ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
پر غلط الزام اور اس کا جواب
مولانا محمد نافع، محمد ی شریف جھنگ
مرزائی امت حضرت صدیقہ کا قول (قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ)پیش کرکے آپ کااجرائے نبوت کے عقیدہ کے ساتھ متفق ہونا ثابت کرتے ہیں، ان لوگوں کا اپنے زعم میں یہ بڑا مایہ ناز استدلال ہے اس پر بہت کچھ حاشیہ آرائی کی جاتی ہے۔
واضح ہوکہ کتاب مختلف الحدیث لابن قتیبہ الدینوری صفحہ236میں حضرت صدیقہ کے قول ہذا کی توجیہہ بالفاظ ذیل منقول ہے۔
واماقول عائشۃ قولوا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ولاتقولوالانبی بعدہ فانھا تذہب الی نزول عیسٰی علیہ السلام ولیس ہذا من قولھاناقضا لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانبی بعدہ لانہ اراد’’لانبی بعدی‘‘ یمسخ ماجئت بہ کما کانت الانبیاء علیہم السلام تبعث بالنسخ وارادت ہی لا تقولوان المسیح لاینزل بعدہ۔
اس کا مفہوم ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایاکہ حضورعلیہ السلام کو خاتم النبیین کہو اور یوں نہ کہوکہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ہے اور یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث’’لانبی بعدی‘‘ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کا مطلب یہ ہے کہ ایساکوئی نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کردے جیساکہ انبیاء علیہم السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے، جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے تم یہ نہ کہو حضرت مسیح علیہ السلام بھی نہ آئیں گے (بلکہ وہ آئیں گے]
یہ واضح رہے کہ یہ مذکورہ قول درمنثور ج 5 ص 205 میں تحت آیت خاتم النبیین اور مجمع البحار ج 5کے تکملہ ص502 بلاسند واسناد درج ہے۔قادیانیوں نے مذکورہ قول نقل کرتے وقت اس کو سیاق وسباق سے کاٹ کراپنے مقصد کے موافق الفاظ ذکر کیے ہیں۔ اس کا ماقبل اور مابعد ذکر کرنے میں ان کو خسارہ تھا، اس لیے ترک کر دیا گیا ہے۔اس لیے ہم ذرا تفصیل کے ساتھ تکملہ مجمع البحارکی عبارت مذکورہ کو نقل کرتے ہیں، تاکہ خودصاحب کتاب کی زبان سے مطلب واضح ہو جائے۔
وفی حدیث عیسٰی انہ یقتل الخنزیر و یکسر الصلیب ویزید فی الحلال ای یزید فی حلال نفسم بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فحیئنذ یومن کل احد من اھل الکتاب یتیقن بانہ بشر۔وعن عائشہ قولو انہ خاتم الانبیاء ولاتقولو لانبی بعدہ وہذا ناظراً الی نزول عیسیٰ وہذا ایضاً لا ینافی حدیث لانبی بعدی لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ۔
[تکملہ مجمع البحار طبع ہند صفحہ85]
یعنی عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی، آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے انہوں نے شادی نہیں کی تھی ان کے آسمان سے اترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہوا۔ (بیاہ شادی سے اولاد ہوگی)اس زمانے ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا، یقینا یہ بشر ہیں (یعنی خدا نہیں ہیں جب کہ عیسائیوں نے عقیدہ گھڑرکھاہے)اورصدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والے نہیں، یہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان(لاتقولوا لا نبی بعدہ)اس بات کے مدنظرمروی ہے۔ کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ نزول عیسی علیہ السلام حدیث شریف لانبی بعدیکے مخالف نہیں ہے اس لیے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کا ناسخ ہو(اور عیسیٰ علیہ السلام دین محمدی کی اشاعت اور ترویج کے لیے نازل ہوں گے نہ کہ اس دین کو منسوخ کرنے کے لیے ]
تکملہ مجمع کی تمام عبارت پر نظر کرنے سے صاف ظاہر ہو رہاہے صدیقہ کالانبی بعدہکہنے سے منع فرمانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے یقینا ہوگا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والانہیں کے الفاظ سے ان کے عموم کے اعتبار سے عوام کو شبہ اور وہم کو دور کرنے کے لیے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بعض اوقات ایساکہنے سے منع فرمایا ہے۔
