaنے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمیدmنے (آپaکی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ
(1):قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ e:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
[الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ]
وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔
[الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92]
ترجمہ:امام اعظم ابو حنیفہe فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔
(2) قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسe: وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
[رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34]
ترجمہ: اما م مالک بن انسe نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔
(3): قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیe: وَقَدْاَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗa وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَاکَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
[کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود]
ترجمہ:امام محمد بن ادریس الشافعی e نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ aنے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ‘قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔
(4): قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلe: وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
[الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635]
ترجمہ: امام احمد بن حنبل e نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل eنے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘
چند محدثین کے نام جنھوں نے مرد و عورت کی نماز میں فرق بیان کیا۔
(1)امام ابراہیم نخعی e م96ھ۔ آپ محدث و مفتی کوفہ ہیں۔
(2) امام مجاہد e م102ھ۔ محدث و مفتی مکہ ہیں۔
(3)امام عامر الشعبیeم104ھ۔ آپ کی 500صحابہ n سے ملاقات ثابت ہے۔ کوفہ کے بہت بڑے محدث‘ فقیہ‘ مفتی اور مغازی کے امام تھے۔
(4) امام حسن بصری e م 110ھ۔ بصرہ کے محدث اور مفتی تھے۔
(5)امام عطائe م114ھ۔ آپ محدث و مفتی مکہ ہیں۔
مولانا عبد الحئی لکھنویe کا فیصلہ:
قَالَ الْاِمَامُ عَبْدُ الحئی اللَّکْنَوِی e: وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْاعَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ رَفْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا۔
[السعایۃ ج 2ص156]
ترجمہ:عورتوں کے حق میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
نوٹ: اصول حدیث کے مطابق بعض مقامات میں دوکتب کے حوالے دیے گئے ہیں دوسرے حوالے کے الفاظ کبھی بعینہ اول ہوں گے اورکبھی معمولی الفاظ کے فرق کے ساتھ ہوں
نوٹ: اس کے علاوہ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا میں 12 روزہ دورہ تحقیق المسائل کے اسباق میں خطیب اہل السنت مولانا عبدالشکور حقانی نے اس موضوع پر تفصیلی سبق پڑھایا جس کو ہماری سائیٹ alittehaad.org پرملاحظہ کیاجاسکتاہے مزید یہ کہ دورہ تحقیق المسائل میں پڑھائے جانے والے تمام اسباق کی ڈی وی ڈیز بھی منگوائی جاسکتی ہیں۔