ثالثاً: حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ امت مسلمہ کے متفقہ عقیدہ کے موافق ختم نبوت کی قائل اور اس اجماعی عقیدہ اور اتفاقی مسئلہ پر خود انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایات بیان فرمائی ہیں۔
[1]پہلی روایت: عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لایبقی بعدی من النبوۃ شیٔ الاالمبشرات قالوا یارسول اللہ! ماالمبشرات؟ قال: الرویا الصالحۃ یراھا الرجل اوتری لہ۔
[مسند احمد ص129ج6ورواہ البیہقی فی شعب الایمان وکنز العمال بروایۃ خطیب ج8ص33 ]
ترجمہ: حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میرے بعد کچھ بھی نبوت باقی نہیں رہی، ہاں صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مبشرات کیاچیز ہیں ؟ توآپ نے فرمایا:’’ اچھے خواب ہیں آدمی ان کو خود دیکھتاہے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا آدمی ہی دیکھتاہے۔‘‘
[2]دوسری روایت: عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیائ۔
[کنزالعمال بحوالہ الدیلمی وابن النجاروالبزار]
ترجمہ: حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تمام نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں اور میری مسجد کے بعد کسی دوسری نبی کی مسجد نہیں ہوگی۔‘‘
ختم نبوت کی ان احادیث کو خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاروایت کرتی ہیں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح کسی تاویل وتشریح کے بغیر ذکر کرتی ہیں تو اس کا صاف مقصد یہ ہے حضرت ام المومنین اس مسئلہ پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہیں کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہوچکاہے تشریعی، مستقل یاغیرمستقل۔
رابعاً: یہ مرزائی امت کے استدلال کے متعلق نرالے اصول ہیں۔ ایک طرف تو حضرت صدیقہ کی طرف جو مجہول الاسناد قول منسوب ہے، معتبر ومستند مانا جارہاہے اور اس کو بڑے آب وتاب کے ساتھ ہمیشہ پیش کیاجاتاہے اور باوجود تلاش کے اس قول کی صحیح تخریج صحیح اسناد کے ساتھ مرزائیوں کو تاحال نہیں مل سکی۔دوسری طرف صحیح احادیث مرفوعہ کا ذخیرہ جس میں ختم نبوت روز روشن کی طرح واضح ہے ناقابل قبول ہے سچ یہ ہے کہ
جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ناظرین کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانی جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھتی ہے جوحدیث ان کے مسلک کے موافق ہواس کو تسلیم کرلیا جائے اور جو روایت قادیانی مذاق کے خلاف واقع ہواس کو رد کردیاجائے۔
مندرجہ ذیل حوالہ جات میں مرزا صاحب نے اس مسئلہ کو بڑا صاف کردیاہے۔
اول: اور جوشخص حکم ہوکر آیاہے اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خداسے علم پاکر رد کرے۔
[حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص10 ]
دوم: اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعوے کی دلیل حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے اوپر نازل ہوئی ہاں تائید طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جوقرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرف پھینک دیتے ہیں۔
[اعجاز احمدی ص30]
حضرات!! مرزائیوں کے نزدیک حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پاک کو قبول اور رد کرنے کا معیار یہ ہے جو مرزا صاحب نے مذکورہ عبارت میں واضح کردیاہے۔استدلال حدیث کے معاملہ میں مرزائیوں کے لیے یہی اصل الاصول ہے دوسری کوئی صحیح سے صحیح حدیث ان کے ہاں قابل قبول نہیں۔ عوام کی آگاہی کے لیے یہ تحریر کردیا ہے یادرہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ حضرت صدیقہ کا نظریہ جہاں واضح ہواہے وہاں ساتھ ہی صاحب مجمع البحار کا مسلک بھی اپنی جگہ بالکل صاف ہے ان کا دوسراا عتقاد جمہور اہل اسلام کے خلاف ہرگز نہیں ہے یہ مرزائیوں کا کمال ہے عبارتی ہیر پھیر کرکے انہوں نے اپنی ہمنوائی میں متعد دحضرات کو شمار کرلیاہے۔
استدراک:۔
حضرت ام المومنین کے پیش نظر یہ بات تھی کہ لانبی بعدی کے ظاہر عموم کی وجہ سے عوام نزول عیسی اور اس حدیث کو تضاد نہ سمجھ لیں اس لیے احتیاطا انہوں نے لا نبی بعدہ کہنے سے منع فرمایا۔ا سی قسم کا ایک قول حضرت مغیرہ بن شعبہ سے منقول ہے۔
عن الشعبی قال قال رجل عندہ المغیرۃ بن شعبۃ محمد خاتم الانبیاء لانبی بعد ہ فقال المغیرۃ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فاناکنا نحدث ان عیسی علیہ السلام خارج فان ہوخرج فقد کان قبلہ وبعدہ۔
[تفسیر درمنثورج5 ص204]
ترجمہ: شعبی سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ کہا کہ اللہ رحمت نازل کرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرجو خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں حضرت مغیرہ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دینا کافی ہے یعنی لانبی بعدہکہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسی علیہ السلام پھر تشریف لائیں گے پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوا اور ایک آنا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوگا۔
پس جس طرح مغیرہ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسیٰ بن مریم کی حفاظت کے لیے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایااسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ختم نبوت کے عقیدے کو تو خاتم النبیین کے لفظ سے ظاہر فرمایا اور اس موہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایاکہ جس لفظ سے عیسی علیہ السلام کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتاتھا اور حاشا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائزکہتی ہیں۔
مرزائی مفسر کی شہادت:۔
محمد علی لاہوری اپنے بیان القرآن میں لکھتے ہیں :۔
اور ایک قول حضرت عائشہ کا پیش کیاجاتاہے جس کی سند کوئی نہیں قولوا خاتم النبیین ولاتقولوالانبی بعدہ خاتم النبین کہو او ریہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور اس کا یہ مطلب لیاجاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی کچھ اور تھے اور کاش وہ معنی بھی کہیں مذکور ہوتے۔ حضرت عائشہ کے اپنے قول میں ہوتے، کسی صحابی کے قول میں ہوتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہوتے مگروہ معنی در بطن کے قائل ہیں اور اس قدر حدیثوں کی شہادت جن میں خاتم النبیین کے معنی لانبی بعدی کیے گئے ہیں ایک سند قول پر پس پشت پھینکی جاتی ہے یہ غرض پرستی ہے خدا پرستی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیس حدیثوں کی شہادت ایک بے سند قول کے سامنے رد کی جاتی ہے، اگر اس قول کو صحیح مانا جائے تو کیوں اس کا معنی یہ نہ کیے جائیں کہ حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ دونوں باتیں اکٹھی کہنے کی ضرورت نہیں خاتم النبیین کافی ہے جیساکہ مغیرہ بن شعبہ کا قول ہے کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے کہا ’’خاتم الانبیاء ولانبی بعدہ‘‘ توآپ نے فرمایا خاتم الانبیاء تجھے کہنا بس ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا مطلب ہوکہ جب اصل الفاظ خاتم النبیین واضح ہیں تو وہی استعمال کرو یعنی الفاظ قرآن کو الفاظ حدیث پر ترجیح دو، اس سے یہ کہاں نکلا کہ آپ الفاظ حدیث کو صحیح نہ سمجھتیں تھیں اور اتنی حدیثوں کے مقابل اگر ایک حدیث ہوتی تو وہ بھی قابل قبول نہ ہوتی چہ جائیکہ صحابہ کا قول ہو۔
[بیان القرآن ج2ص1103،1104]
فائدہ: حضرت ام المومنین نے حفظ ماتقدم کاخیال فرماتے ہوئے جو بات فرمائی وہ بہت سے اکابرین نے اپنے اپنے انداز میں لکھی ہے مثلا
1: علامہ زمخشری آیت خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں (فان قلت)کیف کان آخرالانبیاء وعیسیٰ ینزل فی آخرالزمان(قلت)معنی کونہ آخرالانبیاء انہ الانبیااحد بعدہ وعیسی ممن نبی قبلہ وحین ینزل ینزل عاملا علی شریعۃ محمد مصلیا الی قبلتہ کانہ بعض امتہ۔
[کشاف جلد 2ص542 مطبوعہ مصطفیٰ البابی مصر 1367ھ 1948ئ]
ترجمہ: اگر تو کہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح آخری نبی ہوسکتے ہیں درانحالیکہ عیسی علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔میں کہتاہوں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں بنایاجائے گا اور عیسی علیہ السلام آپ سے پہلے نبی بنائے گئے اور وہ جب نازل ہوں گے تو حضورعلیہ السلام کی شرعیت پر عمل کریں گے، آپ کے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں گے گویا کہ آپ کے امتی ہوں گے۔
2: حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔
ھذا مع سماعہم قول اللہ تعالی ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لانبی بعدی فکیف یستجیز مسلم ان یثبت بعدہ علیہ السلام نبیا فی الارض حاشا ما استثناء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الآثار المسندۃ الثابتۃ فی نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام فی آخر الزمان۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان’’ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘اور حضورعلیہ السلام کا ارشاد’’لانبی بعدی‘‘سن کر کوئی مسلمان کیسے جائز سمجھ سکتاہے کہ حضورعلیہ السلام کے بعد زمین میں کسی نبی کی بعثت ثابت کی جائے سوائے نزول عیسی کے آخری زمانہ میں جو رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث مسندہ سے ثابت ہے۔
چند فوائد:۔
[1] حضرت عائشہ وحضرت مغیرہ بن شعبہ کی طرف سے لانبی بعدی کے معنی کاانکار نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ اس کے لیے کسی بحث کی ضرورت نہیں، محدثین سے لانبی بعدی کے ساتھ لا نبوۃ بعدی کے الفاظ روایت صحیح سے ثابت ہیں سو وہ اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔
فالمعنی انہ لایحدث بعدہ نبی لانہ خاتم النبیین السابقین۔
[مرقات ج5ص564طبع قدیم]
]2[ لانبی بعدیکا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس پر لفظ نبی بولا جائے اور وہ اس نام سے لوگوں کے سامنے آئے اور اس نام سے اسے ماننا ضروری ہو وہ آپ کے بعد پیدا نہیں ہوسکتا۔ لا کا لفظ جب نکرہ پر داخل ہو جیسے لا الہ الا اللہ میں تو وہ عموم اور استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی یا غیر تشریعی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔
جب نکرہ نفی کے تحت آئے تو اس میں نفی عام ہوتی ہے لیکن اس عام کا پھیلائو محاورات عرب کے مطابق ہوگا اگر کوئی کسی کو نصیحت کرتے ہوئے کہے کہ یہیں جتنے عمل کرسکتے ہو کر لو موت پر سب عمل ختم ہوجائیں گے اور عربی میں کہتے ہیں لاعمل بعد الموت تو اس میں لا نفی عام کی دلالت یہ ہوگی کہ موت کے بعد کوئی کسی قسم کا عمل نہ ہو سکے گا یہ نہیں کہ پچھلے کیے اعمال بھی سب ختم ہوگئے من یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہپچھلے اعمال سب باقی ہوں گے اور آخرت میں سب سے آگے آئیں گے جس طرح لا عمل بعد الموت میں پچھلے اعمال کی نفی نہیں لانبی بعدی میں پچھلے انبیاء میں کسی کی حیات کی نفی نہیں۔
[ عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم النبوۃ ص 143مع تغییر یسیر]
لا نبی بعدہ کا صحیح معنی:۔
لانبی بعدہ میں بعدہ خبر کے مقام پر آیا ہے اور خبر افعال عامہ یا خاصہ میں سے ہے اور محذوف ہے اس کے معنی تین طرح ہوسکتے ہیں
[1] لانبی مبعوث بعدہ؛ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا مرقات شرح مشکوۃ میں یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو کہ صحیح ہے
[2] لانبی خارج بعدہ؛ حضورعلیہ السلام کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا یہ معنی غلط ہے اس لیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نزول فرمائیں گے حضرت مغیرہ نے انہی معنوں کے اعتبار سے لاتقولوالانبی بعدہ میں ممانعت فرمائی ہے جوسوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
[3] لانبی حی بعدہ۔ اس معنی کے اعتبار سے حضرت عائشہ نے لاتقولوالانبی بعدہ میں ممانعت فرمائی ہے اس لیے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی روایت منقول ہیں اور ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں جو آسمان سے نزول فرمائیں۔
دوالزامی جوابات:۔
1: مرزا قادیانی نے لکھاہے’’دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اورمسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔
[آریہ دھرم مندرجہ روحانی خزائن ج10ص60]
جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو حضرت عائشہ کی طرف منسوب بے سند قول جو بخاری ومسلم کے علاوہ کتابوں میں ہے کیونکر قابل قبول ہو گا۔
2: مرزاقادیانی نے لکھاہے:’’آنحضرت نے باربار فرمادیاتھاکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔
[کتاب البرص199روحانی خزائن ج13 ص217]
سوال یہ ہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ نے ایسی مشہور صحیح حدیث کے خلاف کچھ فرمایا ہو؟
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت قلبی
مولانا عبدالقیوم حقانی
علامہ زاہد الکوثری نے اپنے رسالہ میں نقل کیاہے: ’’ ابراہیم بن الجراح کہا کرتے تھے کہ جب میں نے تحصیل علم کی غرض سے بصرہ جانے کا ارادہ کیا تو امام ابو یوسف کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہواکہ بصرہ جاکر میں کس کے حلقہ درس میں شریک ہوکر استفادہ کریں تو امام ابویوسف بڑی شفقت سے پیش آئے اور ارشاد فرمایا:’’ حماد بن زید بہت بڑے عالم ہیں ان کا تلمذ اختیار کرلو۔‘‘
ابراہیم بن الجراح کہتے ہیں چنانچہ میں بصرہ آیا اور حماد بن زید کی مجلس درس میں باقاعدگی سے حاضری دینے لگا مگر خدا کی قسم مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی تھی کہ جب بھی حماد کی مجلس میں امام ابویوسف کا ذکر ہوتا تھا تو نہایت ہی ناشائستہ اور اہانت آمیز الفاظ کے ساتھ میں دل ہی دل میں کڑھا کرتا تھا آخر میں کر بھی کیا سکتاتھا؟ایک روز حسب معمول میں حماد کے درس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے حماد سے استدعا کی کہ مجھے ایک دستاویز لکھ دیں حماد بن زید جوہمہ تن تدریس اور افادہ علم میں مشغول تھے عورت کی یہ استدعا سن کر کشمکش میں پڑ گئے نہ تو اس عورت کو انکارکرکے اس کا دل توڑنا چاہتے تھے اور نہ طلبہ حدیث سے جو حاضر مجلس تھے بے توجہ ہونا چاہتے تھے۔
ابراہیم بن الجراح کہتے ہیں کہ میں نے حماد کی اس ذہنی کشمکش کا اندازہ کرلیا اور ان کی خدمت میں عرض کیاکہ حضرت عورت سے کہیے کاغذ مجھے دے دیں میں اسے لکھ دیتا ہوں اور آپ اپنے درس میں مشغول رہیے عورت نے کاغذ مجھے دے دیا اور میں دستاویز لکھنے لگا مجھے مصروف دیکھ کر حماد رس حدیث سے رک گئے کہ میں محروم نہ رہ جائوں میں نے عرض کیا حضرت درس روکنے کی ضرورت نہیں میں اپنے کام میں مشغول ہوں آپ اپنا کام جاری رکھئے چنانچہ انہوں نے پھر درس حدیث شروع کردیا۔
جب میں نے دستاویز لکھ لی اور ملاحظہ کے لیے حضرت حماد کی خدمت میں پیش کردی تو انہوں نے اس پڑھا بہت پسند کی اور خوش ہوئے اور مجھ سے پوچھا ابراہیم تم نے یہ علم کس سے سیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا حضرت اس شخص سے سیکھا ہے جس کاذکر آپ کی مجلس میں ہمیشہ برے الفاظ میں کرتے ہے۔
میں ان سے رخصت ہوکر جب بصرہ تحصیل علم کی غرض سے آنے لگا تو میں ان کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہواکہ میں بصرہ جاکر کس کے حلقہ درس میں شریک ہوکر استفادہ علم کرو اور بصرہ میں میں کس کو اپنا استاذ علم بنائوں تو انہوں نے مجھے تاکید کی کہ آپ کے سوا کسی اور کے دامن علم سے وابستہ نہ ہوں حماد یہ سن کر ششد رہ گئے اور مجھے سے پوچھا لیکن کون ہے وہ شخص میں نے جواب دیا وہ ابویوسف ہے نام سنتے ہی حماد پر ندامت کے آثار طاری ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے جب بھی امام ابویوسف کا ذکر کیا تو ذکر خیرکے سوا کچھ نہ تھا۔
اس واقعہ میں عبرت وموعظت ادب واحترام اساتذہ سے تعلق وطلب علم اور اجتماعی حقوق کو ملحوظ رکھنے کے کئی ایک پہلو نکھر کر سامنے آجاتے ہیں اولاً یہ کہ اہل روایت کے لیے امام ابویوسف کا دل بے حدوسیع تھا ثانیایہ کہ ابراہیم بن الجراح امام ابویوسف کے بھی شاگرد تھے اور حماد بن زید کے بھی تاہم حماد سے اپنے استاذ امام ابویوسف کی توہین برداشت نہ کر سکے مگر ان کے ازالہ توہین کے لیے اپنے ا ستاذ حماد کی توہین بھی نہیں کہ بلکہ مناسب موقع کے منتظر رہے، جب موقع مہیا ہواتوپھر بغیر کسی تامل اور تاخیر کے تلافی کرکے رہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اجتماعی اور معاشرتی امور میں اگر حکمت و موعظت سے کام لیاجائے تو مخالف کو بھی کسی طرح موافق بنایا جا سکتا ہے اور یہ بھی معلوم ہواکہ اس زمانہ میں بھی ائمہ احناف سے متعلق بڑے بڑوں کو غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی وجہ سے سوء ظن ہواتھا اور ائمہ احناف کی مخالفت کا یہ سلسلہ چہار طرف پھیلا ہواتھا۔